سال نو…. پٹوار خانہ کا نیا رجسٹر

74

سال رفتہ اپنی تمام تر تلخ و شیریں وارداتوں کے ساتھ انجام کار رخصت ہو چکا ہے۔ نئے سال کا پہلا کالم لکھتے ہوئے ہماری نظر مستقبل پر ہے مگر اس کے باوجود بار بار پرانے سال کے واقعات زبردستی راستہ روک لیتے ہیں ۔
نئے سال سے وابستہ مافوق الفطرت امیدیں اور آرزوئیں بالکل ایک افسانوی بات ہے مگر ہم پورا سال جتنے مرضی حقیقت پسند رہیں یکم جنوری کو ایک دفعہ ضرور خوابوں کی نگری کا رخ کر لیتے ہیں اور توقع کرنے لگتے ہیں کہ نئے سال میں وہ سب کچھ حاصل ہو جائے گا جو پہلے آج تک نہیں ملا اور پھر جلد ہی یہ ناقابل حصول توقعات دم توڑ دیتی ہیں۔
ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ نئے سال کے آتے ہی ایک نیا دروازہ کھل جائے گا اور ہم کسی ایسی کشور حسین شاد باد میں پہنچ جائیں گے جہاں ہمارے پاس سونے چاندی کے محل اور دولت کے ذخیرے ہماری تحویل میں ہوں گے جس کے لئے ہمیں صرف 31 دسمبر اور یکم جنوری کے درمیان حائل ایک رات کا پل ہے جسے عبور کرنا ہے۔ وہ پل تو عبور ہو جاتا ہے مگر اس تصور میں لپٹی ہوئی باقی کہانیاں پیچھے رہ جاتی ہیں نیا سال کوئی لاٹری کا ٹکٹ نہیں ہے کہ اس میں آپ کا کروڑوں کا انعام نکل آئے اس میں ہمیں وہی کچھ ملنا ہے جس کی ہم نے جدوجہد کرنی ہے۔
نئے سال کو سمجھنے کیلئے بالکل ایک غیر ا دبی مثال کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ آپ یوں سمجھیں کہ یہ آپ کا کچن سلنڈر ہے جو جس میں گیس کا دورانیہ 365 دن یا 12ماہ کا ہے۔ وقت تمام ہونے پر آپ نے نیا سلنڈر بھر وانا ہے یہ ایک مجبوری ہے اب اس سلنڈر سے آپ جتنی چاہے امیدیں لگائیں یہ آپ کے باورچی خانے میں باربی کیویا مٹن کڑاہی پکانے کا قطعی ضامن نہیں ہے وہ لوازمات آپ کے سلنڈر نے نہیں آپ نے دستیاب کرنا ہیں۔
نئے سال کے متعلق شور و غوغا پوری دنیا میں بلا امتیاز بہ کثرت پایا جاتا جاتا ہے۔ کچھ لوگ خاموشی سے محنت کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ گردش ماہ و سال کے دامن میں اپنے لیے خیر تلاش کر تے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بہادر جنگوں میں مارے جاتے ہیں جبکہ حد درجہ کے عقلمند پاگل ہو جاتے ہیں عملاً یہ دنیا احمقوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کہاوت کو آپ سال کے 364 دن بے شک غلط قرار دے دیں لیکن سال کا پہلا دن پھر بھی اس سے مستثنیٰ رہے گا۔
دنیا بھر میں نئے سال پر آتش بازی ہو ئی ہے جس پر کروڑوں ڈالر ہوا میں اڑا دیئے جاتے ہیں لیکن یہ خیال نہیں آتا کہ دھمال ڈالنے والوں کی اپنی زندگی کا ایک سال کم ہو گیا ہے اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی زندگی کی ڈیڈ لائن کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ ایک طرف عمر بڑھ رہی ہے جبکہ دوسری طرف سے کم ہو رہی ہے۔
ہاں البتہ دنیا میں صحت کی بہتر سہولتوں اور بیماریوں سے بچاو¿ اور ادویات کی ایجاد کی وجہ سے شرح اموات میں کمی اور اوسط عمر میں اضافہ کی وجہ سے طویل العمری بڑھ رہی ہے ہر ملک میں life span بتدریج بڑھ رہا ہے۔ پہلے 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے والے سمجھتے تھے کہ اب ان کا آخری وقت قریب ہے مگر یورپ امریکا میں اوسط عمر 85 سال تک پہنچ چکی ہے گویا لوگ ریٹائر منٹ کے بعد بھی ربع صدی زندہ رکھتے ہیں وہاں اب یہ نظریہ زور پکڑ رہا ہے کے "60 is a New 40” ان ممالک میں چونکہ زندگی خو شحال ہے لہٰذا یہ لوگ 60 سال کی عمر میں خود کو 40 کا محسوس کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاںمعاملہ اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ مغرب میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہLife starts at 40 یعنی زندگی شروع ہی 40 سال سے ہوتی ہے اس فارمولے کی رو سے 60 سالہ بوڑھا اپنے آپ کو شوکرتا ہے کہ وہ تو صرف 20 کا ہے وجہ پوچھو تو دہی کہ زندگی 40 سے شروع ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سال نو کا جشن منانے والوں کا نظریہ یہ ہے کہ وہ ناچتے ہوئے پرانے سال سے نئے سال میں داخل ہو رہے ہیں تاکہ دنیا کو دکھا سکیں کہ ہم نے سال کا اختتام بھی رقص و موسیقی میں کیا ہے اور نئے سال کا آغاز بھی ناچ ناچ کر کر رہے ہیں یہ در حقیقت اندر سے کھوکھلی روحیں ہیں ان کے قہقہوں کے پیچھے ان کی گہری سسکیاں چھپی ہوتی ہیں یہ وقتی طور پر عارضی جشن کے لیے خوشی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔
عام طور پر ہم سال کے سفر کو خط مستقیم یا Straight line سمجھتے ہے ہیں حالانکہ سال کا سفر سیدھی لائن نہیں بلکہ دائرے کا سفر ہے اور سال کے پورا ہونے پر ہم پھر وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے ہم 365 دن پہلے چلے تھے۔ پھر وہی جنوری تا دسمبر کا سلسلہ پھر دن کے بعد رات ، پھر کبھی راتیں لمبی اور کبھی دن چھوٹے اور ایک مرحلے پر دن رات برابر۔ اسی طرح سارے موسم پھر سے قطار در قطار آتے اور جاتے ہیں اس طرح زندگی کے ٹریک پر ایک چکر مکمل ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی اگلا چکر شروع ہو جاتا ہے۔ انسانوں نے صرف یہ کام کیا ہے کے ان ماہ و سال کی نمبر نگ کر دی ہے جس کے تحت ہر سال کا ایک ھند سے یا Digit ہے تاکہ تاریخ تشکیل دی جاسکے
نیا سال زندگی کے پٹوار خانے کا نیا بہی کھاتہ ہے جسے ہم میں سے ہر ایک نے فرداً فرداً خانہ پری کرنا ہے تاکہ سال کے آخر میں کوئی خانہ خالی نہ رہے۔ یاد رہے کہ خالی خانوں کا کوئی نمبر نہیں ہوتا۔ لہٰذا کوئی خانہ خالی نہ چھوڑیں۔ زندگی کے رجسٹر اور پٹوار خانے کے رجسٹر میں فرق یہ ہے کے اس رجسٹر میں جب آپ اگلا ورقہ پلٹ دیتے ہیں تو پھر پچھلے ورقے کی طرف واپسی ناممکن ہو جاتی ہے کیونکہ وقت کی گاڑی میں ریورس گیئر نہیں ہوتا۔

تبصرے بند ہیں.