ہمارے ہاں عمومی تاثر یہ ہے کسی کو اس کے کسی اچھے کام پر شاباش دینے کے معاملے میں ہم بہت کنجوس ہیں۔ اصل میں کسی کو اچھے کام پر اسے شاباش دینے سے ہمارے ضمیر پر بڑا بوجھ پڑتا ہے کہ ہم خود اچھے کام کیوں نہیں کرتے؟۔ سو اس ’’دبائو‘‘ سے بچنے کا واحد حل یہ ہے ہم کسی کو اس کے کسی بھی اچھے کام پر کبھی شاباش نہ دیں بلکہ ہو سکے تو اس میں بھی کیڑے نکالیں ، اور اگر کیڑے نہ نکل رہے ہوں تو پلے سے ڈال دیں۔ویسے کسی کو اس کے کسی اچھے کام پر شاباش دیتے ہوئے اس لئے بھی ڈر لگتا ہے کہ اس سے الٹا اس کا نقصان نہ ہو جائے۔ وہ محکمانہ حسد کا شکار ہی نہ ہو جائے۔ ’’شاباش‘‘ اکثر اوقات ’’حسد‘‘ بڑھا دیتی ہے۔ ایک بار میں نے ایک افسر کے کچھ اچھے کاموں پر اسے شاباش دی اگلے ہی روز اسے تبدیل کر دیا گیا کیونکہ اس سے چند روز پہلے میں نے اس ’’اتھارٹی‘‘ کی کچھ ناقص پالیسیوں پر شدید تنقید کی تھی جس کے پاس اس افسر کو تبدیل کرنے کا اختیار تھا ۔ چنانچہ اس نے اپنا یہ اختیار ’’بے اختیار‘‘ استعمال کیا۔ اس کے بعد میں نے یہ ’’پالیسی‘‘ بنا لی اگر کسی افسر کی جائز تعریف کرنی ہے تو اس سے پہلے اسے تعینات کرنے والے کی ناجائز تعریف کرنا لازمی ہے۔ اب میں ڈرتے ڈرتے ایک انسان دوست اور عاجزی و انکساری سے لبالب بھرے ہوئے ایک افسر احسان بھٹہ کی بطور کمشنر گوجرانوالہ تقرری پر ان کے ان کارناموں پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں جو بطور سیکرٹری آئی اینڈ سی انہوں نے کچھ اس انداز میں کئے کہ اس سے موجودہ حکومت پنجاب کے کچھ نہ کچھ کرنے کا تاثر ابھرا ورنہ زیادہ تر لوگوں کے خیال میں پنجاب کے موجودہ سیاسی حکمران پریشان ہی رہتے ہیں۔ ان سے کوئی ایسا اچھا کام نہ ہو جائے جس سے ان کی اس قومی شہرت کو نقصان پہنچے کہ وہ صرف مال بنانے کو ہی ’’اچھا کام‘‘ سمجھتے ہیں۔ پنجاب میں گوجرانوالہ کم از کم اس حوالے سے ایک خوش قسمت ڈویژن ہے موجودہ حکومت کے قیام کے بعد یہاں پولیس اور انتظامیہ میں زیادہ تر اچھے افسران ہی تعینات ہوتے رہے ہیں۔ سوائے ایک سابقہ ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ کے جس کے بارے میں یہ خبریں پھیلی تھیں وہ ’’خرچا پانی‘‘ دے کر تعینات ہوا ہے ۔جہاں تک حال ہی میں تعینات ہونے والے کمشنر گوجرانوالہ احسان بھٹہ کا تعلق ہے وہ ایک انتھک افسر ہیں ، بلکہ انہیں انسان کہنا چاہئے۔ احسان تو وہ ہیں ہی… بطور سیکرٹری آئی اینڈ سی اپنے فرائض جس محنت ، لگن ، جانفشانی اور خوبصورتی سے انہوں نے ادا کئے وہ ہمیشہ یاد رہیںگے، جیسے کامران لاشاری کے کچھ اچھے کاموں کو ہم نہیں بھولے۔ یاجی ایم سکندر کی عاجزی کے اب تک ہم مداح ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ احسان بھٹہ نے بے شمار پارکوں خصوصاً ایسے مقامات کی حالت بدل دی جو ایک تاریخی حیثیت کے حامل تھے اور باقاعدہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے تھے۔ ان مقامات کو ان کی اہمیت اور حیثیت کے مطابق خوبصورتی بخشی۔ میں اگر ان مقامات کے نام گنوانے پر آئوں تو سارا کالم اس میں ختم ہو جائے گا۔ اس سے بڑھ کر ان کی اچھی بات یہ ہے دوستوں نے جب کبھی ان کے کسی اچھے کام کی تعریف کی، یا انہیں شاباش دی ، شکرئیے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمیشہ فرمایا ’’یہ میرا فرض تھا‘‘۔ اب انہیں کون سمجھائے یہاں جب بے شمار لوگ اپنے فرائض کی ادائیگی کو ’’گناہ کبیرہ‘‘ سمجھیں ، جہاں لاکھوں روپے تنخواہوں اور مراعات کو ویلے بیٹھ کر کھانا یا اڑانا ’’کار ثواب‘‘ سمجھا جائے ، اس عالم میں جو اپنے فرائض ادا کرے ، جو تنخواہ حلال کرے ۔ وہ شکر یئے اور خراج کا مستحق ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے ان کی بطور کمشنر گوجرانوالہ تعیناتی میں ان کے ماتحت ہر شعبہ میں نئی خوبصورتیاں پیدا ہوں گی، یا کم از کم بدصورتیاں اپنے مقام پر قائم نہیں رہ سکیں گی۔ اس شہر میں روز بروز بڑھتی ہوئی گندگی اور آلودگی کا کوئی مستقل حل ڈھونڈا جائے گا۔ یہ کام اب اس لئے بھی ممکن دیکھائی دیتا ہے کہ پنجاب میں اب اچھے افسروں کو کام کرنے کے لئے چار چھ مہینے مل ہی جاتے ہیں ، پہلے چار چھ دنوں بعد ہی ان کا تبادلہ ہو جاتا تھا ۔ کئی بار ایسے بھی ہوتا کوئی افسر اپنے نئے عہدے کا چارج سنبھالنے کے لئے جا رہا ہوتا راستے میں اسے اطلاع مل جاتی ’’حضور واپس لوٹ جائیں آپ کی جگہ کسی اور نے چارج سنبھال لیا ہے‘‘۔ شکر ہے بہت مدت کے بعد آئی جی پنجاب رائو سردار علی خان اور چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل بھی اب تک اپنے عہدوں پر ٹکے ہوئے ہیں حالانکہ ان دونوں افسروں کی عمومی شہرت بہت اچھی ہے۔ یہ کرپٹ بھی نہیں ۔ سو ان دونوں کی ان ’’خرابیوں‘‘ کے باعث ان کی بوقت تعیناتی ہم نے سوچا تھا موجودہ حکومت کے ساتھ یہ بھی چار دن نہیں چل سکیں گے۔ اب یوں محسوس ہوتا ہے پنجاب سرکار یا بزدار سرکار جاتے جاتے اپنی سابقہ شہرت کے کچھ ایسے داغ دھونا چاہتی ہے جن کے بارے میں پہلے وہ سمجھتی تھی ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔ اس کے نتیجے میں اب کچھ اچھے افسروں کو زیادہ عرصے کے لئے کام کرنے کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں۔ ماضی میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے ایسے ’’نمونے‘‘ لگائے گئے جنہوں نے کرپشن کی بہتی گنگا سے صرف ہاتھ نہیں دھوئے پورے پورے ’’غسل‘‘ کئے۔ پنجاب میں ایک سابقہ آئی جی کے بیٹے کو جرائم کے بے تاج بادشاہ باقاعدہ اس کے گھر جا جا کر اسے ’’منتھلیاں‘‘ دیتے رہے، جس کے نتیجے میں ان کے ’’مکروہ دھندے‘‘ باقاعدگی سے چلتے بلکہ دوڑتے رہے۔ ایسے کچھ بے شرم اور بے غیرت افسران اپنے منصب کا لحاظ کئے بغیرناجائزکمائی کا سلسلہ یا دھندہ اپنے بچوں اور بیگمات کے سپرد کر کے خود کو ’’فرشتہ‘‘ظاہر یا ثابت کرنے کی کوشش میں اپنے ماتحتوں کے لئے ’’موت کا فرشتہ‘‘ بنے ہوتے ہیں۔ جب تک ان لعنتیوں سے سسٹم کی مستقل طور پر جان نہیں چھوٹے گی، سسٹم ٹھیک ہونے کے بجائے مزید تباہ ہوتا جائے گا۔ بے شمار افسران محض ایک ’’پرفیوم‘‘ یا اس نوعیت کے دیگر تحائف لیکر جرائم پیشہ افراد کے ساتھ فخر سے اپنی تصویریں بھی بنوا لیتے ہیں، جو بعد میں ’’کیش‘‘ کروائی جاتی ہیں اور اس ’’کیش‘‘ کا باقاعدہ حصہ بھی وہ وصول کرتے ہیںجبکہ کسی مہذب یا پڑھے لکھے شخص کے ساتھ ’’مفت میں تصویر‘‘ بنواتے ہوئے انہیں موت پڑتی ہے۔ بیورو کریسی نے جس تیزی سے خود کو تباہ کیا منیر نیازی کا یہ شعر خود کو سامنے رکھتے ہوئے انہیں ضرور دہرانا چاہئے۔ ’’میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس ۔ خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں‘‘۔ اس عالم میں بابر حیات تارڑ ، کامران علی افضل ، رائو سردار علی خان ، احسان بھٹہ ، احمد جاوید قاضی اور ان جیسے کچھ اور افسران کا دم اتنی بڑی نعمت اور غنیمت ہے کہ بے شمار ’’دیواریں‘‘ ان ’’خوشبوئوں‘‘ کا راستہ نہیں روک سکتیں!!
Prev Post
تبصرے بند ہیں.