پی ٹی آئی کا جلسہ

31

38یا41شرائط کے ساتھ تحریک انصاف کو جلسہ کی اجازت دی گئی اور پھر جلسہ سے عین پہلے صدرر مملکت کی جانب سے اسلام آباد میں جلسے جلوس اور ریلیوں کے متعلق ایک مسودے پر دستخط کر کے اسے قانون کا حصہ بنا دیا ۔ جلسے میں تقاریر کے دوران خاص طور پر علی امین گنڈا پور نے جس طرح دھمکی آمیز لہجہ استعمال کیا اور پندرہ دن میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی تاریخ دی تو یہ سب کچھ اگر نہ ہوتا تو بہتر تھا اور پھر اس کے نتائج بھی نکلنا شروع ہو گئے کہ بیرسٹر گوہر ، شیر افضل مروت اور شعیب شاہین سمیت کئی رہنما گرفتار ہو چکے ہیں ۔ یہ سب تو پاکستانی سیاست کا حصہ ہے لیکن اس رجحان کا بڑھنا کسی طور پاکستانی سیاست کے لئے مثبت قدم نہیں ہے لیکن جس پر خاص طور پر بات کرنے کی ضرورت ہے وہ اس جلسہ سے دو تین دن پہلے اسرائیلی اخبار میں خان صاحب کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اسرائیل اور پاکستان دوستی کے لئے ایک موزوں شخص ہیں اور انھوں نے گولڈ اسمتھ خاندان کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ پیغام رسانی بھی کی ہے ۔ اس پر حکومتی بنچوں کی جانب سے بڑا شور اٹھا اور پھر بات ہی ایسی تھی کہ شور اٹھنا بنتا بھی تھا اور آج کی تحریر کا اصل مقصد تحریک انصاف کے جلسے سے زیادہ اسی بات پر کچھ عرض کرنا مقصود ہے ۔ تمام سیاسی پنڈتوں کی رائے میں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں1970کی اسمبلی سے بہتر کوئی اور اسمبلی نہیں تھی کہ اس میں کوئی بھی سیاسی جماعت ہو لیکن کیابلند پایہ شخصیات تھیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو ، مفتی محمود ، شاہ احمد نورانی ، عبد الولی خان ، پروفیسر غفور احمد ، پیر صاحب پگاڑہ ، نواب زادہ نصر اللہ خان ، عبد الحفیظ پیر زادہ ۔ بہت سے نام ہیں ایک طویل فہرست بن جائے گی لیکن اس دور میں صرف سیاسی قیادت ہی اعلیٰ پایہ کی نہیں تھی بلکہ عوام بھی نظریاتی سیاست کے قائل تھے ۔ جس طرح اب اسرائیل کے اخبار میں عمران خان کے متعلق جو کچھ شائع ہوا اور پاکستان میں وہ رپورٹ بھی ہوا تو اگر اس دور میں پاکستان کی کسی سیاسی شخصیت اور خاص طور پر عمران خان جیسی بڑی سیاسی شخصیت کہ جو ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد بھی ہیں ان کے متعلق ایسا مواد شائع ہوا ہوتا تو اس کا سیاسی کیریئر ختم نہیں تو دائو پر ضرور لگ گیا ہوتا لیکن جس طرح آج کی سیاسی قیادت کا اس دور کی سیاسی قیادت سے کوئی مقابلہ نہیں اسی طرح آج کے سیاسی کارکن اور عوام کا بھی اس دور کی غیر تعلیم یافتہ لیکن سیاسی شعور سے مالا مال عوام اور سیاسی کارکنوں سے دور دور تک کوئی مقابلہ نہیں ۔آج کے دور کے اندر ہر جماعت کا ایک فین کلب ہے جس کا کسی نظریات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا بلکہ انھوں نے ہر حالت میں اپنی قیادت کا دفاع کرنا ہوتا ہے چاہے وہ سیاسی یا ملکی سلامتی حتیٰ کہ مذہبی حوالے سے بھی دین اسلام کی حدود سے باہر نکل کر کفر کے دائرے میں داخل ہو جائیں لیکن ہر جماعت کا فین کلب اپنی اپنی قیادت کا دفاع کرے گا ۔ یہ بات اس لئے کرنا پڑ گئی کہ اگر کوئی یہ سمجھتا تھا کہ اس طرح کی خبر کے بعد جلسے پر کوئی اثر پڑے گا تو وہ غلط تھا ۔

اب بات کرتے ہیںکہ جلسے کی کیا صورت حال تھی ۔ جس طرح کی خبریں جلسے کے دوران الیکٹرانک میڈیا پر آتی رہیں اس سے ایک بات تو طے ہے کہ خان صاحب کے سہولت کار اب بھی موجود ہیں ۔ اندازہ کریں کہ چونگی نمبر26پر تحریک انصاف کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھگڑا ہوتا ہے اور یہ بات ذہن میں رہے کہ جس جگہ یہ سب ہو رہا ہے وہاں سے سنگجانی جلسے کا مقام کم و بیش12کلو میٹر دور ہے لیکن میڈیا میں اس کے ساتھ ساتھ واضح طور پر کہا جا رہا تھا کہ جلسے کا وقت ختم ہونے کے بعد پولیس نے جلسہ گاہ خالی کرانے کے لئے جلسہ گاہ کے اطراف میں شیلنگ شروع کر دی ۔ اس خبر میں اگر رتی بھر بھی سچائی ہے تو پھر مان لیں کہ انتظامیہ میں بھی عمران خان کے سہولت کار موجود ہیں اس لئے کہ جلسے میں عوام کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی کہ جسے انتہائی متاثر کن کہا جا سکے لہٰذا اگر اس طرح کی خبروں یا اگر ان میں سچائی ہے تو یہ حالات نہ ہوتے تو در حقیقت تحریک انصاف کے بلند بانگ دعوئوں نے بے نقاب ہونا تھا کہ جناب ایک پورے صوبے سے علی امین گنڈا پور تمام سرکاری وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اور تمام سرکاری اداروں کی مددکے ساتھ بھی بہت زیادہ عوام کو اپنے ساتھ لانے میں ناکام رہے تو اگر پر سکون ماحول ہوتا اور میڈیا پر جلسے کی کوریج ہو رہی ہوتی تو کسی نے اگر بے نقاب ہونا تھا تو وہ تحریک انصاف کی مقبولیت تھی جسے حکومت کی انتہائی ناقص حکمت عملی نے یا میڈیا اور انتظامیہ میں عمران خان کے جو سہولت کار ہیں انھوں نے اپنی چال بازیوں سے ناکام بنا دیا ۔
جب سے الیکٹرانک میڈیا کا وجود عمل میں آیا ہے اس وقت سے جلسے میں لوگوں کی تعداد کے حوالے سے بڑی بات ہوتی ہے ۔ اب اس پر کیا بات کریں کہ جب ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز رہنے والے شخص کو معذرت کے بعد اپنی پوسٹ کو واپس لینا پڑا۔نئے دور کی سیاست کی ایک اور خرابی کہ جو بھی جلسہ ہونا ہے اسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ قرار د یا جاتاہے اور تعداد بھی ملین سے کم نہیں ہوتی اور افسوس تو نوجوان نسل پر ہے کہ اگر وہ گوگل پر سرچ کر لے تو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی اجتماع 1986میں محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے استقبال پر تین ملین یعنی تیس لاکھ کا مجمع تھا ۔ باقی اگر کوئی دس ہزار کے مجمع کو بھی دس لاکھ کہہ کر اپنے دل کا رانجھا راضی کرتا ہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں ہے اسے خوش ہو نے دیجیے بس یہ دیکھ لیا کریں کہ1986میں پاکستان کی آبادی کتنی تھی اور اب کتنی ہے اور اس وقت عوام کے لئے کرسیاں بھی نہیں ہوتی تھیں تو آپ کی سمجھ میں آ جائے گا کہ آج کے سیاسی اجتماعات بڑے ہیں یا اس دور کے بڑے تھے ۔

تبصرے بند ہیں.