2012ءجون میں پہلی بار عمرہ کیا۔ آقا کریم کے روضہ اقدس پر حاضری اور سلام کرنے کے بعد اگلے روز میں دوبارہ سرکار کی بارگاہ میں حاضر ہوا سب کے علم میں ہے کہ درود و سلام پیش کرنے والے زائرین سرکار کریم کے روضہ اقدس کی جالی کو ہاتھ، رومال یا کسی بھی طریقہ سے مس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ باب السلام کی طرف سے داخل ہو کر سرکار کو سلام کرتے کرتے جب میں بالکل جالی کے سامنے پہنچا، عشا کے بعد رات کا وقت تھا۔ رش قدرے کم تھا، وہاں پر دو ”شرطے“ ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں جو عاشقان و غلامان کو آقا کریم کے روضہ مبارک کی جالی سے ہٹاتے اور آگے چلنے کا حکم دیتے رہتے ہیں میں نے آقا کریم کے روضہ مبارک کی جالی سے پہلے بنی ہوئی چھوٹی سی دیوار پر ڈیوٹی دیتے ہوئے سپاہی سے انگلش، اردو، عربی، نگاہوں اور اشاروں کنایوں، غرض سب زبانیں لمحوں میں بول دی گئیں، سے کہا اور وہ میری بات سمجھ بھی گیا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ ”تم روضہ کی جالی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے نہ سہی، تم روضہ مبارک کی جالی کو اپنا ہی ہاتھ لگاو¿، تم ادھر ڈیوٹی کر رہے ہو کئی بار تمہارا ہاتھ لگتا ہے اب میرے کہنے پر جالی مبارک کو ہاتھ لگاو¿ اور پھر میرے سے ہاتھ ملا لو“۔ وہ ورطہ حیرت میں مبتلا تھا، اس نے مجھے معمول کے مطابق آگے چلے جانے کا حکم دینے کے بجائے غور کیا سوچ میں پڑ گیا مجھے بغور دیکھنے لگا اور پھر دوسری طرف یعنی اس دیوار کے اندر ڈیوٹی دینے والے دوسرے ساتھی شرطے سے بات کی، مجھے عربی کی خاص سمجھ تو نہ آئی مگر لگا کہ اس نے کہا کہ یہ نیا مقدمہ آ گیا ہے۔ یہ نیا مطالبہ ہے، یہ نئی بات ہے وہ دوسرا شرطہ بھی حیران ہوا۔ میری طرف دونوں نے دیکھا جو دوسرے لوگ تھے ان کو چلے جانے کا حکم وہ دیتے تو رہے مگر میری درخواست پر حیرت و حیرانی سے غور کرنے کے بعد دوسرے والے نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ پھر دوسرے لوگ بھی یہ مطالبہ شروع کر دیں گے۔ ہمارے لیے نئے مسائل
پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے۔ میں نے کہا کہ چلو مصافحہ کر لو وہ پھر ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے پھر ان کا وجود معذرت میں بدل گیا شاید ان کے لیے پہلی بار تھا۔ میں وہاں ڈیوٹی کرنے والے شرطوں کو حیران اور سوچوں میں گم دیکھ رہا تھا، اتنے میں میرے قافلے کے لوگوں کے لیے کھانے کی پکوائی کرنے والے بھولا نے مجھے ہلکا سا دھکا دیا سرکار کے روضہ کی جالی کی طرف اور میرا رومال سر سے اتار کر جالی مبارک پر لگا کر مجھے دے دیا۔ اس کے اس عمل پر وہ دونوں ڈیوٹی دینے والے خفا نہ ہوئے مگر مجھے کچھ اطمینان بھری نظر سے دیکھا کہ یہ پوری امت میں پہلا مقدمہ آیا تھا کہ جالی کو ہاتھ نہ لگانے دو، چومنے نہ دو، قریب نہ آنے دو، بس تم جو کہ اکثر اس کو مس کرتے ہو میرے کہنے پر مس کر لو اور اپنا ہاتھ مجھ سے ملا لو ہاتھ ملانا تو بدعت نہ تھی۔ مجھے اس نسبت سے غرض تھی مگر جب میں 2019ءمیں در مصطفی پر حاضری کے لیے گیا تو میں نے ریاض الجنہ اور سرکار کے در پر حکومت کی طرف سے مقرر کردہ داروغہ سے بھرپور ہاتھ ملایا۔ اس نے ہاتھ تو ملا لیا مگر اس کے چہرے پر تکبر آمیز حیرت تھی اور شاید حقارت بھی کہ یہ میرے سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ میں الحمد للہ! سرکار کی نظر کرم سے وہاں موجود تھا میں نے اس سے کہا کہ تمہارے ساتھ مصافحہ اس لیے کیا ہے کہ تیرا ہاتھ روضہ¿ مبارک کی جالی کو لگتا رہتا ہے جس سے اس کا غرور تو جاتا رہا البتہ حیرت اور معمولی سا غصہ ضرور نمایاں ہوا کہ اس نے میری حیثیت کی وجہ بتا دی ورنہ ذاتی حیثیت میں اللہ بہتر جانے وہ کیا تھا۔ روضہ مبارک باب جبریل سے داخل ہوا کبھی اور کبھی اصحابِ صفاؓ کے چبوترے کی طرف سے، کبھی دوسری چھتریوں کے یارڈ سے، کبھی قدمین شرف کی طرف سے کبھی ریاض الجنہ کی طرف نظریں تھیں کہ ہر ہر رخ پر پورے کے پورے کو دیکھتی اور دیکھتے ہوئے بھی دیکھنے کو ترستیں مجھے حضرت سلطان باہوؒ کا کلام بھی یاد آیا کہ اِک اِک لوں مڈھ لکھ لکھ چشماں میں اِک کھولاں تے اِک کجاں ہو…. پر مرشد ویکھ نہ رجاں ہو اور کبھی عابدہ پروین کا گایا ہوا کہ ہم نے یار کو جا بجا دیکھا میں محسوس کروں کہ میں نے در آقا کو جا بجا دیکھا۔
میں بھی عجیب کیفیت میں رہا اور ہر حاضری پر سلام پر میرا یہی حال رہا۔ میری روح مجھے چشم تصور سے کبھی سرکار کے مسکن پر میری حسرتیں جس کا طواف کرتی رہتی ہیں اسی جگہ پڑاو¿ کرتی نظر آئیں جب آقا مکہ سے سفرِ ہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائے کبھی مجھے حضرت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت ابو دجانہؓ، حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ جن کے پاو¿ں کی خاک میری آنکھوں کا سرمہ جناب حضرت بلالؓ، حضرت امیر حمزہ، ؓحضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت اسامہ بن زیدؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت جعفر طیارؓ، حضرت ابو ذر غفاریؓ،حضرت خالد بن ولید، حضرت انس اور حضرت مولا علی علیہ السلام آقا کریم کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہوئے چشم تصور میں نظر آئے۔ کبھی چاندنی رات میں سرخ کُرتا پہنے صحابہؓ کی محفل جس کا ذکر حضرت شمرہؓ نے کیا کہ چودھویں کا چاند آسمانوں پر جلوہ افروز تھا اور سرکار چہرہ اقدس مسجد نبوی میں زمین کو جنت عرضی بنائے ہوئے انوارات کا مرکز بنا ہوا تھا۔ ایک نظر وہ چودھویں کے چاند اور کبھی سرکار کے رُخ انور پر ڈالتے ہیں۔ ہائے سبحان اللہ چودھویں کا چاند سرکار کے چہرہ¿ انور کے سامنے مات تھا میں کبھی اپنے آپ کو اس محفل میں شریک پاتا، کبھی مسجد نبوی میں وفود کو سرکار کی خدمت میں پیش ہوتا ہوا نظر آتا، کبھی سرکار امامت کرا رہے ہیں اور حسنین کریمینؓ نماز میں کندھوں پر دکھائی دیتے، کبھی نواسی زینبؓ کو گود میں لیے نماز پڑھنا بھی گمانوں پر دستک دے کر گزر جاتا۔ میں زندگی بھر سرکار کے در اقدس پر اپنی روح اور چشم تصور کے بارے میں لکھوں تو شاید کبھی مکمل نہ کر پاو¿ں جب سرکار کی سانسوں کی مہک اس دنیا کے مقدر میں تھی میرے آقا آج بھی غلاموں کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ آج بھی ہماری عرضیاں اور سوالات انہی سے ہو کر قبول ہوتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.