وزیر اعظم کے خوش آئند اقدامات

35

بات بڑی واضح ہے ، صحافی کسی سیاسی لیڈر کے لئے نہ تو مبتلائے عشق ہوتا ہے اور نہ ہی ابتلائے عشق میں مستغرق رہتا ہے۔اگر ایسا ہوجائے تو وہ اپنے پیشہ سے انصاف نہیں کرپاتا ، بلکہ وہ صحافی کہلانے کا حقدار ہی نہیں ۔ اگر آپ ایک پیشہ ور صحافی ہیں تو آپ کبھی بھی تنقید برائے تنقید کی راہ پر نہیں چلیں گے اور نہ ہی ایسا ہونا چاہیے کہ آپ محض ستائش باہمی کا استعارہ بن کر رہ جائیں۔بطور ایک پیشہ ور صحافی آپ کا کام ہے کہ اگر ایک عوامی لیڈر یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے رکھنے والی اہم شخصیت کوئی غلط کام کرے تو آپ اسے کھل کر حرف تنقید کا نشانہ بنائیں ۔ لیکن ٹھہریے ،یہ تنقید کبھی بھی اخلاقیات اور صحافت کے مروجہ اصولوں کے خلاف نہیں ہونی چاہیے ۔ایسا کرتے وقت الفاظ کا چناﺅ درست ہونا چاہیے۔ آپ کا یہ عمل نا مناسب یعنی (Below the belt) نہیں ہونا چاہیے، بلکہ آپکو ایسا کرتے وقت زبان و بیان کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
اگر سیاسی لیڈر یا اہم شخصیت عوامی و معاشرتی مفاد میں مفید اقدامات کرے تو ان اقدامات کی ستائش ضرور ہونی چاہیے تاکہ اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی کے ذریعے دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دی جاسکے ۔تاہم ان دنوں یہ المیہ سے کم نہیں کہ شعبہ صحافت کا معیار بھی اس وقت دیگر شعبہ ہائے زندگی کی مانند دگر گوں ہے۔ اینکرز ہوں یا صحافی صاحبان زیادہ تر نے کسی نہ کسی جماعت کے ساتھ سائیڈز لے رکھیں ہیں۔ بعض تو ان سیاسی جماعتوں کے کارکنوں سے بڑھ کرانکے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔
حکومت کی جانب سے مہنگائی کنٹرول نہ کرنے کے اقدامات کواپنے گزشتہ کئی کالموں میں ضبط تحریر میں لانے کے بعد وزیر اعظم شبہاز شریف کے حالیہ اقدام کی خبر اخبارات کی شہ سرخیوں میں دیکھی تو محسوس ہوا کہ اس پر بھی ضرور بات ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اپنی اُس پرانی فارم میں نظر آئے جو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب انکی شخصیت کا خاصا رہی ہے ۔یعنی ہر لحظہ عوامی فلاح کے کاموں میں مصروف عمل رہنا۔دیر آید دُرست آید کے مصداق انہوں نے کچھ ایسے اقدامات کا اعلان کیا ہے جس کے آنے والے دنوں میں یقینا پاکستانی کی معاشی صورت حال اور سرکاری کابینہ و مشینری پر دو رس نتائج مرتب ہونگے ۔یوں کہیے کہ مہنگائی کے اس دور میں ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہی سی ، ورنہ عوام کی جانب سے یہ مطالبہ بڑھ رہا تھا کہ مہنگائی کا یہ سارا بوجھ عام آدمی پر ہی کیوں ؟ خواص اس سے کیوں مبرا ہیں؟خیر،بحیثیت صحافی ہم جن اقدامات کے ہونے کے حوالے سے روز لکھتے یا الیکٹرانک میڈیا پر زور دیتے ہیںیہ ان میں سے ایک اہم ترین قدم ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے چند روز قبل کفایت شعاری مہم کا اعلان کیا جس کے تحت وفاقی کابینہ کے تمام ارکان نے رضاکارانہ طور پر اپنی تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئندہ دو سال کے دوران کوئی انتظامی یونٹ، ڈویژن، ضلع یا تحصیل قائم نہیں کی جائے گی، جون 2024تک پرتعیش اشیا، نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہوگی۔توانائی بچت پلان کے مطابق سرکاری دفاتر صبح ساڑھے سات بجے کھلیں گے، توشہ خانہ سے 300 ڈالر تک مالیت کا تحفہ خریدنے کی اجازت ہوگی۔ کفایت شعاری کے ان اقدامات سے 200 ارب روپے سالانہ بچت ہوگی، یہ بچت صرف وفاقی اداروں میں ہوگی، صوبوں کا حصہ علیحدہ ہوگا۔ تمام وفاقی وزرا، مشیر، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی اپنے یوٹیلٹی بلز بھی اپنی جیب سے ادا کریں گے۔کابینہ کے تمام ارکان سے لگژری گاڑیاں واپس لی جا رہی ہیں جن کو نیلام کیا جائے گا، جہاں ضرورت ہوگی، وہاں وزرا کو سیکیورٹی کے لیے صرف ایک گاڑی دی جائے گی۔
کابینہ ارکان اندرون و بیرون ملک اکانومی کلاس میں سفر کریں گے، بیرونی دوروں کے دوران وہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام نہیں کریں گے۔ کابینہ کا رکن، عوامی نمائندہ یا سرکاری افسر لگژری گاڑی پر سفر نہیں کرے گا، سرکاری افسران کے پاس موجود سکیورٹی گاڑیاں واپس لی جا رہی ہیں، صرف خطرے کی صورت میں افسران کو سکیورٹی دی جائے گی۔بیرون ملک سفری اخراجات اور قیام میں کمی لائی جائے گی۔ سرکاری دفاتر میں کم بجلی استعمال کرنے والے آلات کا استعمال کیا جائے گا، سرکاری ملازمین اور حکومتی اہلکاروں کو ایک سے زائد پلاٹ الاٹ نہیں کیا جائے گا، وفاق اور صوبوں میں انگریز دور کے سرکاری گھر میں جو کئی ایکڑ پر مشتمل ہیں کی فروخت کے لیے وزیر قانون کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ان افسروں کے لیے ٹاﺅن ہاﺅسز تعمیر کیے جائیں گے اور تمام سہولیات کے ساتھ اچھے گھر دیے جائیں گے جب کہ موجودہ گھروں کی زمینوں کو بیچ کر اربوں روپے کے وسائل جمع کریں گے۔
مزید برآں تمام وزارتی اور ادارہ جاتی اخراجات میں 15فیصد کمی کی جائے گی، سرکاری تقریبات، وفاقی وزارتوں، اداروں میں ون ڈش کی پابندی ہوگی، چائے کا موقع ہوگا تو صرف چائے اور بسکٹ دیے جائیں گے۔ غیر ملکی مہمانوں کے لیے یہ پابندی نہیں ہوگی۔وزیراعظم نے صوبائی حکومتوں، عدلیہ سے درخواست کی کہ کفایت شعاری اور سادگی پر عمل کریں، پاک فوج نے غیر جنگی اخراجات میں کمی کے لیے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے۔یہاں کچھ موازانہ بھی ضروری ہے اگر ہم تھوڑا ماضی میں چلے جائیں تو سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے بھی کفائیت شعاری کے کچھ اقدامات کا اعلان ہوا تھا۔
ان میں سے کچھ یوں تھے۔،وزیر اعظم ہاﺅس کو یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے گا ۔500ملازمین کی فوج ظفر موج کو کم کرکے دیگر محکموں میں کھپایا جائے گا، گورنرز ہاﺅس فروخت کیے جائیں گے، وز یر اعظم ہاﺅس کے زیراستعمال 500 بلٹ پروف لگژری گاڑیوں کو فروخت کیا جائے گا۔ عمران خان نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے لیے محض دو گاڑیاں اور دو ملازم رکھیں گے ۔ لیکن ہوا پھر کچھ یوں کہ ان تلوں میں تیل نہ رہا، نہ تو وزیر اعظم ہاﺅس یونیورسٹی میں تبدیل ہوا ، نہ ہی گورنر ہاﺅ س بکے ، نہ ہی بلٹ پروف گاڑیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی بلکہ کچھ ہی عرصہ کے بعد مزید گاڑیا ں شامل کرلی گئیں۔مزید برآں نہ ہی وزیر اعظم ہاﺅس کے اخراجات میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی ملازمین کی فوج ظفر موج میں ۔
وز یر اعظم شہباز شریف ایک سخت ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اعلان کردہ اقدامات پر من و عن عمل کروائیں تاکہ عوام میں یہ احساس جاگزیں ہوسکے کہ عمران خان کی گزشتہ حکومت نے پاکستان کو قرضوں کے جس بھاری بوجھ تلے دبایا تھا اور جس کی وجہ سے آج آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو قبول کرنا پڑ رہا ہے اس کے اثرات محض پاکستان کی سوختہ بال عوام ہی کو نہیں بھگتنا پڑ ینگے بلکہ امیر اور صاحب ثروت طبقہ کو بھی اسکا بوجھ برداشت کرنا پڑ ے گا۔ یہ امر قابل غور ہے کہ اس وقت ریاستی وسائل کا سب سے زیادہ بے دردی سے استعمال پاکستان کی بیوروکریسی کر رہی ہے۔ پنجاب میں تعینات ’بابو ‘ نہ صرف کئی کئی کنال پر مشتمل رہائش گاہوں پر قابض ہیں بلکہ بیشتر بیوروکریٹس کے پاس ایک کی بجائے چھ سے زائد گاڑیاں ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف کے اقدامات کا اصل فائدہ تب ہوگا جب بیوروکریسی کے منہ زور گھوڑے کو بھی لگا م ڈالی جائے گی۔

تبصرے بند ہیں.