تعصب کی دیواریں، اخلاقی و فکری زوال کی داستان

50

گلگت بلتستان کیوں آئے؟ یہ سوال خود میں تعصب اور تنگ نظری کی ایک جھلک رکھتا ہے، جو ہمارے معاشرتی بگاڑ اور اخلاقی زوال کی گہری عکاسی کرتا ہے۔ یہ وہی معاشرہ ہے جو کبھی مہمان نوازی کا علمبردار تھا، جس کے آبا و اجداد نے دشمنوں تک کو اپنے دروازے پر آنے پر معاف کر دیا۔ آج ہم اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کرنے لگے ہیں۔ یہ تغیر کب اور کیسے آیا؟ یہ سوال ہمیں اپنے ماضی اور اسلاف کی روایات کی طرف پلٹنے پر مجبور کرتا ہے۔
گلگت بلتستان کے نوجوان آج جس بے یقینی کے عالم میں جی رہے ہیں، وہ ان کے ذہنی و معاشرتی دباؤ کا عکاس ہے۔ وہ نہ صرف اپنے مستقبل سے ناواقف ہیں بلکہ ان کے لیے مہمان بھی بوجھ محسوس ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے مستقبل کی تعمیر خود کریں اور دوسروں کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار نہ ٹھہرائیں۔ معاشرتی ترقی کا انحصار کسی وفاقی وزیر یا سیاسی جماعت پر نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی شعور پر ہے۔
ہمارے آبا و اجداد نے پاکستان کے ساتھ الحاق اس نیت سے نہیں کیا تھا کہ ان کی نسلیں تعصب اور بغض کے حصار میں جکڑی جائیں۔ یہ غیر ذمہ دارانہ رویے کہاں سے آئے؟ اس کا جواب ہمیں اپنی فکری زوال میں ڈھونڈنا ہوگا۔ یہ رویہ ہمیں اْس وقت زیادہ محسوس ہوا جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک کم عمر رکن اسمبلی نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور یہاں کے نوجوانوں کو آئینی حقوق کی فراہمی کے بارے میں بات کی۔ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف نازیبا جملے اور طوفان بدتمیزی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، حالانکہ وہ بھی اس خطے کے دیرینہ مسائل سے بخوبی واقف نہ تھا۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت محض وفاقی سطح کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو کشمیر تنازعے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق، گلگت بلتستان جموں و کشمیر کا حصہ ہے، اور اس کی متنازع حیثیت عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ اگر پاکستان اس علاقے کو مکمل آئینی صوبہ بناتا ہے تو اس سے نہ صرف پاکستان کی بین الاقوامی پوزیشن کمزور ہوگی، بلکہ بھارت اس کو اپنے موقف کے حق میں استعمال کرے گا۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ ہر وقت گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کو لیکر غلط بیانی کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان نظریاتی پارٹی کے چیئرمین شہیر حیدر سیالوی کا گلگت بلتستان کا دورہ بھی اسی رویے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ انہیں سوشل میڈیا پر بے جا تنقید اور گالم گلوچ کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ کیا گلگت بلتستان آپ کی جاگیر ہے؟ کیا یہاں کے نوجوانوں کا حق نہیں کہ وہ سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیں؟ کیا دوسرے علاقوں کے لوگ اس خطے میں نہیں آ سکتے؟
یہ سوچ نہ تو جمہوریت کی عکاسی کرتی ہے اور نہ ہی اس خطے کی ترقی میں معاون ہے۔ اگر ہم آج کسی کو یہ سوال کرتے ہیں کہ "آپ گلگت بلتستان کیوں آئے؟” تو کل ہمیں یہ سوال اسلام آباد یا لاہور میں بھی سننے کو مل سکتا ہے۔ کیا ہمارے پاس اس کا کوئی معقول جواب ہوگا؟یہ وقت ہے کہ ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور تعصب، قومیت اور بغض سے باہر نکل کر اس خطے کی ترقی کے بارے میں سوچیں۔ گلگت بلتستان کی حقیقی ترقی اْس وقت ممکن ہوگی جب یہاں کے نوجوان اپنے اخلاق اور رویوں میں تبدیلی لائیں گے، اور اپنے بزرگوں کی روایات کو اپنائیں گے، جنہوں نے ہمیشہ مہمانوں کو عزت و احترام دیا۔
ہمیں اپنے رویوں کو وسعت دینا ہو گی تاکہ یہ خطہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک مثبت شناخت قائم کرے۔ جب تک ہم اپنے اندرونی مسائل کو حل نہیں کریں گے، یہ خطہ ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہو سکے گا۔ خدا ہمیں حقائق کی پہچان اور درست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہمیں اپنے اسلاف کے اصولوں کی روشنی میں اپنی نئی نسل کو درست راہ دکھانا ہوگی تاکہ وہ اخلاقی اور فکری طور پر مضبوط ہوں۔ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے، نہ کہ اس پر جذباتی اور غیر ذمہ دارانہ ردعمل دینے کی۔یاد رکھیں، ہمارا رویہ ہی ہمارے مستقبل کا آئینہ ہے، اور ہمیں اسے سنوارنے کی اشد ضرورت ہے۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

تبصرے بند ہیں.