آئین اور قانون میں ترامیم

80

حکومت آئین اور قانون دونوں میں ترامیم کرنا چاہتی ہے لیکن مجبوری ہے کہ دو تہائی اکثریت کے حصول تک قوانین میں ترمیم کر کے اپنا شوق پورا کر رہی ہے ۔ابھی تک ان ترامیم کا محور و مرکز اعلیٰ عدلیہ ہی نظر آتا ہے ۔ سپریم کورٹ میں اگر ججز کی تعداد 21کر دی جاتی ہے تو سپریم کورٹ میں جس قدر مقدمات کا بوجھ ہے تو اس کے لئے یہ اچھی بات ہے لیکن اگر فرض کر لیں کہ مقدمات کی تعداد نہ بھی ہو تو پھر بھی عوام کو عدل و انصاف کی فراہمی کے لئے اسے اچھا اقدام ہی تصور کیا جائے گا اور ہر طرح سے اور ہر قسم کے دلائل کو ضرب تقسیم دے کر بھی دیکھ لیں تو یہ ترمیم کسی بھی طرح عدلیہ کی آزادی میں تو مداخلت نہیں ہے ۔ اب بات کرتے ہیں دوسری ترمیم کی کہ جس کابڑاچرچا ہے کہ حکومت ججز کی عمر میں تین سال کا اضافہ کرنے جا رہی ہے جس سے اس کا مقصد موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مزید تین سال تک چیف جسٹس رکھنا ہے ۔ اول تو وفاقی وزیر قانون ایک سے زائد مرتبہ پارلیمنٹ میں اس بات کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ چیف جسٹس کو مدت ملازمت میں توسیع سے کوئی دلچسپی نہیںاور نہ وہ لینا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی بات پر یقین کر لینا چاہئے لیکن ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ حکومت کے پاس چونکہ دو تہائی اکثریت نہیں ہے تو وہ مطلوبہ اکثریت کے حصول تک اپنے پتے چھپا کر رکھنا چاہتی ہے اور جیسے ہی پارلیمنٹ میں اس کے پاس نمبر پورے ہوں گے تو وہ اپنی مرضی کی ترامیم کر دے گی ۔ ہر حکومت اپنے مطلب کی ترامیم کرتی ہے اور جو اس کے مفاد میں ہوتا ہے وہ کرتی ہے بالکل ایسے ہی کہ جیسے تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے دور میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع دی تھی اور اس پر پھر جب سپریم کورٹ نے آئین میں ترمیم کا کہا تو حکومت اور حزب اختلاف نے مل کر اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا تو اگر افواج پاکستان کے سربراہ کو مدت ملازمت میں توسیع دینا افواج پاکستان کے معاملات میں مداخلت نہیں تھی تو حکومت اگر ججز کی عمر میں اضافہ کرتی ہے اور پھر کسی ایک جج کی عمر میں نہیں بلکہ تمام ججز اس سے مستفید ہوں گے تو اسے اعلیٰ عدلیہ میں مداخلت یا اس پر حملہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔

اب تھوڑی دیر کے لئے اس ساری صورت حال سے ہٹ کر ایک اور منظر نامہ پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا گذشتہ برسوں کے دوران اعلیٰ عدلیہ میں خود ججز کا جو رویہ تھا کیا وہ عدلیہ کی عزت میں چار چاند لگا رہا تھا یا در حقیقت عدلیہ کے وقار میں کمی کا باعث بن رہا تھا ۔ جنرل مشرف ڈکٹیٹر تھا اور اس ڈکٹیٹر کو آئین میں ترمیم کا حق بھی اسی عدلیہ نے دیاتھا اور جب اس نے دیکھا کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری ان کی مرضی کے مطابق فیصلے نہیں کر رہے تو انھوں نے انھیںان کے عہدے سے ہٹا دیا جس کے بعد ایک زبردست قسم کی عدلیہ بحالی تحریک چلی جس میں اعتزاز احسن صاحب بڑے جوش سے نعرہ لگایا کرتے تھے کہ’’ریاست ہو گی ماں کے جیسی ‘‘ ۔

ریاست تو ماں کے جیسی نہیں ہو سکی بلکہ افتخار چودھری جو ہمارے خیال میں پہلے چیف جسٹس تھے جو عوام کی حمایت سے دوبارہ اپنے منصب پر فائز ہوئے تھے وہ اگر چاہتے تو عدلیہ کے ماضی کے تمام داغ دھو کر نا صرف یہ کہ عوام کے سامنے سرخرو ہو سکتے تھے بلکہ تاریخ میں بھی اپنانام لکھوا سکتے تھے لیکن انھوں نے سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک کو عدالت کے بجائے سیاست کا اکھاڑا بنا کر رکھ دیا اور پہلی مرتبہ ایک منتخب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن سے بالا بالا عدالت کے ذریعے گھر بھیجنے کی غلط روایت کا آغاز کیا۔ افتخار چوہدری نے جس جوڈیشل ایکٹو ازم کا آغاز کیا تھا آنے والے ان کے جانشینوں نے بھی ان کے قدموں پر قدم رکھتے ہوئے اسے جاری بھی رکھا اور اسے مزید تقویت بھی بخشی ۔ ثاقب نثار صاحب نے میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے صرف نا اہل ہی نہیں کیا بلکہ تا حیات نا اہل کر کے اس کے ساتھ دس سال قید کی سزا بھی سنائی اور اپنے تئیں انھوں نے میاں صاحب کا پوری طرح مکو ٹھپ دیا تھا لیکن آج میاں صاحب تمام مقدمات سے بری ہو کر منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں اور اگر وہ چاہتے تو میاں شہباز شریف کی جگہ خود وزیر اعظم بن سکتے تھے کہ ان کی نا اہلیت بھی ختم ہو چکی ہے لیکن آج کسی کو نہیں پتا کہ ثاقب نثار کہاں ہیں اور افتخار چوہدری کہاں ہیں دونوں گمنامی کی نذر ہو چکے ہیں ۔ اس کے بعد بھی یہ تسلسل قائم رہا اور نوبت ’’ گڈ ٹو سی ‘‘ تک پہنچ گئی اور نیب کو باقاعدہ حکم دیا گیا کہ عمران خان کو نیب کے ریسٹ ہائوس میں رکھا جائے اور خان صاحب کو کہا گیا کہ آپ اپنے دوستوںکے ساتھ گپ شپ کریں۔

جب ایک جانب یہ رویے ہوں گے تو پھر دوسری جانب حکومت ہاتھ باندھ کر نہیں بیٹھے گی بلکہ اس کے بس میں جو کچھ ہو گا وہ بھی کرے گی ۔ اب اسے عدلیہ میںمداخلت کہہ لیں یا کچھ اور اپنی مرضی کا جو چاہے نام دے دیں ۔ ایک جانب تو جنرل فیض کی گرفتاری سے چند دن پہلے تک یہ حال تھا کہ عمران خان دو ماہ میں اس حکومت کا دھڑن تختہ کر رہے تھے اور تحریک انصاف کے ہی ایک اور رہنما دسمبر میں عمران خان کو ملک کا وزیر اعظم بنوا رہے تھے تو کوئی اتنا بھی عقل کا اندھا نہیں ہوتاانھیں بھی پتا تھا کہ یہ سب کس طرح ممکن ہو سکتا ہے تو اگر دو منتخب وزرائے اعظم کو اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے گھر بھیجنا عدلیہ کے وقار کو ٹھیس نہیں پہنچا سکا ۔ اگر آئین کے آرٹیکل 61اور62کی تشریح کے نام پر نیا آئین لکھنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا اور اس طرح کے فیصلے بھی عدلیہ کے وقار پر اثر انداز نہیں ہوتے تو آئین میں ترمیم کرنا تو پارلیمنٹ کا آئینی حق ہے اس سے عدلیہ میں مداخلت یا عدلیہ کے وقار پر ٹھیس کیسے پہنچ سکتی ہے ۔

تبصرے بند ہیں.