یہ گھڑی محشر کی ہے

57

سوویت یونین اس کرہ ارض پر امریکہ کے مقابل دوسری سپر پاور کے طور پر اپنا وجود رکھتا تھا۔ رقبہ اتنا بڑا کہ ایک جانب چین افغانستان سے سرحدیں ملتی ہیں تو دوسری جانب امریکن ریاست الاسکا سے قریب۔ ایک کونے سے دوسرے کونے تک وقت میں گیارہ گھنٹوں کا فرق۔سامان حرب میں امریکہ کے ہم پلہ ہزاروں نیو کلیئر ہتھیاروں سے لیس دفاعی لحاز سے انتہائی طاقتور اس سپر پاور کا شیرازہ کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ معاشی تباہی کی وجہ سے بکھرا۔سوویت یونین کے خلاف سازش امریکہ نے کی تھی اور گوربا چوف اس سازش کے مہرہ بنے تھے۔ اب اگر وطن عزیز کے حالات پر نظر ڈالیں تو جب سے ہوش سنبھالا یہی سنتے آ رہے ہیں کہ ملک بڑے نازک موڑ سے گذر رہا ہے لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کر حقیقت میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ملک واقعی نازک موڑ سے گذر رہا ہے۔ ایک جانب موجودہ حکمران ہیں کہ جو ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی طرح ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جائے لیکن دوسری جانب عمران خان ہیں کہ جن کی چار سالہ کارکردگی کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا ہے اور ان کی اب بھی یہی کوشش ہے کہ ملک خدا نخواستہ دیوالیہ ہو جائے تاکہ انھیں یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ ملک صرف میں چلا سکتا ہوں باقی سب نا اہل ہیں۔جب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو خان صاحب نے کہا تھا کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش ہوئی ہے جس میں امریکہ شامل ہے۔ اگر موجودہ حکومت واقعی امپورٹڈ حکومت ہوتی اور اسے امریکہ کی آشیر باد حاصل ہوتی تو موجودہ حکومت کے بر سراقتدار آنے کے بعد دودھ اور شہد کی نہریں بے شک اس ملک میں جاری نہ ہوتیں لیکن کم از کم سانس لینے کے لئے آکسیجن تو مل جاتی لیکن یہاں تو گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ معیشت کو سانس لینے کے لئے آکسیجن تک ملنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہر کسی کے علم میں ہے کہ آئی ایم ایف پر امریکہ کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے اگر یہ حکومت امریکہ کے اشارے یا امریکن سازش سے آئی ہوتی تو آئی ایم ایف جس طرح موجودہ حکومت سے ناک کی لکیریں نکلوا کر بھی کچھ دینے پر آمادہ نہیں ہو رہا تو اس کے بر عکس امریکہ کے ایک اشارے پر آئی ایم ایف اب تک پاکستان کو کئی ارب ڈالر دے چکا ہوتا لیکن حالت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بعد ورلڈ بنک نے بھی پاکستان کو اس مشکل ترین وقت میں ایک ارب سے زائد کی ادائیگی اگلی سہ ماہی تک موخر کر دی ہے اور ہمارے دوست ممالک سے ابھی تک بیانات کے سوا ہمیں کوئی بڑا ریلیف نہیں مل سکا۔ اب اگر کوئی سازش ہوئی تھی تو وہ موجودہ حکومت کے حق میں ہوئی تھی یا اس کے خلاف اس کا فیصلہ قارئین خود کر لیں۔
گذشتہ روز سٹیٹ بنک کے گورنر نے کراچی کے تاجروں سے ملاقات کی۔ جس میں انھوں نے بتایا کہ اگلے ہفتہ ملک میں ڈالر آنا شروع ہو جائیں گے۔ ان کی اس بات کے فقط چند گھنٹے بعد ہی ورلڈ بنک نے پاکستان کو دئیے جانے والے قرض کی ادائیگی کو اگلی سہ ماہی تک موخر کر دیا البتہ متحدہ عرب امارات نے ایک ارب ڈالر بھیج دیئے ہیں۔اس ملاقات کے دوران کراچی چیمبر کے صدر نے موجودہ معاشی صورت حال پر اپنی بے بسی کا
اظہار اس طرح کیا کہ کراچی چیمبر کے تالے کی چابی گورنر اسٹیٹ بنک کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ آپ رکھ لیں ہم سے تو اب کاروبار نہیں چلتا۔ انھوں نے کچھ غلط نہیں کہا تھا اس لئے کہ کراچی پورٹ پر ہزاروں کی تعداد میں کنٹینر پڑے ہوئے ہیں لیکن بنک سے امپورٹرز کو کاغذات نہیں مل رہے اور اگر مل رہے ہیں تو اتنی تاخیر سے کہ ایک کنٹینر پر چالیس چالیس لاکھ روپے شپنگ کمپنی کی ڈیٹینشن کے ادا کرنے پڑ جاتے ہیں تو ایک کنٹینر پر نفع کی شرح اتنی زیادہ تو نہیں ہوتی لہٰذامپورٹرز کو کروڑوں
کا نقصان ہو رہا ہے اور مال کی تاخیر سے کلیرنس پر بندر گاہ کے مزدوروں سے لے کرامپورٹرز اور ان کے ملازمین اور کسٹم کلیرنس سے وابستہ افراد سے لے کر جہاں جہاں مال سپلائی ہوتا ہے اس سے لاکھوں افراد منسلک ہیں جن کا روزگار خطرے میں پڑ چکا ہے اور اگر یہ صورت حال مزید کچھ عرصہ جاری رہی تو ملک انتہائی خوف ناک انارکی اور خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔
گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ امپورٹر اگر ڈالر کا بندوبست خود کر لے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ہم نے یہی بات 31دسمبر کو شائع ہونے والے اپنے کالم ”کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر“ میں عرض کی تھی کہ ”حکومت معیشت کی نازک صورت حال کے پیش نظر درآمدی اشیاء کی ادائیگی کے لئے ڈالر کے بندوبست کی ذمہ داری پہلے کی طرح ایک مرتبہ پھر درآمد کنندگان پر ڈال رہی ہے اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو یہ ایک احسن اور خوش آئند اقدام ہو گا۔ اس لئے کہ حکومت کو درآمدی بل کی مد میں سالانہ اربوں ڈالر جو دینے پڑتے ہیں اور جس سے ادائیگیوں کے توازن میں فرق پڑتا ہے اس میں بڑا فرق پڑے گا اور اس وقت ہزاروں کنٹینر جن کی کلیئرنس حکومت کے پاس ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی کئی مہینے کراچی پورٹ پر رک کر ہو رہی ہے اس میں بہتری آئے گی اور ملک میں کاروباری سرگرمیاں اور خاص طور پر انڈسٹری کو جو نقصان ہو رہا ہے اس کا بھی ازالہ ممکن ہو سکے گا۔“افسوس اس بات کا ہے کہ گورنر سٹیٹ بنک کے واضح اعلان کے بعد بھی بنک امپورٹرز کو یہ سہولت دینے کو تیار نہیں ہیں حتیٰ کہ درآمد کنندگان نے تو بنکوں کو یہاں تک کہا ہے کہ آپ کے پاس ڈالر نہیں ہیں تو آپ ایک سال بعد ادائیگی کر دیں لیکن اس پر بھی بنکوں کا نہ ماننا اس بات کااشارہ ہے کہ ڈالروں کی قلت تو مسئلہ ہے لیکن اس کے علاوہ بھی معیشت کا بیڑا غرق کرنے کے لئے کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہو رہی ہے جس کا حکومت کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے اور جو بھی ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی اس گھناؤنی سازش میں ملوث ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے اور آخری بات کہ وزیر اعظم قوم کو اعتماد میں لیں اور وڈیوز کی شکل میں قوم کو بتائیں کہ نومبر 2021میں شبر زیدی نے کہا تھا کہ ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ شوکت ترین کے بیانات کو قوم کے سامنے رکھیں کہ جس میں وہ حفیظ شیخ پر تنقید کرتے ہوئے معیشت کی اصل صورت حال بتا رہے ہیں اور شخ رشید صاحب کے بیان کو بھی قوم کے سامنے رکھیں کہ جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس ملک کا سب کچھ گروی رکھ دیا گیا ہے اور ان کا یہ بیان بھی قوم کو بتائیں کہ جس میں وہ کہہ رہے ہیں اگر تحریک انصاف کی حکومت قائم رہتی تو ان کے لئے عوام کے پاس جانا مشکل ہو جاتا اور سب سے اہم تحریک انصاف کی حکومت کا آئی ایم ایف سے کیا گیا معاہدہ جو موجودہ حکومت کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے اسے قوم کے سامنے رکھیں اور تمام حقائق بتانے کے بعد جو مشکل معاشی فیصلے ہیں وہ لیں خدا نے چاہا تو قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہو گی اس لئے کہ سچ میں بڑی طاقت ہوتی ہے لیکن پہلے آپ اپنے اندر سچ بتانے کی ہمت تو پیدا کریں۔

تبصرے بند ہیں.