بلوچستان! تعلیم یافتہ نوجوان دہشتگرد تنظیموں کا نشانہ

87

بلوچستان، جو اپنی تاریخ، ثقافت اور جغرافیائی اہمیت کے لحاظ سے پاکستان کا ایک اہم صوبہ ہے، آج ایک سنگین بحران سے دوچار ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو نشانہ بنا کر انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ یہ صورتِ حال نہ صرف صوبے کے امن و امان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے بھی تشویش کا باعث ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی میں نوجوانوں کا کردار ہمیشہ سے مرکزی رہا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی کسی ملک نے ترقی کی منازل طے کیں، اس کے پیچھے نوجوانوں کی محنت، ذہانت اور قربانی کا بڑا ہاتھ تھا۔ نوجوان کسی بھی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ قوموں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں اور معاشرتی تبدیلیوں کے لیے محرک ثابت ہوتے ہیں۔ اسی لیے دشمن عناصر اور دہشت گرد تنظیمیں اب نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنا رہی ہیں تاکہ انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں، اور اس کے پیچھے دشمن ممالک کی پراسرار سازشیں اور منظم منصوبہ بندی ہے۔ شروع میں دہشت گرد تنظیموں نے مدارس کے غریب طلباء کو اپنے جال میں پھنسایا۔ ان غریب طلباء کو جنت کی جھوٹی امیدیں دلا کر، دہشت گردی کی کارروائیوں میں شامل کیا گیا۔ جب یہ بات سامنے آئی کہ کچھ مدارس کے طلباء دہشت گردی میں ملوث ہیں تو حکومتی اداروں نے ان کی نگرانی بڑھا دی۔ اس کی وجہ سے دہشت گردوں نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی اور اب وہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے نیٹ ورک میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں نے نوجوانوں کے لیے جھوٹے خواب تخلیق کیے ہیں، جن میں بیرون ملک اعلیٰ تعلیم، ملازمت اور نیشنلٹی کے مواقع شامل ہیں۔ ان خوابوں کے پیچھے چھپی حقیقت نہایت خوفناک ہے۔ بلوچستان میں ہونے والی حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث زیادہ تر افراد جدید تعلیم یافتہ نوجوان ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے انہیں اس حد تک جذباتی بناتی ہیں کہ وہ اپنے ہی ملک اور قوم کے خلاف ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔ بلوچستان میں شدت پسند تنظیموں نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ تنظیمیں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہدف بناتی ہیں۔ نوجوان، جو اپنی جوانی کے جوش اور جذباتیت کے باعث جلدی متاثر ہو جاتے ہیں، ان تنظیموں کے جھوٹے وعدوں کا شکار ہو کر ان کی سازشوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی پروپیگنڈا مہم کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں کو مسموم کیا جاتا ہے۔ ان کے اندر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی ہے، اور انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے ذریعے قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ ایک اہم پہلو جو دہشت گرد تنظیموں کی حکمت عملی کا حصہ ہے، وہ نوجوانوں کی نفسیات پر حملہ کرنا ہے۔ یہ تنظیمیں نوجوانوں کو جذباتی طور پر متاثر کرتی ہیں، ان کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوتی ہیں، اور پھر انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کی برین واشنگ کا عمل اس قدر منظم ہے کہ وہ نوجوانوں کو اس حد تک قائل کر دیتی ہیں کہ وہ اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانے کو بھی ایک مذہبی فریضہ سمجھنے لگتے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں نے اپنی حکمت عملی کو مزید مضبوط بنانے کیلئے خواتین کو بھی شامل کرنا شروع کیا ہے۔ بلوچستان میں شاری بلوچ اور سمیعہ قلندرانی جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کو ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ان خواتین کو جھوٹی کہانیاں سنا کر اس قدر قائل کر دیا گیا کہ وہ خود کش حملوں کے لیے تیار ہو گئیں۔ ان حملوں میں نہ صرف چینی باشندے بلکہ کئی بے گناہ پاکستانی بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک اور حربہ جو استعمال کیا جا رہا ہے وہ ہے ’’نارکو ٹیرر‘‘۔ یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جس میں نوجوانوں کو بے خوف اور احساسات سے عاری کرنے کے لیے نشہ آور ادویات کا استعمال کرایا جاتا ہے۔ ان ادویات کی مدد سے نوجوانوں کے اندر کے انسانی احساسات کو ختم کر دیا جاتا ہے اور انہیں بے خوفی کے ساتھ خطرناک کارروائیوں کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کی حالیہ صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں نے سوشل میڈیا کے ذریعے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کیلئے منظم کوششیں کی ہیں۔ ان تنظیموں کا مقصد نہ صرف نوجوانوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا ہے بلکہ ان کے ذریعے بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے یہ تنظیمیں نہ صرف نوجوانوں کو برین واش کرتی ہیں بلکہ انہیں مالی امداد، بیرون ملک ملازمت اور تعلیم کے مواقع کے جھوٹے خواب دکھا کر اپنے جال میں پھنساتی ہیں۔ یہ دہشت گرد تنظیمیں نوجوانوں کی ذہن سازی کے ساتھ ساتھ ان کے اندر بے حسی اور نفرت کے بیج بوتی ہیں۔ انہیں اس بات پر قائل کرتی ہیں کہ ان کی کارروائیاں ایک مقدس فریضہ ہیں۔ اس عمل میں یہ تنظیمیں نہ صرف نوجوانوں کو بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔ بلوچستان میں حالیہ دہشتگردانہ کارروائیوں کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان تنظیموں نے سیکڑوں نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کی ہیں۔ بلوچ طالب علموں کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسند تنظیموں کا حصہ نہیں بننا چاہتے، لیکن انہیں مختلف طریقوں سے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ دہشتگردوں کے سہولت کار انہیں بلیک میل کر کے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اگر وہ انکار کرتے ہیں تو انہیں اغوا کر لیا جاتا ہے اور پھر مار کر ان کی لاشوں کو پہاڑوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ ’’مسنگ پرسن‘‘ ہیں اور ان کی گمشدگی کا الزام ریاستی اداروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں والدین کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں، خصوصاً ان کے موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے۔ اگر مستونگ آپریشن میں مارے جانے والے دہشت گرد آصف نیچاری کے والدین اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے تو شاید انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، آصف نیچاری کے والدین اپنے بیٹے کی سرگرمیوں سے ناواقف تھے۔

تبصرے بند ہیں.