محکمہ تعلقات عامہ میں اچھی شہرت کی حامل افسر کی تعیناتی

150

پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی افسر محترمہ ندا اظہر کی محکمہ تعلقات عامہ پنجاب میں بطور ڈائریکٹر جنرل تعیناتی کو صحافتی حلقوں میں بہت خوش آئند خیال کیا جا رہا ہے۔ محکمہ اطلاعات عامہ پنجاب اورشعبہ صحافت کے درمیان تعلق کو مزید مستحکم کرنے میں ان کی آمد نیک شگون ہے۔ بڑے عرصے بعد اچھی شہرت کی حامل افسر کاپر تپاک خیر مقدم کیا گیا ہے اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ وہ تمام اخبارات اور صحافیوں سے مناسب رویہ روا رکھیں گی۔

 حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے لانے کیلئے محکمہ تعلقات عامہ کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔محترمہ ندا اظہر صاحبہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور سرکاری امور کا کافی تجربہ رکھتی ہیں۔ محکمہ تعلقات عامہ کی تنظیم نو کر کے اس کی کارکردگی بہتر بنانے کےلئے کوشاں ہیں۔جدید ٹیکنالوجی کے باعث اطلاعات کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی تیز رفتار ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی ہدایت کے مطابق محکمے کو نئے خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے جو خوش آئند اقدام ہے۔ 

مجھے انگریزی اور اردو صحافت میں کام کرتے ہوئے 65 برس گزر چکے ہیں۔ اس دوران میں مجھے محکمہ تعلقات عامہ کے بہت سے ڈائریکٹروں سے ملنے کا بہت اتفاق ہوا۔ عمدہ کام کرنے والے صحافیوں اور افسروں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن ان میں سے چند ایک کا شخصی خاکہ ہمیشہ میرے ذہن میں آتا رہتا ہے۔ 

ان افسروں میں میر نور احمد مرحوم بہت بلند مرتبہ ڈائریکٹر جنرل تھے۔ مرحوم مارشل لاءسے مارشل لاءتک ،کی تصنیف کے خالق بھی تھے۔ جب وہ ڈائریکٹر جنرل محکمہ تعلقات عامہ تھے تو میاں ممتاز محمد خان دولتانہ مرحوم وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ روزنامہ نوائے وقت کے مدیر حمید نظامی مرحوم ان کے سخت خلاف تھے۔ روزنامہ نوائے وقت میں تنقید سے زیادہ ان سے توہین روا رکھی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میر نور احمد مرحوم نے نوائے وقت کا ڈیکلریشن منسوخ کر دیا اور کوشش 

کی کہ حمید نظامی مرحوم کوئی نیا اخبار نہ نکال سکیں۔ نوائے وقت کے مالکان کے نوا ب مشتاق احمد گورمانی مرحوم سے اچھے تعلقات تھے اور نظامی خاندان کو جو جائیدادیں الاٹ ہوئیں وہ نواب مشتاق احمد گورمانی مرحوم کی نوازشات کا نتیجہ ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹرز کی۔ میر صاحب دولتانہ مرحوم کے اخبار روزنامہ آفاق کے منیجنگ ایڈیٹر بھی رہے اور مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ میر صاحب بہت نفیس ، بڑی شگفتہ اور بڑی شائستہ طبیعت کے مالک تھے۔ وہ اکثر مہربانی فرماتے اور مجھے شاہراہ فاطمہ جناح پر واقع اپنے بنگلہ پر چائے کےلئے مدعو فرماتے اور خاصی دیر تک صحافتی معاملات پر ان سے گفتگو رہتی۔ 

میر صاحب کے بعد دوسرے ڈائریکٹر جنرل شیخ حفیظ الرحمن بہت ملنسار اور مرنج مرنجاں طبیعت کے مالک تھے۔ اس زمانے میں وہ سیکرٹریٹ میں ہوم ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ والی بلڈنگ میں کام کرتے تھے اور سردیوں میں اپنی میز کرسی دھوپ میں لگوا لیتے تھے۔ مجھے ان سے طویل عرصے تک ملاقات کے مواقع حاصل رہے کیونکہ وہ لمبے عرصے تک ڈائریکٹر جنرل اور سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب رہے۔ ان دونوں حیثیتوں میں ان سے اکثر ملاقات رہتی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ صوبے میں جہاں کہیں بھی دورے پر جاتے تو شیخ صاحب مجھے ہمیشہ اپنی گاڑی میں ساتھ بٹھا لیتے اور ان کے ساتھ کافی عرصہ تک ملاقات کا سلسلہ چلتا رہا۔ بعد میں وہ پروگریسو پیپرز (روزنامہ پاکستان ٹائمز اورروزنامہ امروز) کے چیف ایڈیٹر بن گئے ۔ راقم الحروف بھی پاکستان ٹائمز سے وابستہ تھا۔ اس لئے ان سے دیرینہ تعلقات تھے۔ علاوہ ازیں ان کا آبائی تعلق امرتسر سے تھا اور راقم الحروف بھی اسی شہر سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کے بھائی حمید شیخ بھی پاکستان ٹائمز میں کام کرتے رہے۔ اس لئے راقم الحروف کے ان کے ساتھ بڑے گہرے اور دیرینہ تعلقات رہے۔ شیخ صاحب انگریزی میں کالم لکھتے۔ ان کے کالمز روزنامہ ڈان میں شائع ہوتے۔ شیخ صاحب مرکزی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ شیخ صاحب مرحوم نے میرے دل پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے ہیں اور ان کے اوصاف و خوبیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 

سید عابد علی مرحوم لاہور اور ملتان میں محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر رہے۔ شیر شاہ ملتان میں ان کی عزیزداری بھی تھی جن کی راقم الحروف سے شناسائی تھی۔ جب تک وہ ڈائریکٹر رہے مجھے مختلف دوروں میں اپنے ساتھ رکھتے۔ اسی طرح ڈائریکٹر جنرل حامد علی بیگ سے بھی اچھے تعلقات رہے۔وہ راقم الحروف سے بہت قریب رہے اور بڑے احترام سے پیش آتے۔ 

راجہ جہانگیر انور موجودہ سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے اور ان کا شمار پنجاب کے اچھے اور نیک نام افسروں میں ہوتا ہے۔ انہیں بھی عہدہ چھوڑنے کے بعد کچھ عرصہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق اللہ تعالیٰ نے انہیں سرخرو کیا۔ ان کے بعد اگرچہ کئی ڈائریکٹرز آئے جن کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں ۔ انہوں نے اپنی یادوں کے اچھے نقوش نہیں چھوڑے۔ کئی افسروں پر بدعنوانیوں کے الزاما ت تھے۔ اس لئے اس کرسی پر تو فائز رہے مگر کنفرم نہ ہو سکے اور تھوڑا تھوڑا عرصہ کام کرنے کے بعد چلتے بنے۔ 

مجھے صحافت میں طویل عرصہ گزارنے کا موقع ملا۔ مجھے یقین ہے کہ محترمہ ندا اظہر صاحبہ اچھی روایات قائم کریں گی۔ ان کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے اور جب بھی وہ یہاں سے جائیں گی تو وہ صاف ستھرے اور پاک دامن صحافیوں کے اذہان میں اجلے اور عمدہ نقوش چھوڑ جائیں گی۔ مجھے اگرچہ ان سے تفصیلی ملاقات کا موقع تو نہیں ملا مگر راقم الحروف ان سے رسمی ملاقات میں بے حد متاثر ہوا ۔ وہ اگرچہ اپنے محکمہ کے معاملات کی افہام و تفہیم میں مصروف ہیں مگر وہ ان معاملات کو مزید مو

 
¿ثر بنانے اورمحکمہ کو ہر قسم کی بدعنوانیوں سے پاک کرنے کےلئے پرعز م ہیں۔

 اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عزائم میں کامیابی عطا فرمائے۔ امید ہے وہ تمام صحافیوں اور اخبارات کے ساتھ مشفقانہ اور مناسب برتاو

 
¿ کریں گی۔ اللہ تعالیٰ ان ہیں اپنے مقصد میں کامیاب فرمائے اور ان کی نیک نامی میں اضافہ کرے۔ آمین

تبصرے بند ہیں.