اگر پاکستان بچانا ہے؟

83

کچھ دن پہلے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی ایک ویڈیو نظر سے گزری۔ ویڈیو میں وہ ایک کمرے میں موجود ارب پتی فیکٹری مالکان سے بند فیکٹری دوبارہ چلانے کی نئی شرائط کے کاغذات پر دستخط کرا رہے ہیں۔ پیوٹن روسی سرمایہ دار جنھیں اولیگاگ کہا جاتا ہے کو واضح طور پرکہہ رہے ہیں کہ تم لوگوں کی پیسہ کمانے کی ہوس، نالائقی اور لالچ نے ملک کو اس مقام تک پہنچا دیا۔ تم لوگوں کے پاس دوہی راستے ہیں یا تو ان معاہدوں پر دستخط کر کے ذمہ دار شہری کے طور کام کرو یا پھر ہم یہ فیکٹریاں تمہارے بغیر بھی چلا سکتے ہیں۔اس کے بعد قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔ اس کے بعد ان تمام اولیگاگ کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ فیکٹریاں حکومتی شرائط پر دوبارہ چلائیں۔یہ ہوتا ہے ملک چلانے کا طریقہ۔ کوئی تاجر لیڈرہو یا سیاسی لیڈر،ہمیں اگر اس ملک کو بچانا ہے تو ان کے سامنے دو راستے رکھنا ہو ں گے۔یا تو یہ لوگ اس ملک میں کاروبار اور سیاست کریں یا پھر قانون اپنا راستہ بنائے۔ لیکن یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ میرے ایک دوست جو کہ ایک تاجر تنظیم کے سربراہ ہیں۔ یہ تنظیم باقاعدہ ٹیکس دینے والوں میں سے شامل ہے۔ میرے یہ دوست بغرض تجارت پوری دنیا میں سفر کرتے ہیں۔ یورپ، امریکا، ترکی اور چین ہر سال کم از کم ایک مرتبہ ضرور جاتے ہیں۔ جب ملیں توایک یہ جملہ ضرور کہتے ہیں کہ پاکستان کاروبار کرنے والوں کے لئے جنت ہے۔ یہاں جو چاہے ٹیکس دے اور جتنا مرضی دے یا چاہے توبالکل ٹیکس نہ دے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پاکستان میں جو ٹیکس دیتا ہے وہ باقاعدہ احسان جتاتا ہے کہ وہ ٹیکس دیتا ہے۔ بلکہ ساتھ ہی پچھتاوے کا اظہار بھی کرتا ہے کہ ٹیکس رجسٹرڈ ہو کر غلطی کر لی ہے۔ اب ٹیکس نہ دینے والوں کا ٹیکس بھی ہم سے وصول کیا جاتا ہے۔ اس میں سب سے بڑاقصور ہمارے اداروں کا ہے جو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے ڈیل کر لیتے ہیں۔ ایک تاجراگرپانچ کروڑکاٹیکس دہندہ ہے تواسکے ساتھ پچاس لاکھ کی رشوت ڈیل بنا کرقومی خزانے کو پانچ کروڑ سے محروم کر دیتے ہیں۔ ایسی ہزاروں وارداتیں ملکی خزانے کے ساتھ ہرماہ ہوتی ہیں۔ ٹیکس دینے والا تاجر اور لینے والا افسر مک مکا کر کے خود توامیر ہو رہے ہیں لیکن ملکی خزانے کو غریب رکھا ہوا ہے۔ جب تک ان دونوں لوٹنے والوں کو پکڑ ان سے آہنی ہاتھوں سے نہیں نمٹا جائے گا، یہ ملک بچ سکتا ہے اور نہ ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے ریٹیلرز اورہول سیلرز کے لئے تاجردوست سکیم لانچ کی ہے۔ حکومت کا ہدف تھا کہ وہ ملک میں موجود تیس لاکھ تاجروں کورجسٹر کر کے ان سے کم ازکم ٹیکس کی مد میں چارسوساٹھ ارب جمع کرلے گی۔ لیکن تقریباً چھ ماہ گزرجانے کے باجودو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیالیس شہروں سے صرف چونسٹھ ہزار تاجر رجسٹر ہوسکے ہیں۔ جن میں سے دو سو سات تاجروں نے پچاس لاکھ کے لگ بھگ ٹیکس دیاہے۔ کیا ایسے چار سو ساٹھ ارب اکٹھے ہوں گے؟ میں خود کئی ایسے تاجروں کو جانتاہوں جنھوں نے خود رجسٹر ہونے کے بجائے اپنے ملازمین کے شناختی کارڈجمع کرائے ہیں۔ یہ تاجر اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سکیم کامیاب بنانے کے لئے نہیں بنائی گئی۔ اس لئے اب ہڑتالوں پر اتر آئے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق یہ سکیم لانچ کرتے ہوئے ایک بہت بڑے افسر سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ کو یقین ہے کہ یہ سکیم کامیاب ہو گی تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہم نے تو یہ سکیم آئی ایم ایف کو دکھانے کے لئے بنائی ہے تاکہ قرض مل سکے۔ جب نیت اور ارادے ہی ایسے ہوں تو ملک کیسے ترقی کرے گا۔ حکومت بھی جانتی ہے کہ یہ بیورو کریسی کوئی سکیم اور پالیسی اس لئے نہیں بناتی کہ اس سے ملکی خزانے کی صورتحال بہتر ہو۔ بلکہ حکمرانوں کو ڈرا کر ایسے قوانین بنوائے جاتے ہیں جس سے رشوت کا ریٹ بڑھ سکے۔ اس بار حکومت نے ٹیکس قوانین میں تبدیلی کر کے ٹیکس چوری اور ہیرا پھیری کرنے والوں کے لئے جرمانے کے ساتھ پانچ سے دس سال قید کی سزائیں بھی رکھی ہیں۔ لیکن پچھلے تین ماہ میں ایک بھی کیس یا سزا نہیں ہوئی۔ کیا اس ملک میں سب ایماندار ہوگئے ہیں؟ سب لوگ پورا ٹیکس دینے لگ گئے ہیں؟ البتہ رشوت کا ریٹ بڑھ گیا ہے۔ اسی لئے پہلے کوارٹرمیں ٹیکسز کا شارٹ فال اٹھانوے ارب روپے ہے۔ اس پر بری خبر یہ کہ اس برس کپیسٹی پے منٹ میں ایک ہزار ارب کا اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان میں اسی فیصد سے زائد پاور پروڈیوسرز پاکستانی کمپنیاں ہیں جس میں خود واپڈا بھی شامل ہے۔ یہ لوگ کپیسٹی پیمنٹ جیسے ظالمانہ حربے کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کا خون چوس رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں نے غریب کے منہ سے لقمہ اور اس کے بچوں سے کتابیں چھین لی ہیں۔ لیکن وہ پھر بھی نہ پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت بھاری ٹیکسوں کے ساتھ چکا رہے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس حکومت کی ایسی کیا مجبوریاں ہیں کہ وہ مقامی پاور پروڈیوسرز سے از سر نو معاہدے کرنے سے ڈرتی ہے۔ پاکستان میں ہر دوسرا شخص لیڈر بننا چاہتا ہے۔ یہاں کسی ایک کی حکومت بن جائے تودوسرا ڈھول لے کر سڑکوں پر آ جاتا ہے۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کا راگ الاپنا شروع کر دیتاہے۔ جب اقتدارمیں ہوں تو سب کچھ بھول جاتے ہیںاور مافیاز کے ساتھ کمپرومائزکرلیتے ہیں۔ خدار اس ملک کے عوام کو نعرے باز لیڈر نہیں ایک سچے رہنما کی ضرورت ہے۔ نظام بے شک پارلیمان کی جگہ صدارتی لے آئیں۔ لیکن ایسانظام ہوجو پاکستان کو لوٹنے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکے۔ جو ان کے سامنے فائل رکھے اور بولے کہ تمہارے سامنے دو راستے ہیں۔ اس ملک کو لوٹنا بند کرویا پھر اپنے عبرتناک انجام کے لئے تیار ہو جاؤ۔ عوام کو بڑھکیں مارنے والے سیاسی لیڈر کی نہیں بلکہ پیوٹن جیسے ایک جرأت مند حکمران کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں.