’’نیب‘‘پگڑیاں اچھالنا بند کرے

60

’’پگ ‘‘پنجاب کی ثقافت کا اہم حصہ ہے جس کی عزت توقیرہمیشہ مقدم سمجھی جاتی تھی اور ہے بھی ،میلوں ٹھیلوں کے موقع پر کلہ نما پگ توجہ کا مرکز ہوتی تھی کلف لگی پگ معتبرشخصیت کی عکاسی بھی کرتی تھی ’’پرے’’پنجائت میں پگ کو خاص اہمیت حاصل تھی کئی بار مخالف کو منانے کیلئے اپنی پگ اتار کر پائوں میں رکھ دی جاتی تھی جیسے ہماری مائیں بہنیں کسی کو کسی کا م سے روکنے یا منانے کیلئے اپنا دوپٹہ اتار کرزمین پر رکھ دیتی تھیں کیونکہ یہ سب کیلئے بڑے عزت کا مقام ہوتا تھاآج جب دولت کی فراوانی ہے بڑے چھوٹے کا مقام نہ ہونے کے برابر ہے ‘آج سب کچھ پیسہ ہی ہے پگ کی عزت وتوقیر ختم ہو کر رہ گئی اور کسی پر الزام لگا کر اس کی عزت ’’مٹی‘‘ میں رولنا معمول کی بات ہے2018 میں نیب نے ایک استادکو غیر قانونی بھرتیوں کے الزام میں گرفتار کیاعدالت پیشی پر لوگوں نے ڈاکٹر مجاہد کامران کیخلاف کرپٹ کرپٹ کے نعرے بھی لگائے یہ بول کر کہ وہ ایک استاد بھی ہیں؟ لیکن جب اپنی عزت شرم حیا نہ ہوتو کسی کی آپ کیا عزت کریں گے گزشتہ دنوں سات سال تک عزت خاک میں ملا کر پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران سمیت دیگر 9 ملزمان کو بری کردیا لاہور کی احتساب عدالت نے نیب لاہور کی درخواست منظور کرتے ہوئے ملزمان کو بری کردیا ہے جبکہ ریفرنس واپس لینے کی درخواست بھی منظور کرلی جس میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی نیب ریفرنس میں نامزد ملزمان کیخلاف کیس کا جائزہ لیا گیا، ملزمان کے خلاف شواہد موجود نہیں ملے واضح رہے کہ نیب کی جانب سے پنجاب یونیورسٹی ریفرنس میں سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر خان راس، دیبا اختر اور ڈاکٹر حسن مبین سمیت دیگر کو نامزد کیا گیا تھا، ملزمان پر یونیورسٹی میں مبینہ بد عنوانیوں کا الزام ہے،اکتوبر 2018 میں پنجاب یونیورسٹی میں مبینہ غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق ریفرنس دائر ہونے کے بعد عدالت میں سابق وائس چانسلر مجاہد کامران سمیت دیگر نامزد اساتذہ کو ہتھکڑی لگا کر احتساب عدالت میں پیش کرنے پر کافی ہنگامے کے بعد اس واقعہ پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس بھی لیا تھا ، نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل سلیم شہزاد نے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران اور دیگر پروفیسرز کو ہتھکڑی لگا کر احتساب عدالت میں پیش کرنے پر سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی تھی،یہ کوئی ایک واقعہ نہیں اس سے قبل بھی نیب نے کئی لوگوں کی پگڑی اچھالی اور پھر جب کیس سے کچھ نہ ملا تو ہاتھ کھینچ لیا اس سے قبل کراچی کی احتساب عدالت میں پی ایس او میں غیرقانونی بھرتیوں کے ریفرنس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت تمام ملزمان بری ہوگئے جس پر شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آج ہمارے لیے خوشی کا دن ہونا چاہیئے، 4 سال 2 ماہ بعد نیب نے کہا ریفرنس واپس لیتے ہیں، جج صاحبہ نے اس کیس میں 4 ملزمان کو بری کردیا، اسی عدالت میں ایک اور صاحب 12 سال سے آرہے ہیں، ہمارا کیس 4 سال 2 ماہ چلا صرف ایک گواہ آیا جو نیب لے کر آیا، اس شخص نے ہمارے خلاف کوئی بات نہیں کی،سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سندھ میں نیب کیس انڈر ٹرائل ہو تو ہائیکورٹ سے ضمانت لینا ہوتی ہے، یہ کرپشن کا کیس نہیں تھا صرف مس یوز آف اتھارٹی کا کیس تھا، سیاسی لوگوں پر مقدمات بنائے جاتے ہیں میں بھی یہ مقدمہ بھگتتا رہا، 4 سال سے زیادہ عرصے تک یہ ریفرنس چلایا جاتا رہا ہے، یہ بھی مہربانی ہے ہمارے نظام کی، پولیٹیکل انجینئرنگ کے لئے اس طرح کے کیسز شروع کیے جاتے ہیں، پاکستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر تمام معاملات کو دیکھنا ضروری ہے، ہم نے آگے کے معاملات کو بہتر کرنے کے لیے پروگرام شروع کیا ہے، جن ممالک کے نظام کو دیکھ کر مثالیں دی جاتی ہیں وہاں تین چار دنوں میں فیصلے ہو جاتے ہیں اوروہاں پراس وقت ملزم کو پکڑا جاتا ہے جب تفتیش مکمل ہوجائے اورملزم کیخلاف ٹھوس ثبوت مل جائیں لیکن پاکستان میں تو الزام لگا کرہی کسی بھی پکڑ کر اس کی تیا پانچا کر دیا جاتا ہے ڈاکٹرمجاہد کامران کو پکڑتے وقت کسی کو شرم نہ آئی اور اب فیصلہ کرتے وقت بھی کہ سات سال کی جگ ہنسائی کا حساب کون دے گا جنہوں نے کیس بنوایا انہیں سامنے لایا جائے، نیب کے کرداروں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے تاکہ عوام کو بھی پتہ چلے کہ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کیلئے کیا کچھ کیا جاتا ہے؟ تاکہ آئندہ کسی کو کسی کی عزت سے کھلواڑکی جرأت نہ ہو لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے، پگڑیاں اچھالنے کی بجائے حقائق سامنے لائے جائیں ، 2012 کا واقعہ ہے جب احمد پور شرقیہ میں ایک ابنارمل شخص کومقدس اوراق جلانے کے جھوٹے الزام کے تحت گرفتار کر کے پولیس سٹیشن لایا گیا اس کے بعدگائوں کی مسجد سے اعلان ہوا کہ اس آدمی نے توہینِ کی ہے اور وہ حوالات میں بند ہے، گاؤں والے مشتعل ہو کر گھروں سے نکل آئے اور حوالات کے دروازے توڑ کر اس شخص کو نکال کے شاہراہ پر لایا گیا اوراس پر پٹرول چھڑک کرآگ لگا دی گئی،دین کا ٹھیکیدارہجوم زندہ جلتے انسان کو کھڑا دیکھتا رہا ،سنگ باری کرنے اورتماشہ دیکھنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کواس نوجوان کی بے گناہی کا علم تھا،اب آگے چلتے ہیں چالیس ہزار لٹر پٹرول لیجاتا ٹرالر الٹ گیا، لوگوں کو اسی مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے لیک ہوتے پٹرول کی نوید سنائی گئی جہاں ابنارمل شخص کے بارے میں توہین کا الزام لگا کر جلا ڈالا تھا ،لوگ اعلان کے بعد بھاگم بھاگ وہاں جاپہنچے، ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا ، آگ نے وہاں موجودہجوم کواپنی لپیٹ میں لے لیا، پورے دو سو افراد اسی جگہ جل کے راکھ ہو گئے جہاں غلام عباس کو زندہ جلایا گیا تھا،اگر یہ اتفاق ہے تو بھی مکافات عمل کی اٹل حقیقت ہے جسے نیب کو حکمرانوں کو سیاستدانوں کو بیوروکریٹس کوجان لینا چاہیے کہ جو لوگ کسی سے برا کرتے ہیں انہیں برے کی ہی امید رکھی چاہیے ڈاکٹر کامران مجاہد کی عزت مٹی میں ملانے والوں کی عزت بھی مٹی میں مل کر رہے گی،نیب کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرلینا چاہیے؟۔

تبصرے بند ہیں.