یہ ممکن نہیں کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں آپ ترقی یافتہ بزنس کا ذکر کریں اور اس میں عابد علی بٹ کا نام نہ آئے۔ عابد علی بٹ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے کم وقت میں ترقی کی کئی منزلیں طے کیں اور ہر لحاظ سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ خود کو ایک نہایت کامیاب بزنس ٹائیکون (Tycoon) ثابت کیا۔ محاورہ ہے کہ پوت کے پائوں پالنے میں ہی پہچانے جاتے ہیں تو عابد علی بٹ کی آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی لگن ان کے سکول کے زمانے میں ہی نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی وہ لندن عازم سفر ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر محض اٹھارہ یا بیس برس تھی۔ ان کے والد چونکہ پہلے سے لندن میں مقیم تھے اس لیے انہیں کم عمری میں لندن جانے‘ وہاں اپنا کاروبار (بزنس) اسٹیبلیش (Establish) کرنے اور اسے بھرپور طریقے سے فروغ دینے کا موقع مل گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موقع مل جانے پر سبھی کامیاب نہیں ہو جاتے‘ لیکن عابد علی بٹ کے اندر الگ نوعیت کی امنگیں اور عزم موجزن تھا اس لئے وہ اپنے بزنس کو ترقی دینے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور اس آزمائش میں سرخ رو ٹھہرے۔
عابد علی بٹ گوجرانوالہ کے رہنے والے ہیں اور ایک اعلیٰ تخلیقی دماغ رکھتے ہیں۔ اس تخلیقی دماغ نے اگلے بیس برسوں میں ان کا کاروبار پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ کسی بھی چالیس سالہ بزنس مین کے لیے یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ عالمی سطح پر کامیابیاں سمیٹنے کے بعد انہیں خیال آیا کہ جیسی ترقی باقی دنیا کر رہی ہے ویسی ترقی ان کے ملک اور قوم کو بھی کرنی چاہیے۔ یہ سوچ کر عابد بٹ واپس گوجرانوالہ آ گئے۔انہوں نے پاکستان اکنامک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے معاشی و کاروباری سرگرمیوں میں اضافے کے لئے قابل قدر کام کیا۔
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں 2010 میں پاکستان کے سب سے بڑے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز کے طور پر منتخب ہوا، مجھے متعدد وفود لے کر دوسرے ممالک جانے کا موقع ملا۔ ان سارے غیر ملکی دوروں میں اپنے پاکستانی بزنس مین بھائیوں میں مجھے جو قدرِ مشترک دکھائی دی وہ یہ ہے کہ ان کا دل پاکستان کے ساتھ اور پاکستان کے لئے دھڑکتا ہے۔ وہ کہیں بھی چلے جائیں‘ جتنی بھی ترقی کر لیں‘ انہیں ہر دم اپنے وطن اور اپنے لوگوں کا ہی خیال آتا ہے۔ وہ ہمیشہ پاکستان کو عالمی برادری کے شانہ بشانہ آگے بڑھنے دیکھنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔ وہ پاکستان میں کاروبار کرنا چاہتے ہیں‘ یہاں کی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے میں مدد دینا چاہتے ہیں‘ لیکن انہیں اس سلسلے میں آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔ وہ سوچتے ہیں کہ جو سرمایہ کمایا ہے اور جو تجربہ حاصل کیا ہے‘ اس کا کچھ حصہ اپنے ملک کو لوٹائیں۔ وہ اپنی مٹی میں دفن ہونے کی آرزومند ہوتے ہیں لیکن پتا نہیں کیوں ان کی اولاد ان کو ایسا کرنے سے روک دیتی ہے۔ بال بچے اپنے بڑوں کو پاکستان کے حالات کی وجہ سے واپس نہیں آنے دیتے۔ ممکن ہے عابد علی بٹ صاحب کو بھی کچھ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہو‘ لیکن ان کا فیصلہ اٹل تھا۔عابد علی بٹ نے چالیس بیالیس سال کی عمر میں لندن کے بزنس ٹائیکون بن چکے تھے۔ ان کی اپنی بلڈنگیں ہیں۔ لندن اور دبئی میں فائیو سٹار ہوٹل بن رہے ہیں۔ گریس (یونان) میں ان کا بہت بڑا بزنس یونٹ ہے۔ دنیا کے کئی دوسرے بڑے بڑے ملکوں میں ان کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ عابد علی بٹ کے سامنے اپنا وسیع کاروبار تھا‘ لیکن دوسری طرف پاکستان سے محبت موجزن تھی۔ بالآخر وطن سے محبت جیت گئی اور عابد علی بٹ نے پاکستان واپس آنے کو ترجیح دی۔ واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو اس پر قائم رہے۔ چلتا کاروبار ملازموں کے حوالے کیا اور وطن واپس لوٹ آئے۔ میرے بھی پاکستان کے لیے ایسے ہی جذبات رہے ہیں۔ اس لیے عابد علی بٹ میری پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔
سال بھر پہلے عابد علی بٹ سے ایک ملاقات ہوئی۔ اس وقت تک میں سپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل (Special Investment Facilitation Council (SIFC)) کی افادیت‘ اہمیت اور ضرورت پر کئی کالم لکھ چکا تھا۔ میں کہتا رہا ہوں کہ پاکستان کے لوگ بزنس کرنا چاہتے ہیں لیکن یہاں کی حکومتوں کے پاس ان کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری اور اپنے تجربے کو بروئے کار لانے کے خواہش مند ان کاروباری لوگوں کو خوش آمدید کوئی نہیں کہتا۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا شکریہ کہ انہوں نے کاروباری برادری کی ان خواہشات اور ملک سے محبت کو سمجھ کر ایس آئی ایف سی (Special Investment Facilitation Council) کی بنیاد رکھی۔ نگران دورِ حکومت میں جب اس کونسل کی بنیاد رکھی گئی تو میری زندگی کا ایک بڑا مقصد پورا ہو گیا‘ چنانچہ میں نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو شکریے اور تہنیت کا خط لکھا۔
بعد ازاں 3 ستمبر 2023ء کو ہماری کاروباری برادری کی ان سے ایک طویل ملاقات ہوئی۔ چار گھنٹے پر محیط اس ملاقات میں آرمی چیف نے اجلاس میں موجود پینتیس بزنس مینوں اور کاروباری شخصیات میں سے ہر ایک کی بات پوری تفصیل اور توجہ کے ساتھ سنی۔ گفتگو اور تبادلہ خیالات کے دوران جو تجاویز سامنے آئیں انہیں قلمبند کیا گیا۔ سب کو بولنے کا موقع ملا اور ہر ایک نے اپنے دل کی بات کھول کر کی اور آرمی چیف نے بزنس کمیونٹی کی سوچ اور جذبے کو سراہا۔ مجھے یاد ہے اس وقت ڈالر تین سو تیس پینتیس روپے پر تھا اور اس کی قدر میں تیزی سے مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ بزنس کمیونٹی کی تجویز پر آرمی چیف نے جب مافیاز کا پیچھا کرنے کا جرأت مندانہ اعلان کیا تو اگلے ہی دن ڈالر کی مارکیٹ دو سو ستر پر آ گئی تھی۔ حالات ایسے ہو گئے تھے کہ ڈالر بیچنے والے تو تھے، لیکن ڈالر خریدنے والا کوئی نہ تھا۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.