یوں تو جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تب سے اب تک اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہر قسم کے حالات میں فتح و نصرت پاکستان کے حق میں آئی ہے۔ کٹھن سے کٹھن حالات کا بھی اس قوم نے مقابلہ کیا ہے۔ مگر 6 ستمبر کا دن پاکستانی قوم کے لیے ایک قابلِ فخر قومی دن ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس بھارت کے مقابلے میں وسائل نہ ہونے کے باوجود مضبوط دشمن کے مقابلے میں پاکستان نے صرف اتحاد و یکجہتی اور اللہ پر توکل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا۔ چھ ستمبر سے پہلے ہونے والے معاملات کی وجہ سے پاکستانی فوج کو الرٹ کر دیا گیا۔ لہذا چھ ستمبر کو اندھیرے میں جب بھارتی فوج نے حملہ کیا تو آناً فاناً پوری قوم، فوجی جوان و افسر، سرکاری ملازمین، گلو کار و شاعر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ فوری جاگ کر اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے لگے۔ اس وقت کے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ولولہ انگیز ریڈیو خطاب کی وجہ سے ملک اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ صدر ایوب خان کے اس جملے کہ ”پاکستانیو! اٹھو لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اور دشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ نے پوری قوم میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کرتے ہوئے نئے ہمت و حوصلہ سے نوازا۔ پاک فوج نے ہر محاذ پر دشمن کی جارحیت اور پیش قدمی کو حب الوطنی کے جذبے اور پیشہ ورانہ مہارتوں سے نہ صرف روکا بلکہ انہیں پسپا بھی کر دیا۔ بعد میں ملنے والی اطلاعات کے مطابق بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف کی لاہور کے جم خانہ میں شام کو محفل سجانے کا خواب میجر عزیز بھٹی شہید جیسے سپوت نے بی ار بی نہر پر جاری محاذ میں توپ کا گولا اپنے سینے پر کھا کر چکنا چور کر دیا۔ ضلع سیالکوٹ میں موجود چونڈہ سیکٹر پر جب بھارت نے طاقت کے نشے میں بھاری تعداد میں ٹینکوں سے حملہ کر دیا تو چونڈا سیکٹر کو پاکستانی فوج کے جوانوں نے اسلحہ و بارود کے بجائے اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر نہ صرف ناکام بنایا بلکہ چونڈہ کا محاذ بھارتی فوج کا قبرستان ثابت ہوا۔ بھارتی فوج کے ٹینک اپنی ہی فوج کو کچلتے ہوئے واپس بھارت کی جانب دوڑنے لگے۔ پاکستان کے محدود عسکری وسائل کے باوجود بھارت کے اس سطح کے نقصان اور اس کی تباہی کو دیکھ کر بیرونی دنیا بھی افواجِ پاکستان کی تعریف اور حکمت عملی کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکی۔ پاکستانی عوام نے بھی فوج کے شانہ بشانہ دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کیا اور دشمن کو بتا دیا کہ اس قوم کے جذبہ شہادت کا مقابلہ کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ معروف گلوکارہ میڈم نور جہاں کے گائے نغمے ”اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے” ہر زبان پر عام تھے اور انہی نغموں نے فوج اور قوم کے لہو کو خوب گرمایا۔
ستمبر 1965ء میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں پاک آرمی کے علاوہ پاکستان نیوی کی جنگی سرگرمیاں بھی متاثر کن رہیں۔ اعلانِ جنگ ہونے کے ساتھ بحری یونٹس کو متحرک و فنکشنل کر کے اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ کیا گیا۔ پاکستان نیوی نے نہ صرف کراچی بندر گاہ کا دفاع کیا بلکہ ساحلی پٹی پر پٹرولنگ شروع کردی۔ پاکستان کے بحری، تجارتی روٹس کی حفاظت بھی پاک بحریہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، اس لیے سمندری تجارت کو بحال رکھنے کے لیے گہرے سمندروں میں بھی یونٹس بھجوائے گئے۔ یہ امر تسلی بخش ہے کہ پوری جنگ کے دوران پاکستان کا سامانِ تجارت لانے اور لے جانے والے بحری جہاز بلا روک ٹوک اپنا سفر کرتے رہے۔ پاکستان نیوی کی کامیابی اور فخر کی داستان میں بھارت کے تجارتی جہاز سرسوتی اور دیگر کا کافی عرصہ تک پاکستان میں زیر حراست و زیر تحویل کراچی کی بندرگاہ میں رہنا شامل ہے۔ 7 ستمبر کا دن پاکستان کی فتح اور کامیابیوں کا دن تھا۔ پاکستان نیوی کا بحری بیڑا، جس میں پاکستان کی واحد آبدوز پی این ایس غازی بھی شامل تھی، بھارت کے ساحلی مستقر دوارکا قلعہ پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئی۔ دوارکا قلعہ پر نصب ریڈار پاک فضائیہ کے آپریشنز میں ایک بڑی رکاوٹ تھا کیونکہ وہ اونچائی پر نصب ہونے کی وجہ سے طیاروں کو ڈیٹیکٹ کر لیتی تھی۔ مذکورہ فلیٹ صرف 20 منٹ تک اس دوارکا پر حملہ آور رہا۔ توپوں کے دھانے کھلے اور چند منٹ میں دوارکا تباہ ہو چکا تھا۔ پی این ایس غازی کا خوف بھارت کی نیوی پر اس طرح غالب تھا کہ بھارتی فلیٹ بندرگاہ سے باہر آنے کی جرأت نہ کر سکا۔ بھارتی جہاز کو پاکستانی بیڑے کا سراغ لگانے کے لیے بھیجا گیا مگر وہ بھی غازی کے خوف سے کسی اور طرف نکل گیا۔بعدازاں پاکستان نیوی کا مشن غازی بھی انتہائی مقبول ہوا جس کی وجہ سے انڈیا کی آبدوز کو پاکستانی پانیوں میں سگنل کی مدد سے تلاش کر کے تباہ کر دیا گیا۔
پاک فضائیہ میں ایئر مارشل اصغر خان اور ایئر مارشل نور خان جیسے قابل فخر سپوتوں اور کمانڈروں کی جنگی حکمت عملی کے مطابق پاک فضائیہ نے اپنے دشمن کے خلاف ہوا بازوں کو تیار کر رکھا تھا جیسا کہ مسلمانوں کو دشمن کے خلاف گھوڑے ہر وقت تیار رکھنے کا حکم ہے۔ ہمارے ہوا باز 7 ستمبر کو اپنے اپنے مجوزہ ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دشمن پر جھپٹ پڑے۔ ایک طرف سکوارڈرن لیڈر ایم ایم عالم جیسے سپوت نے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ جہازوں کو مار گرایا اور عالمی ریکارڈ قائم کر دیا جس کو آج تک کوئی بھی ہواباز نہیں توڑ سکا تو دوسری طرف سکوارڈرن لیڈر سر فراز رفیقی اور سکوارڈرن لیڈر منیر الدین اور علا الدین جیسے شہیدوں نے اپنی جانوں کو راہ حق میں قربان کرتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ وطن کی حفاظت کی خاطر ان کی جانوں کا نذرانہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ پاکستان کے غازی اور مجاہد ہوا بازوں نے بھارت کے جنگی ہوائی اڈوں کو مفلوج کر دیا۔
اگر 1965 کی جنگ کے حالات کا مطالعہ کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ کس طرح پاکستان نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو آلات حرب اور افرادی قوت کی برتری کے باوجود بچھاڑ دیا اور بلا شبہ یہ سب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بتائے گئے اصول (ایمان، اتحاد، تنظیم) پر عمل کرنے سے حاصل ہوا۔ اگر جنگی حالات کا جائزہ لیں تو پاکستانی قوم نے جذبہ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں منظم ہو کر اتحاد کے ساتھ لڑتے ہوئے اس کامیابی کو حاصل کیا تو یہ اصول ہر لحاظ سے اس جنگ میں کار فرما رہے جن کا ذکر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے آزادی کے وقت کیا تھا۔ پاکستانی قوم کی طرف سے ملی یکجہتی، نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر متحد ہو کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا بے مثال عملی مظاہرہ ہر طرح کے فرق اور اختلافات کو پس پشت ڈالنے کا عملی مظاہرہ تھا۔ آج کے دور میں بھی ہمارے ہم وطنوں کو آپس میں اتحاد اور حب وطنی کے جذبہ کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک کو ہر قسم کے بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔
تبصرے بند ہیں.