صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں…!

23

(گزشتہ سے پیوستہ)
صفا اور مروہ کے درمیان دونوں راستوں کے تقریباً درمیانی حصے میں ایک دوسرے سے کم از کم چالیس، پچاس قدم کے فاصلے پر سبز ٹیوب لائٹس لگی ہوئی ہیں جو صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان اس حصے کی نشاندہی کرتی ہیں جہاں سے حضرت ہاجرہ ؓ جب پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگا رہی تھیں تو دوڑ کر گزرتی رہیں۔ اب سعی کرتے ہوئے مرد حضرات کو یہاں سے دوڑ کر یا کم از کم دوڑنے کے انداز میں تیز قدموں کے ساتھ گزرنا ہوتا ہے۔ خواتین کے لیے اجازت ہے کہ وہ معمول کی رفتار سے یہاں سے گزر سکتی ہیں۔ عمران سعی کے ساتوں چکروں کے دوران یہاں سے دوڑ کر گزرتا رہا۔ میں نے بھی پوری کوشش کی کہ اگر ذرا تیز دوڑا نہیں جا سکتا تو کم از کم دوڑنے کا انداز اپنائے رکھوں۔ عمران کی امی البتہ معمول کی رفتار سے یہاں سے گزرتی رہیں۔

صفا سے مروہ کی طرف بڑھیں تو سرے پر مروہ کی پہاڑی کا بھی کچھ حصہ چمکدار پُر کشش چٹان کی صورت میں دائرہ نما احاطے میں ذرا اونچائی پر موجود ہے۔ یہاںتک پہنچنے پر سعی کا ایک چکر مکمل ہو جاتا ہے۔ یہاں سے پھر واپس صفا کا رُخ کیا جاتا ہے ۔ اب خانہ کعبہ دائیں ہاتھ پر ہوتا ہے۔ آگے بڑھتے ہیں تو پھر سبز ٹیوب لائٹس کا حصہ آ جاتا ہے، یہاں سے جیسے اوپر کہا گیا ہے مردوں کو دوڑ کر گزرنا ہوتا ہے۔ یہاں سے آگے گزرتے ہیں تو اللہ کریم کی تعریف، تسبیح اور تحلیل کے لیے ’’لاَ اِلَہَ اِلاَّ اللہ وَحْدَہُ لاَشریکَ لَہُ، لَہُ الْمُلُکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ ا عَلیٰ کُلِ شَیْ ٍ قَدیْر ّ‘‘ پر مشتمل چمکتا بورڈ نظر آتا ہے۔ ہم اللہ کریم کے یہ تعریفی کلمات پڑھتے ہوئے آگے صفا کی طرف بڑھے۔ صفا پہاڑی پر سعی کے آغاز کی جگہ پر پہنچے تو اہلیہ محترمہ اور بھتیجی راضیہ، واجد ملک اور اس کی امی طواف مکمل کرنے کے بعد پہنچے ہوئے تھے۔ ہمارے سعی کے دو چکر مکمل ہو چکے تھے۔ واجد نے اپنی امی کے ساتھ سعی کا پہلا چکر شروع کر دیا تھا جبکہ میری اہلیہ محترمہ کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ پیدل سعی کے سات چکر پورے کر سکیں۔ ان کا سانس پھولا ہوا اور جسم پسینے میں شرابور اور سخت گھبراہٹ کا شکار تھیں۔ فیصلہ ہوا کہ وہ وہیل چیئر چلانے والے مددگار کے ساتھ وہیل چیئر پر بیٹھ کر سعی کے چکر مکمل کریں اور راضیہ ان کے ساتھ رہیں گی۔ صفا کی ڈھلان کے ساتھ مخصوص لباس میں وہیل چیئر والے حضرات موجود تھے، اُن میں سے ایک کے ساتھ رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہیل چیئر پر سعی کرانے کے لیے کم از کم 70 ریال سے100 ریال تک کرایہ لیا جاتا ہے۔ 70 ریال پر اُن صاحب سے بات طے ہوئی جو میں نے ان کو ادا کیے۔ اس طرح اہلیہ محترمہ وہیل چیئر پر بیٹھیں، راضیہ اُن کے ہمراہ تھیں اور اُن کا سعی کا سفر شروع ہوا۔ ہمارے سعی کے پانچ چکر ابھی باقی تھے جنہیں ہم نے صفا سے مروہ، مروہ سے صفا، پھر صفا سے مروہ، مروہ سے صفا اور صفا سے پھر مروہ تک ایک ایک کر کے مکمل کیا۔ مروہ کی ڈھلان پر کچھ آگے رکھے کولروں سے آبِ زم زم پیا اور واپس مروہ کی ڈھلان کے ساتھ ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے۔ ہمیں انتظار تھا کہ میری اہلیہ محترمہ اور راضیہ اور واجد ملک اور اس کی امی بھی سعی کے ساتوں چکر مکمل کر کے ہمیں آن ملیں۔ واجد جو بڑی استقامت اور دل جمعی سے اپنی امی کا ہاتھ پکڑے اپنے ساتھ چلا رہا تھا ابھی ان کے مروہ سے صفا اور صفا سے مروہ کے سعی کے دو چکر باقی تھے۔ اسی دوران راضیہ اور میری اہلیہ محترمہ ہم سے آن ملیں کہ وہیل چئیر چلانے والے سعی کے لیے مقررہ راستے پر تیزی سے وہیل چیئر چلا کر فراغت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں اور عمران کچھ دیر سستانے کے بعد مروہ پہاڑی کی نیم دائرے میں کھڑی چٹان کی طرف گئے اور وہاں ادھر اُدھر کا جائزہ لینے لگے۔ میں سوچ رہا تھا کہ 1983ء میں جب ہم (میں، بڑے بھائی اور والدہ محترمہ بے جی مرحومہ و مغفورہ) حج کے لیے آئے تھے اس وقت سے اب تک41 برس میں جہاں مسجد الحرام کی وسعت کے لیے بے پناہ اور عدیم المثال کام ہوا ہے بلکہ ابھی تک جاری ہے وہاں کچھ اور بھی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت کمزور، بیمار یا معذور افراد کے لیے طواف یا سعی کے لیے وہیل چیئرز کا استعمال یا رواج شروع نہیں ہوا تھا۔ اس کے بجائے مطاف میں حجرِ اسود کے سامنے یا سعی میں صفا کی اونچائی پر سانولے رنگ کے ایسے جسیم اور صحت مند حضرات کھڑے ہوئے مل جایا کرتے تھے جو مقررہ اجرت لے کر ضرورت مند افراد کو کجاوہ نما اپنی پالکیوں میں اپنے کندھوں پر اٹھا کر تیزی سے طواف یا سعی کے چکر لگوا دیا کرتے تھے۔

ہم مروہ کی پہاڑی کے جس گوشے میں کھڑے تھے وہاں باوردی پہریدار بھی قریب ہی کھڑا تھا جو او حاجی، او حاجی کہہ کر ہمیں چٹان سے پیچھے ہٹ جانے کے اشارے کر رہا تھا۔ مجھے خیال آ رہا تھا کہ اُس دور میں مروہ کے اس کونے میں سر کے بال مونڈنے کے لیے حجام پیشہ افراد اپنی قینچیوں اور اُستروں کے ساتھ کھڑے مل جایا کرتے تھے اور سعی سے فارغ ہونے والے مرد حضرات ان سے اپنے سر کے بال منڈوا لیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بائیں ہاتھ آگے ایک تنگ سا چھتا ہوا (چھت پڑا ہوا) بازار بھی تھا جس میں زیادہ تر سناروں اور قیمتی کپڑوں کی دکانیں تھیں۔ میں اِنہی خیالوں میں گُم تھا کہ اس دوران واجد اپنی امی کے ساتھ سعی کے ساتویں چکر کو مکمل کر تے ہوئے مروہ پر پہنچ چکا تھا۔

اب اگلا مرحلہ ہم تینوں (میرے، عمران اور واجد) کے لیے سر کے بال منڈوانے کا تھا۔ خواتین کو ہم نے تاکید کی کہ وہ صفا اور مروہ کے باہر نیچے بائیں ہاتھ مسجد الحرام کے خواتین کے لیے مخصوص احاطے میں چلی جائیں اور مغرب و عشاء کی نمازیں وہیں ادا کریں۔ عشاء کے بعد ہم وہیں اکٹھے ہو کر باب الملک فہد کے راستے مسجد الحرام سے باہر نکل کر شاہراہ ابراہیم خلیل پر اپنے ہوٹل میںچلے جائیں گئے۔ خواتین سے مطمئن ہو کر ہم مروہ کی بلندی سے باہر بائیں ہاتھ مسجد الحرام کے گیٹ (غالباً گیٹ نمبر 25) سے باہر آ گئے۔ آگے چلے تو ایسے حضرات ملے جو احرام باندھے حضرات کو بال منڈوانے کی ترغیب دے رہے تھے۔ واجد کا ایک ایسے ہی شخص سے رابطہ ہوا۔ وہ آگے آگے اور ہم تینوں اس کے پیچھے چلے جا رہے تھے۔ بائیں ہاتھ آگے بڑھے تو یہ حرم شریف کی مشرقی اور کچھ کچھ شمالی سمت بنتی ہے۔ ہمیں یہاں سے گزر کر شمالی سمت میں دور فاصلے پر بنی ہوئی عمارات کی طرف جانا تھا۔ یہاں درمیان میں پختہ، کشادہ خالی میدان سے گزرتے ہوئے مجھے یاد آ رہا تھا کہ حرم شریف کے باہر اس شمال مشرقی حصے میں بہت ساری پختہ عمارات ہوا کرتی تھیں جن میں ایک لائبریری کی عمارت بھی تھی جس پر سبز رنگ کا بورڈ لگا ہوا تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں نبی پاکﷺ کی رہائش تھی۔ ادھر ہی پاکستان ہائوس کی عمارت بھی ہوا کرتی تھی جو اب کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس پختہ کھلے اور کشادہ احاطے کے پیچھے مکہ مکرمہ کا مشہور پہاڑ جبلِ بو قبیس کھڑا نظر آتا ہے اور سرے پر اس کے بائیں کونے میں منیٰ کو آنے جانے والی سرنگیں بنی ہوئی ہیں۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.