سرسید احمد خان نے یورپ کا جو پہلا شہر دیکھا وہ روم تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جب ہمارااومنی بس بازارمیں پہنچاتو ہم دیوانوں کی طرح ادھرادھردیکھنے لگے کبھی ایساآراستہ بازار اور اس قدرروشنی، شیشہ آلات میں ہم نے دیکھی نہ تھی‘‘۔ ،وہ شیشوں کے دروازے اور شیشوں کی بنی ہوئی دیواریں دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے تھے ۔انھوںنے ایک دولت خانہ دیکھا جیسا آراستہ دولت خانہ کبھی نہ دیکھاتھا ۔اسے دیکھ کر انھیں’’ یقین ہواکہ کوئی بہت بڑی شادی ہے اور لوگ جمع ہیں اور مکان آراستہ ہے مگرجب صبح کو دیکھااورتحقیق کیاتومعلوم ہواکہ عام لوگوں کے شراب پینے کی جگہ ہے ‘‘ …عام لوگوں کے شراب پینے کی جگہ ہویا خاص لوگوں کے ہمیں اس سے کیا اور ہم اسے دیکھنے کیوں جاتے ؟…ہوایوں کہ جب ہم ویٹیکن سے روم ریلوے سٹیشن کی جانب روانہ ہوئے تو مجھے واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ڈرائیورصاحب کو آگاہ کیاگیاانھوںنے ایساتاثردیاکہ گویایہ ایک مشکل کام ہے جو ان سے کہہ دیاگیاہے تاہم انھوںنے مسافرپروری کرتے ہوئے کہاکہ وہ کوئی راہ تلاش کرتے ہیں۔ گاڑی جیسے جیسے روم کے رنگین کوچہ و بازارسے گزررہی تھی میرا مطالبہ بڑھتاجا رہاتھا۔معلوم نہیں ڈرائیور صاحب ہمیں کہاں لے جاکر گاڑی روکیں گے۔ مجھے اس عالم انتظار میں پروفیسرغلام جیلانی اصغر صاحب اور جمیل یوسف صاحب کے ساتھ کیاہوا وہ سفریادآگیا جس میں ہم مری سے اسلام آبادآرہے تھے اور جمیل یوسف صاحب اپنی نظرکی کمزوری کے باعث گاڑی چلاتے ہوئے باربار مجھ سے پوچھتے تھے کہ ’’دیکھیں تو یہ سامنے کیا آ رہا ہے‘‘…؟ جیلانی صاحب نے ڈرائیورکی’’ بلندی نگاہ‘‘ کایہ عالم دیکھاتو چونکے اور گھبراکرکہنے لگے ’’جمیل صاحب گاڑی روکیں مجھے پیشاب آرہاہے ‘‘جمیل صاحب نے ایک مناسب
مقام دیکھ کر گاڑی روک لی اورسامنے کی عمارت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جیلانی صاحب سے کہاکہ وہ سامنے واش روم ہے … لیکن جیلانی صاحب وہیں کے وہیں کھڑے رہے اور جمیل صاحب کے مکررراہنمائی فرمانے پر گویاہوئے کہ جمیل صاحب ’’نہیں، اصل میں مجھے جان بہت پیاری ہے… خداحافظ‘‘…
تاہم میں ایسی پوزیشن میں نہیں تھا۔روم کی رنگینیوں میں ایک ایسی شاہراہ پر ڈرائیور صاحب نے گاڑی روکی جہاں گاڑی روکنے کا ہمیں گمان نہیں تھا اور مجھے ایک عمارت کی جانب جانے اشارہ کیا۔وہ عمارت خوب آراستہ و پیراستہ اور کئی منزلوں پر مشتمل تھی رقبہ تو زیادہ نہ تھاالبتہ اوپر تلے منزلوں سے رقبے کی کمی کی تلافی کرلی گئی تھی ۔ایک دربان نما میزبان نے بڑی خوش خلقی سے استقبال کیااورنیچے کی سمت جانے والے ایک زینے سے مجھے نیچے بھجوادیا ۔یہاں میرامطلوبہ مکان تھا۔جاتے ہوئے توبالکل بھی اس جانب توجہ نہ ہوئی کہ یہ کیاعمارت ہے لیکن واپسی پر جب دربان نے مجھ سے کسی اور خدمت کی بابت پوچھا اورمیںنے ادھر ادھر دیکھا تومعلوم ہواکہ اوہو یہ ویسا ہی مکان ہے جس کا نقشہ سرسید نے اپنے سفرنامے میں پیش کیاتھااور جسے دیکھ کر انھیں’’ یقین ہوگیاتھاکہ کوئی بہت بڑی شادی ہے اور لوگ جمع ہیں اور مکان آراستہ ہے‘‘سرسیدکوتوصبح کو جاکر معلوم ہواکہ یہ’’ عام لوگوں کے شراب پینے کی جگہ ہے ‘‘ لیکن ہمیں یہ بات جاننے کے لیے صبح تک کاا نتظارکرنے کی ضرورت پیش نہ آئی ۔دربان اور اطراف و جوانب کے اطوارسے فوراً ہی معلوم ہوگیاکہ یہ وہی جگہ ہے جس کا حال سرسیدنے بیان کیاتھا اور ہم بڑی بے نیازی کے ساتھ دربان کا شکریہ اداکرکے باہر آگئے ……
میں میکدے کی راہ سے ہوکر نکل گیا
ورنہ سفر حیات کا بے حدطویل تھا
روم کا ریلوے سٹیشن ،یورپ میں پیرس ریلوے سٹیشن کے بعد سب سے بڑا سٹیشن ہے۔ یہاں پہنچے تو سٹیشن میں داخلے سے پہلے بے شمار مشینیں ٹکٹ خریدنے کی دعوت دے رہی تھیں۔ ہمارے ڈرائیور نے بڑی مہارت سے ایک مشین کے پاس لے جاکر مختلف گاڑیوں اور ان کے کرایوں کے رموزسے ہمیں آگاہ کیا۔ اس کے مطابق اگر ہم بے خبری میں ٹکٹ خریدتے توہمیں بہت مہنگاٹکٹ ملتاچونکہ وہ روم میں رہتاہے اور یہاں کے اسرارورموز سے واقف ہے اس لیے اس نے ہمیں مقابلتاً کم قیمت میں نیپلزکا ٹکٹ خرید کر دیا۔ ڈرائیور صاحب سے رخصت ہوکر ہم سٹیشن میں داخل ہوئے تو یہاں ایک اور ہی دنیاہمارااستقبال کررہی تھی ۔ہر جانب روشنیاں اور رنگ اپنی بہاردکھارہے تھے ۔
ہم چونکہ سیدھے ویٹیکن سے یہاں پہنچے تھے ہمارے لیے یہ بات اہم تھی کہ روم کایہ سٹیشن ۲۳؍دسمبر۲۰۰۶ء کو پوپ جان پال دوم سے منسوب کردیاگیا۔پوپ جان پال دوم ۱۹۷۸ء سے۲؍اپریل ۲۰۰۵ء کو اپنی وفات تک ویٹیکن کے سربراہ رہے۔ سٹیشن کی عمارت کی تعمیرمیں ٹرین کی آوازاور رفتار کے تاثرکو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ سٹیشن جس جگہ پر واقع ہے یہاں سے قدیم زمانے میں روم کی فصیل شہرگزرتی تھی جس کے کچھ حصے یہاں وہاں محفوظ ہیں۔یہ ہمارے پرانے لاہورکی دائروی دیوار کی طرح تھی جس میں لاہورکے تیرہ دروازے تھے۔عام لوگ لاہورکو بارہ دروازوں کا شہرکہتے ہیں لیکن محققین کے نزدیک لاہورکے تیرہ دروازے تھے ، جن میں سے کچھ دروازے تو اب تک باقی ہیں لیکن کچھ کے محض نام رہ گئے ہیں اور جہاں یہ دروازے تھے وہ علاقے اب بھی ان دروازوں کے ناموں ہی سے منسوب ہیں ۔روم کی یہ فصیل شہر چوتھی صدی یا چوتھی صدی قبل مسیح کی تعمیربتائی جاتی ہے اور یہ دس میٹربلندہے اوراس میں پرانے شہرکامدخل بھی موجودہے۔ سٹیشن کے قریب اس دیوارکا جو ٹکڑامحفوظ ہے وہ اس کاباقی رہ جانے والاسب سے بڑا ٹکڑا ہے ۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.