ایک سفر جو آج بھی بھولا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

56

اٹھارہ بیس میل یا چوتینس پینتیس کلو میٹر مسافت پر محیط پیدل سفر، آدمی سوچے تو دل لرزنے، ٹانگیں کانپنے اور ہمت جواب دینے لگتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں نے اپنے گاؤں سے پنڈی تک پیدل یہ سفر کیا ہے۔ اس میں مجھے کتنی تھکاوٹ ہوئی، کتنی تکلیف اُٹھانی اور کلفتیں برداشت کرنی پڑیں، وہ اپنی جگہ لیکن یہ سفر میرے لیے اتنا یادگار ہے کہ آج بھی تریسٹھ چونسٹھ برس قبل کاوہ زمانہ لوٹ آئے ، وہ پیاری اور محترم ہستی جس کی رفاقت میں میں نے یہ سفر کیا تھا، اس کا ساتھ نصیب ہو جائے تو میں ایک بار پھر اللہ کا نام لے کر خوشی سے یہ سفر کرنے پر تیار ہو جاو¿نگا۔ یہ سفر کیا تھا؟ کیسے اور کس مقصد کے لیے کیا تھا؟ میں ذہن کے نہاں خانے میں یادوں کو کریدتا ہوں تو 1960کا سن اُبھرکر سامنے آتاہے۔ میں نے ایک سال قبل میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا اور مسئلہ یہ تھا کہ کوئی نوکری ، کوئی روزگار ملے تاکہ اپنے کنبے کی کفالت میں اپنے محترم والدین کا ہاتھ بٹا سکوں۔
بلا شبہ دن بہت مشکل تھے۔ والد گرامی محترم لالہ جی مرحوم و مغفور ایک چھوٹے درجے کے کسان تھے۔ آٹھ نو افراد پر مشتمل کُنبہ اور آمدنی انتہائی محدود۔ بڑے بھائی حاجی ملک غلام رزاق تین چار سال قبل میٹرک پاس کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہو گئے تھے۔ اُن کی طرف سے کچھ پیسے ہر ماہ آجاتے تھے لیکن پھر بھی بہت مشکل سے گزارا ہوتا تھا۔ اس صورتحال کے پیش نظر ضروری تھا کہ میں بھی کوئی نوکری تلاش کروں یا بڑے بھائی کی طرح فوج میں بھرتی ہو جاو¿ں۔ فوج میں بھرتی ہونے کے حوالے سے مسئلہ یہ بھی تھا کہ بظاہر میری قد و قامت فوج میں بھرتی ہونے کی شرائط پر پوری نہیں اُترتی تھی۔ پھر بھی طے پایا کہ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ پنڈی کا سفر اختیار کیا جائے۔ میری اُس وقت پنڈی سے شناسائی نہ ہونے کے برابر تھی۔ دو تین قریبی رشتہ دار جو عمر میں مجھ سے بڑے تھے، وہ پنڈی میں ملازم تھے۔ اُن سے پنڈی کے بارے میں باتیں وغیرہ سن رکھی تھیں، اس طرح پنڈی جانے کا دل میں شوق ضرور تھا۔ جنوری 1960کی سردیوں کا ایک دن تھا کہ میں اور وا لدِ گرامی محترم لالہ جی مرحوم و مغفورپنڈی کے لیے لاری پکڑنے کے لیے گھر سے نکلے۔ ہماری بد قسمتی کہ ہم گاو¿ں سے سواں پار تقریباً تین چار کلومیٹر فاصلے پر لاری کے سٹاپ (اڈے) پر پہنچے تو لاری اس سے پہلے پنڈی کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔ اب گھر واپسی یا پنڈی تک پیدل سفر دو ہی راستے تھے۔ گاو¿ں واپسی کی بجائے پنڈی تک پیدل سفر کا فیصلہ ہوا۔ میں اس کے لیے اس بناءپر بھی تیار ہو گیا کہ لاری کے سفر میں مجھے قے وغیرہ ہو جاتی تھی، میں اُس سے بچ جاو¿نگا۔ اللہ کا نام لے کر پنڈی تک سترہ اٹھارہ میل (موجودہ تیتیس ، چونتیس کلومیٹر) کی مسافت طے کرنے کے لیے پیدل چل پڑے۔ محترم لالہ جی نے کپڑوں والا تھیلا اُٹھا رکھا تھا اور ساتھ ہی مجھے حوصلہ بھی دیئے جا رہے تھے۔ چلتے گئے سڑک پر واقع دیہات سود ، چھاوڑیاں، بودیال، ڈھلہ، خصالہ خورد، خصالہ کلاں، ڈھوک راجا اور آگے "چیر پڑوں”تک پنڈی کا آدھا یا آدھے سے کچھ زیادہ سفر طے ہوا تو میں بُری طرح تھک چکا تھا، کچھ دیر سستانے کے لیے رُکے۔ لالہ جی نے حوصلہ دیا پھر آگے چل پڑے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا۔
"چیر پڑوں” سے آگے "گھنیری کسی”کی اُترائی پھر چڑھائی اور اس سے آگے بندہ اور حیال کے دیہات سے گزر کر دھمیال گاو¿ں پہنچے تو تقریباً عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ میرے لیے اب ایک قدم اُٹھانا بھی دوبھر ہو چکا تھا۔ ہم گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی لوکل (اُومنی بس سروس) کی بس کے انتظار میں بیٹھ گئے جو راجہ بازار چوک فوارا سے براستہ صدر، بائیس نمبر چونگی اور بکرا منڈی، دھمیال گاو¿ں تک چلا کرتی تھی۔ کچھ دیر میں بس آگئی پھر اُس میں بیٹھ کر دھمیال فوجی کیمپ اوربکرا منڈی سے گزرتے ہوئے بائیس نمبر چونگی تک پہنچ گئے۔ یہاں میرے ایک کزن ملک محمد انور مرحوم ایک کوارٹر میں رہائش پذیر تھے۔ ہم اُن کے پاس پہنچے تو شام پڑنے میں کچھ ہی وقت باقی رہ گیا تھا۔ تھکن سے میرا بُرا حال تھا ، ملک انور صاحب نے خود ہی سالن وغیرہ بنایا اور تندور سے روٹیاں لے آئے۔ کھانا کھانے کے بعد میں جلد ہی سو گیا۔ صبح جاگے تو ملک انور صاحب جو سی بی ٹیکنکل ہائی سکول لالکڑتی میں پڑھاتے تھے اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے اور میں نے محترم لالہ جی کے ہمراہ صدر مال روڈ پر پاک فضائیہ کے ریکروٹنگ اور سیلکشن سینٹر کا رُخ کیا۔ پاک فضائیہ کا ریکروٹنگ اور سیلکشن سینٹر صدر مال روڈ پر اپنی موجودہ جگہ پر ہی تھا۔ ہم یہاں پہنچے تو اس کا کشادہ لان بھرتی کے خواہش مند میری یا مجھ سے کچھ بڑی عمر کے نوجوان لڑکوں سے بھرا ہوا تھا۔ مجھے جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ میں کسی حد تک اپنے کمزور جسمانی خد وخال اور کم وزن کی وجہ سے سیلکشن کے ابتدائی مرحلے سے ہی آگے نہیں بڑھ پاو¿نگا۔ تاہم میں نے اس کا کوئی منفی اثر قبول نہ کیا بلکہ سیلکشن سینٹر میں پاک فضائیہ کے مختلف طیاروں اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کی آویزاں تصاویر وغیرہ ہی دیکھتا رہا۔ اسی دوران میری ہائی سکول کے اپنے ایک ہم جماعت چوہدری محمد بشیر آف پنڈ ملہو سے ملاقات ہو گئی۔ کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والا چوہدری محمد بشیر اور میں ہائی سکول میں نویں تک ہم جماعت تھے۔ دسویں میں اس کے والد نے اسے ضلع چکوال میں سہگل آباد میں نئے نئے قائم ہوئے اعلیٰ معیار کے حامل سہگل ماڈل سکول میں داخلہ دلوا دیا۔ یہ سکول اُس دور کے پاکستان کے مشہور صنعت کار خاندان سہگل فیملی نے اپنے آبائی قصبے کھوتیاں (نیا نام سہگل آباد) میں قائم کیا تھا۔ چوہدری بشیر سے ڈیڑھ دو سال بعد ملنا ہوا تو دل خوش ہوا لیکن وہ اپنے دو تین ساتھیوں کے ساتھ جس موضوع پر مسلسل گفتگو کر رہا تھا وہ میرے لیے اُس وقت تک کچھ غیر مانوس سا تھا۔
چھ عشروں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود مجھے آج بھی یاد ہے کہ چوہدری بشیر اور اس کے ساتھی "کوئل”نام کی فلم جو رات کو انھوں نے دیکھی تھی کے مناظر ، کرداروں اور گانوں کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ملکہ ترنم نور جہاں جنہوں نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اور ان کے گائے ہوئے گانے خاص طور پر یہ گانا”رم جھم، رم جھم پڑے پھوہار، میرا تیرا نت کاپیار” ان کا بطورِ خاص موضوع تھا، چوہدری بشیر بھی میری طرح پی اے ایف میں بھرتی ہونے سے رہ گیا۔ تاہم بعد میں پتہ چلا کہ وہ نیوی میں بھرتی ہو گیا ہے۔ مجھے بھی اُسی سال اپریل میں گورنمنٹ نارمل سکول گجرات میں جے وی کلاس میں داخلہ مل گیا۔ اللہ کریم کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس کے کرم ، اُس کے حبیب پاک ﷺکے صدقے اور محترم والدین کی دُعاوں کے طفیل جے وی کے بعد راولپنڈی کینٹ بورڈ کے ایک تعلیمی ادارے میں بطورِ جونئیر ٹیچر تقرری ہوئی تو تعلیم کا سلسلہ بھی آگے بڑھتا رہا۔ بی اے کرنے کے بعد سینٹرل ٹریننگ کالج سے بی ایڈ اور اس کے بعد ایم اے اُردو تک تعلیم مکمل کرنے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ محکمانہ ترقی کا سلسلہ بھی جاری رہا، یہاں تک کہ اکتوبر 2002ءمیں بطور پرنسپل پبلک سیکنڈری سکول گورنمنٹ ملازمت کی تکمیل ہوئی۔
بات تو یادگار سفر کے تذکرے سے شروع ہوئی تھی ، ذرا دور نکل گئی۔ سچی بات ہے ہر ہفتے ہی پنڈی سے گاو¿ں آنا جانا ہوتا ہے تو اڈیالہ روڈ کی پختہ سڑک پر اپنی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کبھی کبھار اس سفر کا خیال آجاتا ہے جو تریسٹھ چونسٹھ برس قبل محترم لالہ جی مرحوم و مغفور کے ہمراہ پیدل پنڈی تک کیا تھا۔ دل بے چین ہو جاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُڑ کر اسی دور میں پہنچ جاو¿ں لیکن گزرا ہوا وقت کب لوٹ کر آتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.