پاکستان کو قائم ہوئے چھہتر سال گزر چکے ہیں اور جب ہم ملک کی موجودہ حالت پر غور کرتے ہیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اوپر جانے کے بجائے نیچے کی طرف گامزن ہیں۔ ہم حکمرانی کے ہر شعبے میں مسلسل غلطیاں کرتے رہے ہیں۔ ہمارے ادارے، جن کا مقصد عوام کی حفاظت اور خدمت کرنا تھا، غیر فعالی، نااہلی اور بدعنوانی کا بنیادی ذریعہ بن چکے ہیں۔ اگر پاکستان کو اپنی موجودہ زوال زدہ حالت سے نکلنا ہے تو ہمیں اس نظام کو بدلنا ہوگا۔ عدلیہ سے لے کر پولیس تک، بیوروکریسی سے لے کر ہماری سیاسی اشرافیہ تک، سب ملک کے زوال میں برابر کے شریک ہیں۔ ہمار اعدالتی نظام نااہلی، تاخیر اور انصاف کی فراہمی میں ناکام ہے۔ عدلیہ جو کہ جمہوریت کا ایک بنیادی ستون ہے، اپنی بنیادی ذمہ داری یعنی لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا قانون کی حکمرانی پر عالمی درجہ بندی کے مطابق پاکستان ایک سو اٹھائیسویں نمبر پر ہے۔ یقینی طور پریہ پوری قوم کے لئے شرمندگی کا مقام ہے۔ جب مقدمات برسوں، بعض اوقات دہائیوں تک، بغیر کسی حل کے چلتے رہتے ہیں اور انصاف نہیں ملتا تو شہریوں کا نظام انصاف پر سے اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ ایسی ہزاروں مثالیں موجودہیں کہ دادا کا انصاف بھی قسمت والے پوتے کوملتا ہے۔ بلاول بھٹو اپنے نانا ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے چھیالیس برس بعد انصاف حاصل کر سکے۔ آپ سوچیں کیا ایک عام آدمی عدالت سے انصاف کی توقع کر سکتا ہے؟پاکستان میں خراب شہرت اور کارکردگی میں پولیس کا ادارہ کسی طرح پیچھے نہیں ہے۔ پاکستان میں پولیس عوام کی خدمت اور تحفظ کے بجائے کرپشن کاعنوان بن چکی ہے۔ پولیس کا ذکر آتے ہی تحفظ کے احساس کی بجائے رشوت ستانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال خیال آتا ہے۔ لوگ تھانوں میں جانے سے خوف محسوس کرتے ہیں۔ دراصل حکمرانوں نے پولیس کو عوامی خدمت کے بجائے ہمیشہ ذاتی فائدے کے لیے استعمال کیا ہے۔ عام شہری لٹنے کے بعد بھی پولیس سے مدد مانگنے سے کتراتا ہے کیونکہ اسے ایک بار پھر سے لٹنے کا خوف طاری ہو جاتا ہے۔ امیر اور طاقتور اپنے فائدے کے لیے نظام کو جوڑ توڑ کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں، جب کہ عام آدمی بے آسرا اور بے سہارا دھکے کھا رہا ہے۔ پاکستان کی بیوروکریسی، جس کا اکثر سفید ہاتھی سے موازنہ کیا جاتا ہے، ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ محل نما گھراور مہنگی گاڑیاں رکھنے والے بیوروکریٹس عوام کی خدمت کے بجائے معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں۔ دنیا کے بر عکس پاکستان میں بیوروکریسی سرخ فیتہ اور نااہلی کی علامت بن چکی ہے۔ اگرایک ایم این اے، ایم پی اے یا کو ئی تگڑا صحافی اپنا تعارف نہ کرائے تو ایک بجلی کا میٹر بھی نہیں لگوا سکتا۔ جو وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ بیورو کریسی کو سیدھا کرنے کی کو شش کرے تو یہ نظام چوپٹ کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف عوام کی خدمت کے لیے منتخب ہونے والے ایم این اے اور ایم پی اے اپنے علاقوں میں مرضی کے ایس ایچ اوز، پولیس افسران اور ان کی پسند کے دیگر سرکاری اہلکار ان کے حلقوں میں تعینات کراتے ہیں۔ ان افسران کا انتخاب میرٹ یا قابلیت کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو کنٹرول کرنے والے سیاستدانوں کے ساتھ وفاداری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔کرپشن کی سیاسی سرپرستی کے اس نظام نے پاکستان کو ذاتی جاگیروں میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں سیاست دانوں نے اپنی اپنی بادشاہتیں قائم کر رکھی ہیں۔ ملک کے وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم انھیں روکنے کی بجائے آنکھیں بندرکھتے ہیں۔ ان کی بنیادی فکر اقتدار پر قابض رہنا اور کر سی بچانا ہے۔ کیا اس طرح نظام چلے گا؟ ہمارے موجودہ نظام کی سب سے بڑی خامی بدعنوانوں کو تحفظ دینے کی صلاحیت ہے۔ جب کوئی بدعنوان اہلکار پکڑا جاتا ہے، تویہ نظام خود اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ یا تو بری ہو جائیں یا انہیں معمولی سزا دی جائے۔ آپ سب کویاد ہوگا بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے ساٹھ کروڑ سے زائد کرپشن سے بنایا گیا پیسہ برآمدہوا اور اربوں روپے کی پراپرٹی پکڑی گئی۔ سب نے ٹی وی سکرینز پر بھی دیکھا۔ پھر کیا ہوا؟کیاہم نے اس شخص کو نشان عبرت بنایا؟ یا اس کے ساتھ جڑے مافیا کو پکڑا؟ نہیں، اگر اس کو نشان عبرت بنا دیا جاتا تو بلوچستان کیا پورے ملک سے کرپشن ختم ہوجاتی۔ یہ سب مل کر ایک مافیا کا روپ دھا رچکے ہیں۔ اس کرپٹ مافیا نے عوام کی زندگی مشکل بنا رکھی ہے۔ تعلیم، صحت اور روزگار سے محروم عوام اس نظام سے تنگ آچکے ہیں۔ اگر یہ نظام نہ بدلا گیاتوکسی دن یہ سب بغاوت کردیں گے۔ اب یہ نظام اس قابل نہیں رہا کہ اس کی مرمت کی جائے۔ پاکستان کو نظام کی مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمیں حکمرانی کے دوسرے ماڈلز کو دیکھنا چاہیے جو کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ ایسا ہی ایک ماڈل چین ہے۔چین نے پچھلی چند دہائیوں میں کروڑوں لوگوں کو غربت سے نکالا ہے، ایک مضبوط معیشت بنائی ہے، اور دنیا میں حکمرانی کے
سب سے موثر نظاموں میں سے ایک بنایا ہے۔ اس کا میرٹوکریٹک بیوروکریسی کا ماڈل، جہاں افسران کو سیاسی روابط کی بجائے کارکردگی کی بنیاد پر ترقی دی جاتی ہے، پاکستان کے لیے ایک مثال بن سکتی ہے۔ مضبوط مرکزی گورننس کا چینی ماڈل، سخت انسداد بدعنوانی کے اقدامات کے ساتھ، پاکستان کو اس کے انتہائی اہم مسائل سے نمٹنے میں مدد کر سکتا ہے۔ ہمارے نظام کے برعکس، جہاں بدعنوان ترقی کرتے ہیں اور قابل افراد کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔لیکن چائنا ماڈل کو اپنانے کے لیے صرف قوانین میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کوچلانے والوں کاذہن بھی بدلنا ہو گا۔اگر اس نظام کو اسی کرپٹ ذہنیت کے ساتھ چلایا گیا تو یہاں چائنا کیا کوئی بھی ماڈل آجائے کچھ نہیں بدلے گا۔ ایسے قوانین بنانا ہوں گے اعلیٰ ترین عہدوں سے لے کر ادنیٰ تک ہر سطح پر کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ مجرم کو موقع پر سزا دے کرنشان عبرت بنا دیں۔ موجودہ آئین میں اتنی بار ترمیم اور ردوبدل کیا گیا ہے کہ اب وہ اس مقصد کو پورا نہیں کرتا جس کے لیے اسے بنایا گیا تھا۔ اگر ہم بحیثیت قوم آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو میرٹ، انصاف اور قانون کی حکمرانی پر مبنی ایک نیا آئین بنانا ہو گا۔ اب نظام بدلنا ضروری ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.