عمران کا بیانیہ، عون چودھری اور مولانا فضل الرحمن کی زبانی

62

ویسے تو میں نے شاید ہی کبھی کسی کے انٹرویو یا خطاب کو اپنے کالم کا حصہ بنایا ہو مگر عمران نیازی کے بیانیے اور زمینی حقائق پر عون چودھری اور مولانا فضل الرحمن کے انٹرویو اور خطاب کے چند حصے حقائق جو کہ لوگوں کو پہلے ہی معلوم ہیں مگر معتبر لوگوں کی زبانی بات سن کر پڑھ کر سیون اپ میں نمک 0النے پر جو فشار آتا ہے ان لوگوں کے فشار خون کو اطمینان شاید نصیب ہو جائے ورنہ ڈھٹائی ایک مرض نہیں فطرت ہے جو بدل نہیں سکتی۔ رانا ثنا اللہ کا گلہ کہ اقتدار دے کر ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے پر مولانا فضل الرحمن کا صدر زرداری کے اقتدار میں دیا گیا بیان کہ اب مورچہ عدالت میں ہے، پھر یاد آ گیا۔ بہرحال عون چودھری کہتے ہیں ’’بنی گالہ کے انعام اور خرم سے بلا کر پوچھیں کیا انہوں نے گھڑیاں نہیں بیچیں‘‘۔ مزید کہتے ہیں کہ عمران سے کبھی تلخی نہیں ہوئی بس کسی کو خواب آیا اور مجھے پیچھے پھینک دیا گیا۔ عمران کو بتا دیا تھا کہ صوبہ پنجاب میں کرپشن ہے مگر وہ حقیقت سننا نہیں چاہتے تھے۔ دل و جان سے جماعت کے لیے کام کیا مگر نتیجہ یہ نکلا کہ بزدار، فرح، احسن جمیل اور مانیکا فیملی صوبہ چلانے لگے۔ کہتے ہیں جو معلومات میرے پاس ہیں میں بتاؤں گا تو ان کا سوشل میڈیا دفاع نہیں کر پائے گا۔ توشہ خانہ کا بکنا بنی گالہ کے خرم سے پوچھیں۔ خرم اے ڈی سی سب کچھ بتا دے گا کون سی گھڑی کہاں بیچی اس نے رسیدیں لا کر مجھے گھر میں دیں۔ کہتے ہیں اگر میں جھوٹ بولوں تو ڈی چوک میں پھانسی پر لٹکا دیں۔ میری جد و جہد کا صلہ یہ ملا کہ رات کو میسیج آیا کسی کو خواب آیا ہے آپ نے اب صبح حلف برداری کی تقریب میں نہیں آنا۔ کہتے ہیں آپ کو پتہ ہے فیصلے کہاں ہوتے تھے کن خوابوں پر فیصلے ہوا کرتے تھے، کون کرتا تھا۔ مزید کہتے ہیں ان تین چار سال میں پاکستان کے ساتھ جو ظلم ہوا، اللہ نے مجھے اس سے دور رکھنا تھا، اس کا خاص کرم سمجھتا ہوں۔ جو مقاصد تھے اور جو گینگ تیار ہونا تھا وہ ہو گیا جس گینگ کے ذریعے پاکستان اور پنجاب کو چلایا گیا، اس گینگ میں کون کون لوگ تھے، ان میں خاتون اول کی دوست فرح گوگی، احسن جمیل گجر اور ایک تحفہ اور آیا جس کو عثمان بزدار کی شکل میں لے آئے۔ میں نے فوراً عمران کو بتایا کہ آپ نے بڑا بلنڈر کر دیا، اس نااہل کے حوالے آدھا پاکستان پنجاب کر دیا۔ اس پر اگلے ہفتے مجھے پنجاب کابینہ سے الگ کر دیا گیا۔ اس لیے جدو جہد نہیں کی تھی کہ فرح، بزدار، احسن کا گینگ تیار ہو پنجاب میں تقرریوں پر بولیوں کی منڈی لگی ہوئی تھی، ٹرانسفر پوسٹنگ میں رات کو خواب آتا اور صبح بیگ آ جاتا تھا۔ کوئی کمشنر، کوئی ڈی سی حتیٰ کہ چیف انجینئر تک تو پیسوں کے عوض لگتے رہے۔ ٹرانسفر پوسٹنگ میں مانیکا فیملی ایسے رول کرتی جیسے ان کا باپ وزیراعظم لگا دیا گیا ہے۔ مزید کہا میرے بھی اثاثے چیک کر لیں فرح گوگی اور عمران خان کے بھی دیکھ لیں کس کے اثاثے بڑھے ہیں۔ اب یہ منہ اٹھا کر ہر ایک کو ضمیر فروش اور غدار کا طعنہ دیتے ہیں، آپ کون ہوتے ہیں غدار کہنے والے، آپ پاکستان کے ٹھیکیدار ہیں۔ کہتے ہیں ہم
سچ بات کرتے کہ ایک نااہل چور کرپٹ پنجاب کا سی ایم لگایا وہاں امر باالمعروف کدھر گیا، انہوں نے کہا کہ کرپشن کی ایسی ایسی داستانیں ہیں کہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ جو نیسلے اور نیسپاک کا فرق نہیں جانتا، جس کو جی ڈی اے، ایل ڈی اے، سی ڈی اے، آر ڈی اے کا نہیں پتہ وزیر اعلیٰ لگا دیا گیا مگر وہ سادہ نہیں ’’گُھنا‘‘ تھا۔ عون چودھری نے کہا عمران اب آزادی کی بات کرتے ہیں کس سے آزادی؟ جب آپ کی حکومت تھی تو ہم آزاد نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کا یہ چورن نہیں بکے گا، آپ کی حکومت، نااہلی اور اپنے زور کی وجہ سے، نااہل ایڈوائزر کی وجہ سے گئی، عزت دار لوگوں کو نام بگاڑ کر پکارتے ہیں، آپ لیڈر ہیں کہ مسخرے ہیں۔ عمران خان سے مخاطب ہو کر کہا کہ نومولود کی طرح آپ کو حکومت کی لوری دلائی گئی۔ آپ کہتے ہیں امریکہ نے حکومت ختم کی۔ آپ کی کارکردگی نے آپ کی حکومت ختم کی۔ شیشے کے گھر میں رہ کر لوگوں پر پتھر پھینکتے ہیں جو آپ کے ساتھ آیا گلے میں پی ٹی آئی کا پٹہ ڈال دو، وہ Neet & Clean ہو گیا۔ آدھی سے زیادہ زندگی امریکہ اور یورپ میں گزاری، بچے اور فیملی ادھر ہے اور آپ چلے اینٹی امریکن اینٹی یورپ بیانیہ لے کر ٹرمپ سے مل کر واپس آئے تو کہا کہ مجھے لگا میں نے ورلڈ کپ جیت لیا ہے۔ مودی سے ملاقات ، عون چودھری نے طے کرائی، کس طرح اور کیوں کرائی یہ بتانے سے انکار کیا کہ اپنی عزت برباد ہو گی۔ مزید کہا محمود خان وزیر اعلیٰ کیسے بنا سب کو معلوم ہے۔ جیت ہو تو کریڈٹ اعظم خان کو ہار ہو تو خٹک ذمہ دار، آپ کی حکومت عمران آپ کو پتہ ہے کیسے اور کس نے کس طرح بنوائی اور مجھے بھی پتہ ہے۔ دیانت داری کے حوالے سے کہا کہ ہر بد دیانتی اور کرپشن کا علم ہوتا اور علم میں لانے والے کو کھڈے لائن لگا دینا کہاں کی دیانت داری ہے۔ یہ ان کے انٹرویو کا ممکنہ خلاصہ تھا۔ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں ٹرمپ دور میں عمران نے اسرائیل سے تعلقات کے لیے وفد امریکہ بھجوایا، واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کو ٹرمپ کی انتخابی مہم کا مرکز بنا دیا۔ ان کی وجہ سے سعودیہ اور چین ہم سے ناراض ہیں، عالمی برادری میں ہم نے اپنا اعتماد بحال کرنا ہے۔ جے یو آئی کے تحت پشاور میں تقدس حرم کانفرنس سے خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ حالیہ رمضان المبارک میں پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ وفد مسجد نبویؐ میں پہنچے تو برطانیہ سے انیل مسرت اور جہانگیر کس مقصد سے ایک دن پہلے پہنچے تھے، برطانیہ میں پی ٹی آئی کا صدر یہ ہنگامہ کرانے مدینہ آیا تھا۔ انہوں نے عمران خان کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر تم نے ناموس کو چھیڑا یا ایسی جرأت کی تو تمہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ دیں گے۔ہم حرمت رسولؐ پر اپنی جان کی وفا کا عہد کر کے دنیا کو بتا دیں کہ یہ پر چم نبویؐ سر بلند ہے اور ان شاء اللہ سر بلند رہے گا۔ آ پ یہ بھی جانتے ہیں کہ عمران حکومت نے اسرائیل حکومت کو تسلیم کرنے کی بہت کوشش کی۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی حکومت کے آغاز میں اسرائیل سے طیارہ اڑا اور پاکستان میں اترا تھا، کس رشتہ کی بنیاد پر اترا تھا؟ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس نے جبر کی بنیاد پر اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے کئی عرب ممالک کو آمادہ کیا، اس مہم میں عمران خان ٹرمپ کے ساتھ تھا۔ انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں میں امریکا کے خلاف ہوں ہم تمہیں نہیں جانتے تمہاری اصلیت کو جانتے ہیں، تمہاری نا اہلیت تو اللہ نے اجاگر کرنی تھی تمہاری نالائقی دنیا کے سامنے واش آؤٹ کرنی تھی کہ تم ملک نہیں چلا سکتے۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ جب یہ اقتدار سے محروم ہوا تو کہتا ہے میرے خلاف بیرونی سازش، کون سا بیرونی سازش؟ ایک خط لہرا یا ، کا غذ ، خط نہیں تھا کا غذاور کا غذ میں کیا لکھا ہے، ابھی تک پتہ نہیں چلا۔ اب کہتا ہے کہ مجھے قتل کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور کہتا ہے کہ میں نے Casette بھر دیے ہیں، عمران خان کے ذریعے معاشی عدم استحکام پیدا کیا گیا تاکہ ملک کو توڑ دیا جائے۔یہ امریکی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ جب یہ اقتدا ر میں نہیں آ یا تھا تو اس وقت کہا کہ کشمیر کو تین حصہ میں تقسیم کرنا چاہیے۔قوم کویہ تاثر دے رہا تھا کہ میں بڑاVision رکھتا ہوں حالاں کہ یہ اقوا م متحدہ کی قراردادوں کی نفی تھی کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی موقف کی اساس اور بنیاد ہے اور تین حصوں میں تقسیم کر لیا انڈیا والا مودی کے حوالے کر دیا اس مودی کے حوالے کیا اس کا الیکشن چل رہا تھا اور کہا کہ خدا کرے مودی کامیاب ہو کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

تبصرے بند ہیں.