اسلامی تعلیمات کے مطابق، موت ایک ایسا قدرتی عمل ہے جو دنیاوی زندگی کے اختتام اور آخرت کی زندگی کے آغاز کا نام ہے۔ ہماری یہ دنیاوی زندگی کسی پنجرے میں قید پرندے کی زندگی کی مانند ہے۔ دنیاوی زندگی کی قید سے آزادی کے بعد انسان کو مادی کائنات کی کوئی بندش نہیں روک پاتی اور وہ ا پنے نیک اعمال کی بدولت ایسی آزادی حاصل کر لیتا ہے کہ وہ آسمان کی وسعتوں میں اڑتا پھرتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: حالانکہ آخرت (کی زندگی) بہتر (ہے) اور (وہ) ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ زندگی کے ہر لمحے کو اپنی من مرضی سے گزارنے کے باوجود بھی آخر انسان کو موت کا خوف کیوں لاحق رہتا ہے؟ شاید زندگی اور فانی دنیا کی محبت انسان کو موت کے خوف میں مبتلا کرتی ہے۔ موت کا خوف شاید انسانی فطرت کا ایک حصہ ہے جو مختلف عوامل کی بنا پر انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ نامعلوم زندگی کا آغاز، دنیاوی زندگی اور رشتوں اور مال کی محبت، مذہبی عوامل اور دنیاوی زندگی کی ناقابلِ واپسی نوعیت مل کر ہی موت کے اس خوف کو تشکیل دیتے ہیں۔ تقریباً ہر انسان ہی اس حقیقت پر یقین رکھتا ہے کہ موت کو کسی بھی صورت میں ٹالا نہیں جا سکتا۔ زندگی کے جتنے لمحے لکھ دئیے گئے ہیں، ان میں کمی بیشی ممکن نہیں ہے۔ جو رات قبر میں لکھ دی گئی ہے کوئی بھی انسان وہ کسی بھی صورت میں باہر نہیں گزار سکتا اور تب تک موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’اور جب (مقررہ) میعاد آ پہنچتی ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘ دنیا کی یہ زندگی ایک عجیب قسم کا مرحلہ ہے جس میں مختلف کردار آتے اور جاتے رہتے ہیں، کون کتنی دیر اس دنیا میں ٹھہرنے والا اور کیا کردار ادا کرنے والا ہے یہ فیصلہ قدرت نے کر کے بھیجا ہے۔ موت ایک ایسی حالت ہے جس کا تجربہ کوئی بھی انسان زندہ رہ کر نہیں کر سکتا۔ انسانوں کا دماغ قدرتی طور پر نا معلوم چیزوں اور تکلیف کی سختی سے خوفزدہ کرتا ہے۔ موت ایک ایسی حالت ہے جس کا تجربہ کرنے والوں نے کبھی لوٹ کر اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
موت ہماری زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے ہزاروں سال سے لوگ اس دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں اور مقررہ وقت گزار کر واپس لوٹ رہے ہیں۔ بالآخر سب ہی کو ایک نا ایک دن مرنا ہے اور پھر اپنے خالق کے حضور پیش ہو کر ان اعمال کے لیے جوابدہ ہونا ہے جو وہ دنیاوی زندگی میں کرتے رہے۔ حضرت ابراہیم تیمی ؒ فرماتے ہیں: دو چیزوں نے مجھ کو دنیا کی ہر لذت سے بے نیاز کر دیا، ایک موت نے دوسرا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے کی فکر نے۔ انسان اس دنیا میں نا تو اپنی من مرضی سے آتا ہے اور نا ہی اپنی مرضی سے جا سکتا ہے۔ اس حقیقت کو ماننے کے باوجود کہ زندگی اور موت کا اختیار اس کے ہاتھ میں نہیں، موت کا خوف ہمیشہ انسان کے دل میں موجود رہتا ہے۔ ہزاروں سال سے لوگ اس دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں، اور پھر اس دنیا میں اپنی طے شدہ میعاد پوری کرنے کے بعد خاموشی سے واپس چلے جاتے ہیں۔ فرمانِ باری تعالی ہے: ’ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی میں آزمائش کے لیے مبتلا کرتے ہیں، اور تم ہماری ہی طرف پلٹائے جاؤ گے۔‘ (الانبیائ،21:35) دینِ اسلام سمیت تمام آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جس طرح خالقِ کائنات نے ہمیں پہلی مرتبہ تخلیق کیا، بالکل اسی طرح وہ ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرے گا اور پھر اپنے اعمال کی جواب دہی کے لیے اپنے خالق کے حضور پیش ہونا پڑے گا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے‘۔ بقول شاعر
موت، تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام ِزندگی
ہے یہ شام ِ زندگی، صبح دوام ِ زندگی
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کثرت سے یاد رکھنا انسان کی امیدوں اور تمنائوں کے محدود ہونے کا سبب ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موت سے غفلت گناہوں کے ارتکاب، ابنِ آدم کی ہوسِ دنیا اور حرصِ زر میں بے جا اضافے اور نیک اعمال و عبادت سے بے نیازی کا باعث بنتی ہے۔ زمین کی یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور ہر انسان کے ساتھ صرف اس کے امتحان کا نتیجہ ہی جائے گا۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ موت کا معاملہ نہایت خطرناک ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں۔ انسان کیسی کیسی تدبیریں سوچتے ہیں برسوں کا انتظام کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں اور موت کو فراموش کیے دیتے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے رسولِ خداﷺ سے دریافت فرمایا: ’کوئی شخص بغیر شہادت کے شہیدوں میں شامل ہو سکتا ہے؟‘ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص دن میں بیس مرتبہ موت کو یاد کرے۔ ان تمام فضیلتوں کا سبب یہی ہے کہ انسان کا موت کو کثرت سے یاد کرنا اس کے دل میں موجود سختی کو کم کر دیتا ہے، دنیا اور اس میں موجود نعمتوں سے بے رغبتی کو پیدا کرتا ہے اور آخرت کی تیاری کے لیے نیک اعمال اکٹھا کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ انسان ہمیشہ نابودی اور خاتمے کے خوف میں مبتلا رہتا ہے، فقر، بیماری، اندھیر ے اور تکالیف سے ڈرتا ہے، اکثر لوگوں کو لگتا ہے کہ موت فنا اور نابود ہو جانے کا عمل ہے اسی لیے انسان موت کے بعد اس نابودی کے خوف میں مبتلا ہے۔ شاید اسی سوچ کے باعث ہی ارسطو نے کہا تھا کہ موت سب چیزوں سے زیادہ ہولناک ہے کیونکہ اس کے بعد کچھ نہیں رہ جاتا۔ موت کی سختی، نزع کی حالت اور اندیشہ ایسی چیزیں ہیں جو زندگی کے سارے عیش و آرام کو مکدر کرنے کے لیے کافی ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ انسان ہر وقت موت سے بچنے کے لیے تو تدابیر کرتا ہے مگر موت کے بعد عذاب سے بچنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ارشادِ نبویﷺ ہے کہ اگر تم لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ مرنے کے بعد تم پر کیا گزرے گی تو کبھی رغبت سے کھانا نہ کھائو، نہ لذت سے پانی پیئو۔ اس دنیا میں انسان کی پیدائش اور موت کی کیفیت ایک سنگِ میل کی سی ہے۔ مومن کی موت کی کیفیت کو علامہ اقبال نے اپنے اس فارسی شعر میں بہترین انداز میں بیان کیا ہے۔
نشانِ مردِ مومن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم برلبِ اوست
میں تجھے مردِ مومن کی نشانی بتاتا ہوں کہ جب اسے موت آتی ہے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔
تبصرے بند ہیں.