آئینی ترامیم اور مولانا فضل الرحمن کا ’’ انتقام‘‘

26

14اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو قانون ساز اسمبلی کا سب سے پہلا امتحان ایک متفقہ آئین کی تیاری اور منظوری تھا۔بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کی جلد رحلت کے بعد یہ کام لٹک گیا۔اس وقت نیا آئین کیوں تیار نہ ہوا یہ ایک لمبی کہانی ہے جس کی تفصیل میں فی الحال جانے کی ضرورت نہیں ۔بعدازاں 1973ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے ایک متفقہ آئین منظور کر لیا جسے تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ 1973 ء کے آئین میں اب تک 25 مرتبہ ترامیم ہوچکی ہیں۔مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے آئین میں چھبیسویں ترمیم لانے کا ارادہ کیا تو اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اسے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہ تھی کیونکہ آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے یعنی قومی اسمبلی میں 224 ووٹ اور سینیٹ میں 64 ووٹ۔ اس وقت حکمراں اتحاد جس میں پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں‘ کے پاس قومی اسمبلی میں 214 ارکان ہیں جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو 10 مزید ووٹ درکار ہیں۔اسی طرح سینیٹ میں بھی نمبر گیم پوری نہیں ہے۔ نمبرز گیم کو پورا کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام انتہائی اہمیت اختیار کر گئی اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوںحکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعتیں تواتر کے ساتھ مولانا کے در پر حاضر ہوتے رہے۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس قومی اسمبلی میں آٹھ اور سینیٹ میں پانچ ارکان ہیں۔ حکمراں اتحاد کی کوشش تھی کہ انھیں اس آئینی ترمیم پر مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت مل جائے جبکہ دوسری طرف پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی کی خواہش تھی کہ مولانا فضل الرحمان ان کے موقف کی حمایت کریں اور عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم منظور نہ ہوسکے۔پی ٹی آئی کا وفد بھی بار بار مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کیلئے آتا رہا ، یہ وہی مولانا ہیں جن کے بارے بانی پی ٹی آئی عوامی جلسوں میں جن خیالات کا اظہار کرتے رہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن اب انہی کے در پر حاضری بھی دی جا رہی ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں سیاست بڑی ظالم شے ہے ۔ نمبرز گیم کی بات پر ہی رہا جائے تو اگر مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی اس آئینی ترمیم کی حمایت کر دیتی تو پھر بھی حکومت کو تین سے چار ووٹ مزید درکار ہوں گے جن کے بارے میں حکمراں اتحاد کے ارکان کچھ بھی بتانے سے گریزاں رہے۔ تاہم حکومتی جوڑ توڑ اور ملاقاتیں ناکام رہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس مطلوبہ نمبر پورے نہیں ہوسکے، اس لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس ملتوی کر دیئے گئے اور اب نئے سیشن میں یہ معاملہ زیر بحث لایا جائے گا ۔گزشتہ اتوار کے روز بھی حکومت کی جانب سے بلائے گئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس اس لیے شروع نہ ہوسکا کیونکہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے 26ویں آئینی ترمیم پر حکومت کی حمایت کرنے کی حامی نہیں بھری تھی۔ اس دوران حکمراں اتحاد، جس نے اپنے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کو ہر حال میں پارلیمنٹ ہاؤس میں موجود رہنے کی ہدایت کر رکھی تھی‘کے اراکین تقریباً 14 گھنٹے پارلیمنٹ کے اندر ہی گھومتے رہے اور اپنی قیادت سے سوال کرتے رہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس کب شروع ہوگا؟۔
8فروری کو ہونیوالے عام انتخابات کے بعد مولانا فضل الرحمان پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے ناراض نظر آئے۔ انھوں نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے اور پارلیمنٹ کو بھی ’جعلی‘ قرار دیا۔ پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکمراں اتحاد کے رہنماؤں نے مولانا فضل الرحمان کی جماعت کو حکومت سازی کے وقت نظر انداز کیا اور مولانا اب اس بات کا ’’ انتقام ‘‘ لے رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمن سیاسی بساط کے بڑے کھلاڑی ہیں جو اپنی چالیں بر وقت چلانا بخوبی جانتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنے پیچھے لگا رکھا ہے ۔ حکومت کی جانب سے آئین میں کیا ترامیم لائی جا رہی ہیں اس کی جو تفصیلات میڈیا میں سامنے آئی ہیں اس کے مطابق حکومت 53 ترامیم لانا چاہ رہی ہے جن میں اہم یہ ہیں ۔ آرٹیکل 17 میں ترمیم، لفظ سپریم کورٹ کو وفاقی آئینی عدالت سے تبدیل کردیا جائے۔حکومت پاکستان کے خلاف کام کرنے والی جماعت کا معاملہ سپریم کورٹ کی بجائے وفاقی آئینی عدالت کو بھیجے گی۔ آرٹیکل 48: وزیراعظم، کابینہ کی صدر کو ایڈوائز کسی عدالت اور ٹربیونل میں چیلنج نہیں ہو سکے گی۔ آرٹیکل 63 اے میں تین ترامیم تجویز، ووٹ شمار ہوگا، ڈی سیٹ کرنے کا معاملہ وفاقی آئینی عدالت میں جائے گا۔ آرٹیکل 68: وفاقی آئینی عدالت کے جج کے خلاف پارلیمان میں بات نہیں ہو سکتی۔ آرٹیکل 81: تین ترامیم شامل، لفظ وفاقی آئینی عدالت شامل کیا جائے۔ آرٹیکل 100: اٹارنی جنرل پاکستان وہ شخص تعینات ہوگا جو وفاقی آئینی عدالت یا سپریم کورٹ کا جج بننے کا اہل ہو۔ ایک ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن میں تبدیلی، وفاقی آئینی عدالت کا سربراہ چیئرپرسن ہو گا۔جوڈیشل کمیشن میں وفاقی آئینی عدالت کے دو ججز، چیف جسٹس سپریم کورٹ، سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین ججز شامل ہوں گے۔سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کمیشن کے چیئرپرسن ہوں گے۔آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی کی سفارش اسپیکر کی نامزد کردہ 8 رکنی قومی اسمبلی کی کمیٹی کرے گی۔ پہلی بار آئینی عدالت کے ججز کی تعیناتی صدر چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کی مشاورت سے کریں گے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تعیناتی طریقہ کار میں تبدیلی۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ کا نام کمیٹی تین سینئر ترین ججز میں سے کرے گی۔آرٹیکل 178اے: وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہو گی۔ آرٹیکل 179: چیف جسٹس سپریم کورٹ کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہو گی۔ آرٹیکل 184: دو یا اس سے زیادہ حکومتوں کے درمیان تنازع وفاقی آئینی عدالت دیکھے گی۔ مفاد عامہ کے تمام مقدمات سپریم کورٹ سے وفاقی آئینی عدالت منتقل ہو جائیں گے۔ 184 اے کی شمولیت: ہائی کورٹس کے آئینی معاملات پر فیصلے وفاقی آئینی عدالت میں چیلنج ہو سکیں گے۔آرٹیکل 186: صدرارتی ریفرنس پر سماعت آئینی عدالت کرے گی۔ وفاقی آئینی عدالت کسی بھی ہائی کورٹ کے سامنے معاملے کو کسی دوسری ہائیکورٹ یا خود کو منتقل کر سکتی ہے۔ آرٹیکل 187 میں ترمیم: وفاقی آئینی عدالت کسی بھی متعلقہ شخص کو طلب کر سکتی ہے۔ آرٹیکل 188: وفاقی آئینی عدالت اور سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کا اختیار رکھیں گی۔ سپریم کورٹ کا قانونی اصول پر کوئی بھی فیصلہ وفاقی آئینی عدالت پر بائنڈنگ نہیں ہو گا۔ تمام جوڈیشل اتھارٹیز وفاقی آئینی عدالت کی مدد کی پابند ہوں گی۔ قومی سلامتی سے متعلقہ کسی شخص پر ہائی کورٹ حکم جاری نہیں کر سکے گی۔ آرٹیکل 210: کسی شخص کو طلب کرنے کا کونسل کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کا اختیار ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.