کابل میں واقع ہمارے سفارت خانے کے ناظم الامور عبید اللہ نظامانی ایک بار پھر واپس چلے گئے ہیں اور انہوں نے اپنی سفارتی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ بہت اچھا ہوا ہے افغان طالبان حکومت نے وضاحت دی ہے کہ پاکستانی سفارتخانے پر حملہ برادر ممالک کے تعلقات خراب کرنے کی سازش ہے جس میں غیرملکی گروہ ملوث ہے۔ داعش اور باغیوں نے مشترکہ حملہ کیا۔ مقصد طالبان حکومت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب کرنا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی معاملات ایک بار پھر معمول کے مطابق استوار ہو چکے ہیں۔
پاک افغان تعلقات روزِ اوّل سے ہی شدید اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں افغان حکمران سوائے طالبان کے ہمیشہ بھارت نواز اور پاکستان مخالف رہے ہیں۔ چاہے کنگ ظاہر شاہ کا دورِ حکمرانی ہو یا سردار داؤد کا دورِ اقتدار یا ببرک کارمل تا نجیب اللہ کا دورِ حکمرانی، ہر دور میں افغان حکمران پاکستان کے خلاف برسرِ پیکار رہے ہیں پھر 2001 میں دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں گو ہم امریکی اتحادی ہے مگر سرزمین افغانستان ہمارے لئے دشمنوں کی جائے پناہ ہی بنی رہی۔ امریکی اتحادی فوجیوں سے لڑنے والے غیور افغان ہماری سرزمین کو جائے پناہ کے طور پر استعمال کرتے رہے جبکہ افغانستان کی سرزمین پر بھارت سرکار نے ہمارے خلاف مورچہ بندی کر رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ 2003 کے بعد امریکی اتحادی افواج کی جاری جنگ پاک افغان سرحدات سے ابل کر ہمارے بندوبستی علاقوں میں داخل ہو گئی پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ جنگ کراچی کے ساحلوں اور کوئٹہ کے پہاڑوں تک پھیل گئی۔ تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان کو آتش و آہن میں نہلا دیا۔ پاکستان ایک طرف امریکی اتحادی کے طور پر ان کی جنگ کو سپورٹ کرتا رہا جو کہ پاکستان کی 40 سالہ خارجہ پالیسی کے برعکس تھا۔ ہم نے 70 کی دہائی میں سوویت یونین کی فوج کشی کے خلاف افغانوں کی جدوجہد آزادی کو طے شدہ عالمی قوانین اور اپنی قومی سلامتی کی پالیسی کے مطابق سپورٹ کیا تھا اور اس میں عالم اسلام اور اقوام عالم ہمارے ساتھ تھیں۔ اشتراکی افواج کشی کے خلاف افغان مجاہدین کی مدد کے ہمیں بھی فائدے حاصل ہوئے۔ عالمی امداد جی بھر کر ملی اس دور میں ہم نے اپنا ایٹمی پروگرام بھی مکمل کیا۔ لیکن جب 2001میں
امریکی اتحادی افواج افغانستان پر حملہ آور ہوئیں تو ہم نے اپنی طے شدہ پالیسی پر یوٹرن لے کر اپنی آزادی کا تحفظ کرنے والوں کے خلاف حملہ آور افواج کی حمایت کا فیصلہ کیا یہ بات ہماری قومی سلامتی کے طے شدہ اصولوں کے خلاف تھی یہ اسی فیصلے کے نتائج ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوا، 100 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا، 70 ہزار افراد کا جانی نقصان ہوا اور معاشرتی ابتری اس کے علاوہ تھی۔ ہمارا ریاستی ڈھانچہ بھی شکست و ریخت کا شکار ہوا۔ خدا کاکرنا ہوا کہ طالبان یہ جنگ جیت گئے امریکی اتحادی بے نیل و مرام افغانستان سے نکل بھاگے اور طالبان اقتدار پر پھر قابض ہو گئے۔
پاکستان میں اس حوالے سے خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ہم نے طالبان کی فتح کا جشن بھی منایا۔ طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے میں پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ مذاکرات کی کامیابی میں بھی پاکستان کا مثبت کردار رہا اور اس کاوش کو امریکی سراہتے بھی رہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہماری افغان سرحدیں مکمل طور پر محفوظ و مامون ہوجاتیں کیونکہ طالبان کے ساتھ ہمارے تعلقات پہلے سے ہی بہت اچھے تھے۔ 2001 میں امریکی فوج کشی سے پہلے طالبان حکومت کو ہم نے تسلیم کر کے سفارتی مدد فراہم کی تھی دنیا نے اس وقت بھی طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا تھا صرف تین ممالک نے انہیں تسلیم کیا تھا اور پاکستان ان میں ایک تھا۔ اس لئے جب امریکی یہاں سے نکلے تو لامحالہ ہمیں اس بات کی خوشی ہوئی کہ اب کابل میں ہمارے دوست طالبان کی حکومت قائم ہو گی تو ہمارے دشمن افغان سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال نہیں کر سکیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ تحریک طالبان پہلے کی طرح ہی ہمارے خلاف برسرپیکار ہے پہلے بھی وہ افغان سرزمین اور سرحدات سے ہم پر حملہ آور ہوتے تھے اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے طالبان کا کہنا ہے کہ ہم ان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کریں۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ داعش اور دیگر باغی گروہ بھی افغانستان میں سرگرم مل ہیں جو نہ صرف ہمیں نقصان پہنچانے کی کاوشیں کر رہے ہیں بلکہ افغان حکومت کی رٹ کوبھی چیلنج کر رہے ہیں پاکستانی سفارتخانے پر حملہ اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتی ہے۔
طالبان نے بغیر کسی بیرونی امداد کے اپنی رٹ قائم کر دکھائی ہے افغانستان میں بحیثیت مجموعی طالبان حکومت کی رٹ قائم ہو چکی ہے باغی گروہ تو موجود ہیں لیکن وہ کھلے عام طالبان کی رٹ کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں طالبان عزم بالجزم کے ساتھ افغانستان میں اپنی حکومت قائم کرنے اور غلبہ پانے کی کامیاب کاوشیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے بغیر کسی بیرونی امداد کے بجٹ پیش کر کے بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے بہت سے ماہرین کا خیال تھا کہ امریکی و مغربی امداد کے بغیر افغانستان میں قابل عمل حکومت چلانا ممکن نہیں ہو گا لیکن طالبان نے یہ حیران کن کام بھی کر دکھایا ہے۔ افغانستان بتدریج معمول کی طرف لوٹتا دکھائی دے رہا ہے سرکاری ادارے کام کرنے لگے ہیں تعمیرنو جاری ہے قطر، ترکی اور دیگر ممالک افغانستان کے معاشی و ریاستی ڈھانچے کی تشکیل نو کے لئے تعاون کر رہے ہیں غیرملکی این جی اوز بھی کام کرنے لگی ہیں امریکہ کا رویہ ابھی تک دشمنوں جیسا ہی ہے عالمی مالیاتی اداروں کے دستِ شفقت کے بغیر طالبان حکومت کا قائم رہنا اور چلتے رہنا یقینا کسی معجزے سے کم نہیں ہے طالبان اس سے پہلے دنیا کی سپریم ملٹری طاقت کو شکست فاش سے ہمکنار کر کے معجزہ سرانجام دے چکے ہیں۔ طالبان حکومت کا قیام بھی ایک معجزہ ہے اور اس کا چلنا اور چلتے رہنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.