اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں دہائیوں مشکلات اور چیلنجز رہے لیکن اب مزید غلطیوں سے گریز کرنا چاہیے اور افغانستان میں خودمختار عوام نے کبھی بیرونی تسلط کو تسلیم نہیں کیا۔ میرا ہمیشہ یہ موقف رہا کہ افغانستان کا مسئلہ عسکری نہیں۔
وزیراعظم کا فودان یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایرک لی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ 2دہائیوں سے زائد عرصہ کرکٹ کھیل چکا ہوں اور کھیل کے دوران اور بعد میں تجربات سے سیکھا جبکہ زندگی میں اتار چڑھاو دیکھیں اور کھیل کا میدان چھوڑا تو کینسر اسپتال بنایا تعلیم کے شعبے میں یکسانیت نہیں اور ہر شخص کو اچھی تعلیم تک رسائی نہیں جبکہ میں نے اچھی تعلیم کے فروغ کے لیے یونیورسٹی بنائی اس کے علاوہ 22سال کی جدوجہد کرپشن سے نجات کے لیے کی۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں دہائیوں مشکلات اور چیلنجز رہے لیکن اب مزید غلطیوں سے گریز کرنا چاہیے اور افغانستان میں خودمختار عوام نے کبھی بیرونی تسلط کو تسلیم نہیں کیا۔ میرا ہمیشہ یہ موقف رہا کہ افغانستان کا مسئلہ عسکری نہیں اور 40 سال بعد افغانستان میں امن آیا اور اب وہاں کوئی تنازعہ نہیں جبکہ افغانستان میں طالبان حکومت کے آتے ہی دنیا نے ان کے اثاثے منجمد کر دیئے اور مغربی قوتوں نے طالبان حکومت کو سزا کے طور پر بینک کھاتے منجمد کیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میری اولین ترجیح ہے اپنے لوگوں کو غربت سے نکالوں اور میری پارٹی کا منشور قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست کا قیام ہے جبکہ جو ملک طاقتور کو قانون کے کٹہرے میں نہ لا سکے وہ تباہ ہوتے ہیں۔
وزیراعظم نے پاک امریکا تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکہ کے اتحادی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ پر تھے اور امریکہ افغانستان صورتحال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتا رہا جبکہ امریکہ کو جب پاکستان کی ضرورت ہوئی انہوں نے استعمال کیا جب نہ ہوئی تو چھوڑ دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکیوں نےافغانستان کی تاریخ پڑھی ہی نہیں اور جولوگ افغانوں کی تاریخ سے واقف ہیں وہ یہ اقدام نہ کرتے جو امریکا نے کیا اور میں پہلے دن سے افغانستان کے فوجی حل کا مخالف تھا کیونکہ امریکا کے افغانستان میں مقاصد واضح نہیں تھے اور اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد ان کا مشن ختم ہو جانا چاہیے تھا۔
تبصرے بند ہیں.