بے روزگاری اور سماجی مسائل

165

اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں ایک نوجوان جس کے بالوں کے رنگ سے لے کر جوتوں کا رنگ سنہرا ہے۔ یہ نوجوان ایک سنہرے بُت کا روپ دھارے جناح سُپر مارکیٹ کے ایک چوک پر صبح سے شام تک کھڑا ہوتا ہے۔ احسان نامی یہ نوجوان سکول میں تین جماعتیں ہی پڑھ سکا اور روزگار کی تلاش میں کراچی سے اسلام آباد آیا۔ ایک اخباری خبر کے مطابق اسے یہ روپ اختیار کرنے کے لیے 1500 سے 2000 روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اسلام آباد کے رہائشی اور خاص کر بچے اس نوجوان کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں، ویڈیو بنواتے ہیں، مصافحہ کرتے ہیں اور حوصلہ افزائی کے لیے پیسے بھی دیتے ہیں جن سے اس نوجوان کی گزر بسر اچھے طور سے ہو جاتی ہے۔ اس نوجوان کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد کے ایف سیون اور ایف سکس کے تقریباً ہر دوسرے چوک پر گولڈن مین کا حلیہ اختیار کیے بہت سے نوجوان کھڑے نظر آتے ہیں۔ خبر نہیں کہ یہ فن ہے یا کچھ اور؟
اسی طرح راولپنڈی کے مال روڈ پر واقع پرل کانٹی نینٹل ہوٹل کے چوک سے لے کر صدر کے جی پی او چوک تک کے ایریا میں ایک نوجوان موٹر سائیکل پر پانچ
چھ سال کی بچی کو بٹھائے گھومتا ہے اور ہر دوسری کار کا شیشہ کھٹکھٹاتا ہے اور مدد کی اپیل کرتا ہے۔ لوگ اس بچی کو دیکھتے ہوئے اس کی کچھ نہ کچھ مدد کر دیتے ہیں۔جس ایریا کا ذکر ہے یہاں اہم ترین ادارے کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ پہلے یہ ایک شخص تھا جو بچی کو موٹر سائیکل پر بٹھائے مدد کی درخواستیں کرتا تھا۔ اسے دیکھ کر ایک اور شخص نے بھی اس ”آئیڈیا“ کو اختیار کیا اور اس نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا اور بچی کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر مدد مانگنا شروع کر دی۔ یہ دونوں موٹر سائیکل سوار صحت مند اور جوان ہیں چاہیں تو مزدوری یا ملازمت کر کے باعزت روزگار کما سکتے ہیں۔ مگر؟ ایک شخص ایک نوعمر لڑکی جسے وہ اپنی بیوی بنا کر پیش کرتا ہے اور یہ ہی کوئی پانچ چھ سال کی بچی کیساتھ راولپنڈی شہر کے اندرونی چوکوں پر کھڑا ہوتا ہے اور مدد کی درخواست کرتا ہے کہ کسی دوسرے شہر سے آیا ہے روپے پیسے گم کر بیٹھا ہے اور گھر جانے کے لیے زادِ راہ درکار ہے۔
ایک دوست نے بتایا کہ ان کے گھر پر صفائی کے لیے ایک خاتون آتی ہیں جن کی اپنی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے۔ چند روز کے بعد اس خاتون نے آنا بند کر دیا اور بارہ تیرہ سال کی اپنی پوتی کو کام کے لیے بھیجنا شروع کر دیا۔ دوست نے اپنے گھر والوں سے پوچھا کہ یہ بچی کیوں کام کر رہی ہے؟ جس کی عمر ابھی پڑھنے کی ہے، تو جواب ملا کہ یہ اس خاتون کی پوتی ہے۔ باپ کسی اور کے عشق میں مبتلا ہوا اور دوسری شادی کر لی۔ ماں نے احتجاج میں طلاق لی اور دوسرا نکاح کر کے اپنا ”نیا گھر“ بسا لیا۔ اب یہ بچی اپنی چھوٹی بہن کی تعلیم کا خرچ بھی اُٹھاتی ہے اور لوگوں کے گھروں میں صفائی کا کام کرنے والی اپنی دادی کا بھی ہاتھ بٹاتی ہے۔ دوست نے یہ روداد سنی تو اس کی دادی کو بلایا اور پیش کش کی کہ اس بچی کی پڑھائی کا سلسلہ شروع کرا دیں یا پھر سلائی کڑھائی کا کوئی کورس کرا دیں، خرچ وہ برداشت کر لیں گے۔ دوست نے کہا کہ اُن کا خیال تھا کہ بچی کی دادی یہ پیش کش قبول کر لے گی۔ مگر اُس وقت تو دادی نے بات مان لی مگر اس ملاقات کے بعد اس موضوع پر بات ہی نہیں کی۔
یہ بے روزگاری اور بہتر مستقبل پر بدحالی کی چند مثالیں ہیں۔ جیسا کہ برادر عزیز عمار نے توجہ دلائی کہ ٹی وی چینل ہوں یا اخبارات، ان پر ہاؤسنگ سکیموں اور موبائل بنانے والی اور موبائل نیٹ ورک کمپنیوں کے اشتہارات کی بھرمار ہے۔ یہ بات ایک عام ذہن کا فرد بھی سمجھتا ہے کہ ملک میں نئے کارخانے نہ لگنے اور زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بناۃنے سے ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہو گا اور سماجی مسائل شدت اختیار کریں گے۔ مگر ہماری سیاسی جماعتیں اور پالیسی ساز ادارے اس باب میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ دن بہ دن ہماری معیشت کا دار و مدار زراعت، تجارت اور صنعت کے بجائے قرض پر ہوتا جا رہا ہے۔ مگر ہم بے خبر ہیں کہ ہماری یہ قرض مستی ایک دن کیا رنگ لائے گی؟

تبصرے بند ہیں.