حماقتوں کی انتہا

29

آئینی ترامیم کے حوالے سے تین دن تک ملک میں جو تماشا لگا رہا یا زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ تماشا لگایا گیا اسے شاعرانہ انداز میں کہا جائے تو
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
اور اگر محاورے کے طور پر کہا جائے تو
کھودا پہاڑ نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا
یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کھایا پیا کچھ بھی نہیں اور بارہ آنے کا گلاس توڑ کر گھر آ گئے حماقت در حماقت اور پھر حماقتوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے جب ترمیم ہوئی تھی تو اس کی تو نوعیت ہی علیحدہ تھی کہ بقول مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھ مروڑ کر کرائی گئی بات ہاتھ مروڑنے کی آئی تو یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ سیاست دانوں کے جب تک ہاتھ نہ مروڑے جائیں اس وقت تک کسی اتفاق رائے پر پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی اشارے کے بغیر مل بیٹھنے کو تیار ہوتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود بھی ہم نے دیکھا کہ جن کے پاس بازو مروڑنے کی طاقت نہیں ہے انہوں نے بھی 18ویں ترمیم کی صورت میں ایک قسم کا تجدید آئین کر کے دکھا دیا لیکن ہر چیز کا ایک طریقہ ہوتا ہے اور اسے اس کے مطابق ہی کیا جائے تو ہو گا ورنہ وہی ہو گا کہ جو کچھ تین دن تک ہوتا رہا اور حکومت کو زبردست ہزیمت کے بعد پیچھے ہٹنا پڑا یہاں ایک بات بڑی اہم ہے کہ ترمیم ہونا یا نہ ہونا اور ترمیم میں ناکامی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن جس طریقے سے یہ سب کچھ ہوا اس نے حکومت کے لئے نیک نامی کا سامان پیدا نہیں کیا۔

آئینی ترامیم میں کیا ہے اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے ڈھول کئی دن سے میڈیا میں پیٹے جا رہے ہیں اور ہر کوئی ان سے واقف ہو چکا ہے لیکن ایک عام فہم بات یہ ہے کہ جس جماعت یا فرد کے پاس بھی آپ آئینی ترمیم میں تعاون کے لیے جائیں گے تو اس کا اتنا حق تو بنتا ہے کہ وہ حکومت سے آئینی ترامیم کے مسودے کو مانگ سکے اس لئے کہ میڈیا پر ان مجوزہ ترامیم کے حوالے سے جو کچھ بھی آ رہا تھا وہ سب اپنی جگہ درست ہو گا لیکن یہ کوئی کسی فلم یا ناول کا سکرپٹ نہیں تھا بلکہ آئین میں ترامیم کی بات تھی جس میں کامہ اور فل اسٹاپ کی بھی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے لیکن سب سے بڑی حیرت ہی اس بات پر ہے کہ بار بار اصرار کے باوجود بھی ترامیم کا مسودہ نہیں دیا گیا اور اس صورت میں دوسرے فریق سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ایک نہیں بلکہ درجنوں ترامیم پر آپ کا ساتھ دے گا حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔
اب بات کرتے ہیں ان سب کی کہ جو پاکی دامن کی بلند ترین مسند پر بیٹھ کر ان ترامیم کی مخالفت کر رہے ہیں اور دعوے یہ ہیں کہ ہم تو اصولی موقف کی وجہ سے ان ترامیم کے خلاف ہیں ان ترامیم کی مخالفت کہاں تک اصولوں پر مبنی ہیں اگر ایک نظر اس پر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ اتنا بھی اصولی نہیں ہے اس لئے کہ یہ تحریک انصاف ہے جو ان ترامیم کی سب سے زیادہ مخالف ہے کہ جس نے اپنے دور میں موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجا تھا اور جس طریقے سے وہ ریفرنس چلایا گیا اور قاضی صاحب کی اہلیہ کو کٹہرے میں کھڑا کر کے جس طرح سوالات کر کے انھیں بھری عدالت میں سب کے سامنے رونے پر مجبور کیا گیا یہ تو ابھی کل کی بات ہے اس کے علاوہ افتخار چودھری سے شروع کی گئی رسم بد کہ جس میں عوام کے منتخب وزیراعظم کو پہلی مرتبہ اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے گھر بھیجا گیا اس کے بعد ثاقب نثار نے ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرار دے کر دس سال قید کی سزا دے کر جیل بھیج دیا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور پھر نوبت گڈ ٹو سی یو تک پہنچ گئی اور پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار کسی ملزم کو ججز کے گیٹ سے عمر عطا بندیال کی عدالت میں لایا گیا بندیال صاحب کے دور میں تو حالت یہ ہو چکی تھی کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں عمر عطا بندیال کی جانب سے جو بینچ بنائے جاتے تھے ان کے بنتے ہی اندازہ ہو جاتا تھا کہ کس طرح کا فیصلہ آئے گا اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی تشریح پر جس طرح نیا آئین لکھ دیا گیا اور حکومت کی جانب سے اس پر نظر ثانی کی اپیل پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا یہ وہ تمام امور ہیں کہ جن پر کوئی اختلاف رائے نہیں بلکہ ان سب پر ایک قسم کا اتفاق پایا جاتا ہے اور سبھی کہتے ہیں کہ یہ سب غلط ہوا تو کیا جوڈیشل ریفارمز وقت کی اہم ضرورت نہیں ہے ہاں البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکومت اگر ترامیم کا ایک ڈرافٹ دیتی ہے تو اس میں حزب اختلاف کو اپنی تجاویز دینی چاہئے اور پھر کسی اتفاق رائے پر پہنچنے کو کوشش کرنے چاہیے لیکن یہاں پر مفادات سے ہٹ کر کچھ اور کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور نہ کوئی کرنا چاہتا ہے بہرحال حکومت ابھی مایوس نہیں ہوئی اور بلاول بھٹو زرداری نے ایک مرتبہ پھر مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی ہے اور حکومت کی جانب سے کوشش تو یہی ہو رہی ہے کہ کسی اتفاق رائے پر پہنچا جائے اور اس میں مولانا اور اختر مینگل کے تحفظات دور کرنا ہیں لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے اس لئے کہ ڈیڈ لاک ان نقاط پر ہے کہ جن کی وجہ سے حکومت ترامیم پر مجبور ہوئی ہے اگر وہ ترامیم ہی ایجنڈے سے نکال دی جائیں تو پھر کم از کم حکومت کے لئے باقی کچھ نہیں بچتا لہذا حکومت کی پوری کوشش ہو گی کہ وہ مولانا اور اختر مینگل کو کسی بھی طرح منا لے اور کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ حکومت کے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے اس لئے کہ اسے اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر یہ ترامیم نہ ہو پائیں تو آنے والے دنوں میں سپریم کورٹ کی جانب سے یہ نہ ہو کہ فروری 2024 کے پورے الیکشن کو ہی اڑا کر رکھ دیا جائے اور اگر ایسا ہوا تو یہ حکومت کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے سسٹم کے لئے ہی خطرہ ہو سکتا ہے اور پورے نظام کی بساط لپیٹی جا سکتی ہے اس لئے حکومت کی جانب سے آخری حد تک کوشش کی جائے گی کہ مولانا کی جو بھی شرائط ہیں وہ مان کر کسی بھی طرح مولانا کو راضی کر لیا جائے ورنہ جو دیوار پر لکھا ہے وہ تو اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.