پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، گران کا صحیح استعمال کیا جائے تو ملک کی معیشت کو بڑھانے اور ترقی کی طرف مرغوب کرنے کے لیے ان کا درست استعمال ضروری ہے۔ قدرتی وسائل معیشت کو فروغ دینے میں معاون ہے اسی لیے کئی ممالک بشمول چین پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں کے پاکستان کے معدنیات کے ذخائر کو بروئے کار لاکر حاصل کیا جا سکے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے حصے تھر کول پراجیکٹ سے دریافت ہونے والی کوئلے کی کان ملکی معیشت کے لیے جاری کردہ فیکٹ کے مطابق سونے کی چڑیا ثابت ہو سکتی ہے کیوں کہ وہاں کم از کم پانچ ارب ٹن کوئلہ محفوظ ہے جو اتنے ہی خام بیرل تیل کے مساوی ہیں۔ یہ اتنے بڑے وسائل ہیں کہ پاکستان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جب اس بارے میں تھر کول پروجیکٹ کی انتظامیہ سے بات کی گئی تو معلوم ہوا کہ پہلے مرحلے میں اس منصوبے کی سالانہ پیداوار سات اعشاریہ آٹھ ملین ٹن ہے۔ یہ پروجیکٹ پاکستان کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا منصوبہ ہے اور اس کا بلاک ون داون سندھ کمپنی کے زیر ملکیت ہے جبکہ زیادہ تر شیئر ہولڈرز شنگھائی الیکٹرک گروپ کے ہیں. ماضی میں اس پروجیکٹ کے اہم سنگ میل کے تحت19 ستمبر 2011 کو ایس ایس آر کو اوپن پٹ کوئلہ کان تیار کرنے کے لئے تھرکول بلاک ایل کو مختص کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 24 مئی 2012 کو کان کنی کی لیز دی گئی اور اس منصوبے کو حکومت پاکستان اور چین کی حکومت نے جوائنٹ انرجی ورکنگ گروپ میں شامل کیا تھا۔
یہ پروجیکٹ تمام ورکرز کے مشترکہ اور مربوط کوششوں کا نتیجہ ہے اس پروجیکٹ کے چینی اور پاکستانی سربراہ مسٹر لی جین اور چوہدری عبدالقیوم بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ پاکستانی اور چینی انجینئرز نے مل کر کھدائی کا عمل شروع کیا اور ایک سو پینتالیس میٹر کی کھدائی کے بعد کوئلے کی کان دریافت کی۔یوں تو پاکستان میں بہت سے قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں اور ان کے بہت سے فوائد بھی ہیں تاہم کوئلہ، معدنی تیل،قدرتی گیس، جنگل، یورینیم، پانی، جپسم، خام لوہا، تانبا، کرومائیٹ، نمک لائم لائٹ اور دیگر دستیاب ہیں۔
پاکستان ایک ایسی بابرکت سرزمین ہے جہاں بے پناہ قدرتی وسائل موجود ہیں اور ملک کا محلہ وقوع مثالی ہے جو کہ دیگر ہمسایہ ممالک کے لئے بھی تجارت کے ساتھ ساتھ اپنی زمین کے وسائل کو استعمال کرنے کے لئے ایک اقتصادی مرکز بن سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں واقع اور بحیرہ عرب اور خلیج عمان پر بھی 650 میل ساحلی پٹی پر واقع، ملک کے مغربی حصے کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں جبکہ ہندوستان مشرق کی طرف اور چین شمال مشرق میں ہے۔اگر سائنسی بنیادوں پر سرویز کیے جائیں تو زمین میں چھپے ذخائر دریافت کر کے ملکی معیشت کو چار چاند لگائے جا سکتے ہیں اور آنے والی نسلیں جو ماضی کی حکومتوں کے سبب قرضوں میں لت پت اس دنیا میں تشریف لاتی ہیں آخر کار بلا کسی قرضے کے بوجھ میں دنیا میں تشریف لا سکتی ہیں۔ بلوچستان میں بھی قدرتی وسائل کے انبار موجود ہیں ریکو ڈک کان پاکستان کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے اور دنیا میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے ذخائر یہاں پر موجود ہیں جس کا اگر تخمینہ لگایا جائیں تو 5 اعشاریہ نو بلین ٹن ہے۔ اس سلسلے میں کیے گئے وسیع تکنیکی مالیاتی مطالعات کے مطابق اگر ان ذخائر سے بھرپور مستفیض ہونا ہے کم کان کنی روسی صدر کے اخراجات کو محفوظ بنانے کے لیے ریکوڈک میں بڑے پیمانے پر جدیدترین مائننگ اور پروسیسنگ یونٹ کی ضرورت ہے۔حکومت پاکستان کو متعلقہ ممالک کے ساتھ مل کر ان ذخائر کو ضرورت کے مطابق کنزیوم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط اور قرضوں سے پاک کیا جا سکے۔ کامیابی یہ نہیں کہ آپ ان معدنیات کو دریافت کریں بلکہ ان کا درست استعمال یقینی بنانا ہی ملکی مفاد کے زمرے میں آتا ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.