مسٔلہ قادیایت: جدوجہد کے تیسرے مرحلے کی ضرورت!

27

آج سے تقریباً پچاس سال قبل 1974 میں پاکستانی مقننہ نے تمام مذہبی مسالک اور ریاست کے باہمی اتفاق سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر مسلمانان ہند کا دیرینہ مطالبہ پوراکردیا تھا۔ نصف صدی پہلے کے حالات کے تناظر میں یہ اہم پیشرفت اور بڑی کامیابی تھی اور اس سے یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ قادیانیوں کا مسئلہ جو پچھلی ایک صدی سے مسلمانان ہند کے لیے باعث پریشانی بنا ہوا تھا حل ہو گیاہے۔ لیکن اس کے کچھ ہی سال بعد مذہبی طبقات اور خود ریاست کو احساس ہو گیا تھاکہ قادیانیوں کو صرف غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ اس کے کئی پہلو تاحال ادھورے اور حل طلب ہیں۔معاملے کی اس تشنگی نے قادیانیوں کے حوالے سے مزید ریاستی بند و بست کے مطالبات پیدا کیے۔

قادیانیوں کے حوالے سے مذہبی طبقات کی اب تک ہونے والی جدوجہد کو تین مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پہلا مرحلہ 1974 میں انہیں ریاستی سطح پر غیر مسلم اقلیت قرار دینا تھا۔ دوسرا مرحلہ 1984 سے 1993 تک کا ہے۔ اس مرحلے کا پس منظر اور تحرک یہ تھا کہ ریاستی سطح پر غیر مسلم اقلیت قراردئیے جانے کے باوجودقادیانی دھوکہ دہی سے اپنے مذہب کی ترویج و تبلیغ سے باز نہیں آئے ۔یہ خود کو مسلمان ظاہر کرنے اور سادہ لوح مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی کوششوں میں مسلسل مصروف عمل رہے۔اس صورت حال کے پیش نظرمذہبی طبقات نے ایک بار پھر تحریک چلائی اور قادیانیوں کی اس طرح کی سرگرمیوں کو روکنے اور ان پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ اس کے نتیجے میں 1984 میں امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا جس میں قادیانیوں کو پابند کیا گیا کہ آئندہ وہ خود کو مسلمان ڈکلیئر نہیں کرسکتے اور نہ ہی اسلامی شعائر کااستعمال کر سکتے ہیں۔

اس آرڈیننس کے اجرا کے بعد دو اہم کیسز سامنے آئے جن کی روشنی میں قادیانیوں کے حوالے سے آئندہ کی ریاستی حکمت عملی اور ان کی سماجی حیثیت کے تعین میں اہم پیش رفت ہوئی۔ ان میں پہلا کیس یہ تھا کہ امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہونے کے بعد قادیانی اس کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں چلے گئے اور موقف اختیار کیا کہ یہ قانون اسلامی تعلیمات کے منافی ہے کیوں کہ مذہب اسلام تمام اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے طویل غور و خوض کے بعد فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ امتناع قادیانیت آرڈیننس اسلامی احکام اور آئین میں درج بنیادی حقوق کے منافی نہیں ہے۔

دوسرا کیس نوے کی دہائی میں سامنے آیا جو مجیب الرحمان کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ 23 مارچ 1989ءکو قادیانیوں نے چناب نگر میں صد سالہ جشن منانے کا اعلان کیا۔ ایک صدی قبل 23مارچ 1889ء کو مرزا غلام قادیانی نے لدھیانہ (بھارت) میں اس مذہب کی بنیاد رکھی تھی۔ اس جشن کو منانے کے لیے چناب نگر میں خصوصی اور پرشکوہ انتظامات کیے گئے۔چناب نگراور گردونواح کی پہاڑیوں اور عمارتوں پر چراغاں کے لیے ڈیکوریشن پارٹیوں سے معاہدے کیے گئے۔ سو گھوڑے، سو ہاتھی اور سو ملکوں کے جھنڈے لہرانے کا انتظام کیا گیا۔ مقامی مسلمانوں نے اس جشن کے خلاف احتجاج کیا اور اس پر پابندی کا مطالبہ کردیا۔ ڈپٹی کمشنر جھنگ نے حالات کو دیکھتے ہوئے اس جشن پر پابندی لگا دی۔

قادیانیوں نے اس پابندی کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس خلیل الرحمن نے17 ستمبر 1991ءکو قادیانیوں کی رٹ خارج کر دی۔ قادیانیوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ چیف جسٹس محمد افضل نے پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا جو جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس عبدالقدیر چوہدری، جسٹس محمد افضل لون، جسٹس ولی محمد اور جسٹس سلیم اختر پر مشتمل تھا۔ جسٹس شفیع الرحمان اس بنچ کے سربراہ مقرر ہوئے۔ 3فروری 1993ء کو مقدمہ کی سماعت مکمل ہوئی اور 3 جولائی 1993ء کو سپریم کورٹ نے ایک چار کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔اس فیصلے کے اہم مندرجات یہ تھے:

امتناعِ قادیانیت آرڈیننس آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے۔

یہ قانون قادیانیوں کوایسے القابات و خطابات استعمال کرنے سے روکتا ہے جو مسلمانوں کے لیے خاص ہیں اوران پر قادیانیوں کا کسی قسم کاکوئی حق نہیں ہے۔البتہ ان پر نئے القابات و اصطلاحات وضع کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

قادیانیوں پر لازم ہے کہ وہ آئین و قانون کا احترام کریں اور اسلام سمیت کسی دوسرے مذہب کی مقدس ہستیوں کے لیے مخصوص خطابات، القابات و اصطلاحات کے استعمال سے گریز کریں۔

قادیانیوں کو اپنی شخصیات، مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب،القاب یا نام وضع کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ آخر ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر مذاہب نے بھی اپنی مقدس شخصیات کے لیے القاب و خطاب وضع کر رکھے ہیں اور وہ اپنے تہوار امن وامان کا کوئی مسئلہ یا الجھن پیدا کیے بغیر پرامن طور پر مناتے ہیں۔

انتظامیہ جو امن وامان قائم رکھنے اور شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی ذمہ دار ہے مذکورہ بالا اقدار میں سے کسی کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں مداخلت کرسکتی اور مناسب پابندیاں لگا سکتی ہے۔

عدالت نے واضح کیا کہ دستور کی دفعہ 20 کے تحت ”مذہبی آزادی“ کی جو ضمانت دی گئی ہے اس کا تحفظ صرف ان مذہبی افعال کو حاصل ہے جو مذہب کا لازمی اور ضروری حصہ ہیں جبکہ اس مقدمے میں اپیل کنندگان یہ دکھانے میں ناکام رہے ہیں کہ صد سالہ تقریبات ان کے مذہب کا لازمی اور ضروری حصہ ہیں اور یہ افعال صرف عوامی سطح پر اور عوام کی نظروں کے سامنے سڑکوں اورگلیوں میں یا عوامی مقامات پر سرانجام دئیے جانے تھے۔

1984 اور 1993 کے ان کیسز کے فیصلوں کی بنیاد دو اصولوں پر تھی۔ ایک، کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی کو دھوکا دے اس لیے قادیانیوں کو بھی یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ خود کو مسلمان ڈکلیئر کر کے دوسروں کو دھوکا دیں۔ دو، قادیانیوں کی ایسی سرگرمیوں سے امن و امان کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اس لیے حکومت امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے حقوق پر مناسب قیود عائد کر سکتی ہے۔ قصہ مختصر !دوسرے مرحلے کی یہ جدوجہد 1993 میں مجیب الرحمان کیس کے فیصلے کی صورت میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ ان دو مرحلوں کی جد وجہد میں مسلمانوں کو دو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں،ایک قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت ڈکلیئر کر دیا گیا۔ دو، انہیں دھوکہ دہی کی روش اپنانے اور مسلمانوں کے شعائر استعمال کر کے خود کو مسلمان ظاہر کرنے اور اس کے نتیجے میں اپنی تبلیغ سے روک دیا گیا۔

تیسرے مرحلے کی جد وجہد 1993 کے بعد شروع ہوتی ہے جو تاحال جاری ہے۔اس مرحلے کا دائرہ کار کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں ہے یہ اہم سوال ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ دھوکہ دہی کی روش قادیانیوں کی سرشت میں داخل ہے۔ جب انہیں سر عام اسلامی شعائر کے استعمال اور اس کے نتیجے میں اپنی تبلیغ سے روک دیا گیا تو انہوں نے اپنی عباد ت گاہوں، تعلیم گاہوں اور گھروں کے اندر اسلامی شعائر کا استعمال اور اس کے نتیجے میں اپنی تبلیغ اور سرگرمیوں کو جاری رکھا۔اس تبلیغ اور ان کی چار دیواری کے اندر کی سرگرمیوں کے نتیجے میں سیکڑوں سادہ لوح مسلمان ان کے دام تزویر میں آ کر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے وقتاً فوقتاً مذہبی طبقات ان کے مکر و فریب اور دھوکہ دہی کی روش کو عدالتی اور سماجی سطح پر واضح کرتے رہے۔ لیکن عدالتی سطح پر جب بھی یہ کیس ڈسکس ہوا تو مذہبی طبقات او ر خود عدالت کو ایک تضاد کا سامنا کرنا پڑا۔ مذہبی طبقات کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ قادیانی اپنی عباد ت گاہوں، تعلیم گاہوں اور گھروں کے اندر بھی اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے۔جو چیز باہر جرم ہے وہ اندر بھی جرم ہے۔ مزید یہ کہ قادیانی چار دیواری کی آڑ لے کر اب تک سیکڑوں مسلمانوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسا کر ان کی آخرت برباد کر چکے ہیں۔ جبکہ عدالت کا مو¿قف یہ ہوتا ہے کہ آئینی و قانونی طور پردیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کو بھی اپنی عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں اور چار دیواری کے اندر اپنی مذہبی رسومات اور دیگر سرگرمیوں کی اجازت حاصل ہے کہ یہ آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق کا مطالبہ ہے۔

اس ضمن میں عدالت اپنے پیش رو شریعہ کورٹ1984اورسپریم کورٹ 1993 کے فیصلوں کو بنیاد بناتی ہے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ دونوں فیصلوں میں بھی تضاد موجود تھا۔وہ تضاد یہ ہے کہ عدالتیں یہ تو تسلیم کرتی ہیں کہ مرزائی کھلے عام اسلامی شعائراستعمال نہیں کر سکتے، مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دے سکتے لیکن ساتھ ہی انہیں یہ اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہ، تعلیم گاہ اور چار دیواری کے اندر اپنی مذہبی رسومات کے نام پر اسلامی شعائر بھی استعمال کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دے کر منحرف بھی کر سکتے ہیں۔ یعنی دونوں فیصلوں میں اس بنیادی مستدل کو تو مانا گیا کہ مرزائی دھوکہ دہی کی روش سے باز نہیں آتے لیکن اس مستدل سے متفرع ہونے والے حکم کو مقید کر دیا گیا کہ قادیانی عبادت گاہ اور چار دیواری کے اندر دھوکہ بھی دے سکتے ہیں، سادہ لوح مسلمانوں کو منحرف بھی کر سکتے ہیں اور اسلامی شعائر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس متضاد اصول کو بنیاد بنا کر عدالتیں نئے تضادات پیدا کرتی ہیں اور یہ وہ مسئلہ ہے جو سالہا سال سے حل نہیں ہو رہا۔ اصولی طور پر اس تضاد کو ختم ہونا چاہئے تھا اور عبادت گاہ کے اندر بھی قادیانیوں کو اسلامی شعائر اپنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے تھی کہ مگر عملاً ایسا نہیں ہوا اور اس تضاد کا فائدہ قادیانیوں نے اٹھایا اور مسلسل اٹھایا ہے۔

مذہبی طبقات اپنے موقف کے حق میں عقلی و نقلی دونوں طرح کا استدلال پیش کرتے ہیں۔ نقلی استدلال یہ ہے کہ قرآن میں مسجد ضرارکا ذکر موجود ہے، مسجد ضرار منافقین کی پرائیویٹ جگہ اور پراپرٹی تھی۔ اس کی علیحدہ چار دیواری تھی اور وہ اپنے کفر ونفاق کو اسلام کے نام پر وہاں استعمال کرتے تھے۔ مگر قرآن مجید نے مسجد ضرار کو گرانے کا حکم دیا۔ اسی طرح مسیلمہ کذاب کا گروہ اپنے علاقے میں پرائیویٹ طور پر اذان، نماز، ذبیحہ، کلمہ اور قرآن کا نام استعمال کرتا تھا۔ مگر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کی سازشوں کا قلع قمع کیا۔اس کے علاوہ اور بھی روایت میں ایسے بہت سے استدلال مل جاتے ہیں۔

عقلی استدلال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جیسا فعل ہونے کے باوجود ایک چیز باہر جرم ہے لیکن اندر جرم نہیں ہے۔ مثلاًچرس اور ہیروئن بیچنا جرم ہے تو کیا کسی کو یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ گھر کے اندر یہ جرم کرلے۔شراب نوشی اور Adultery باہر جرم ہے کیا کسی کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ گھر کے اندر ان جرائم کا ارتکاب کر لے۔ ان دونوں معقول استدلالات کے ساتھ مذہبی طبقات کی پوزیشن بالکل واضح ہے۔

مذہبی طبقات کے اس استدلال پر عدالت اور خود مذہبی طبقات میں سے کچھ لوگ آئین کا حوالہ دیتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل بیس کی شق اے کہتی ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا۔ شق بی کہتے ہے کہ ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، برقرار رکھنے اوران کا انتظام کرنے کا حق ہو گا۔ آرٹیکل بائیس کی شق کہتی ہے کہ کسی مذہبی فرقے یا گروہ کو کسی تعلیمی ادارے میں جو کلی طور پر اس فرقے یا گروہ کے زیر اہتمام چلایا جاتا ہواس فرقے یا گروہ کے طلبا کو مذہبی تعلیم دینے کی ممانعت نہ ہوگی۔ آئین کی ان شقوں کا حوالہ دے کر عدالت اپنا دامن صاف کر لیتی ہے۔

مذہبی طبقات کا مطالبہ ہے کہ شعائر اسلام کا استعمال اگر باہر جرم ہے تو اندر بھی جرم ہے۔ عدالت کہتی ہے اگر ان افعال کی قادیانیوں کی عبادت گاہ کے اندر بھی اجازت نہ دی جائے تو اس سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ مذہبی طبقات کا استدلال ہے کہ اسلام کے نام رجسٹرڈ حقوق کو،اگر کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے استعمال پر پابندی سے اگر کسی کے بنیادی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تویہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ۔مذہبی طبقات اور عدالت کے فہم کے مابین یہ وہ خلا ہے جو دونوں کو ایک دوسرے کا نکتہ نظر سمجھنے نہیں دے رہا اورقادیانی اس خلا کا پھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مذہبی طبقات اپنے استدلال کو لے کر پر اعتماد ہیں اور عدالت آئین کا حوالہ دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔

فہم کے اس اختلاف کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے یہ عدالت اور مذہبی طبقات کے سامنے اہم سوال ہے اور جب تک فہم کا یہ اختلاف ختم نہیں ہوتا قادیانی مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ فہم کے اس اختلاف کوکیسے ختم کیا جا سکتا ہے اس کے لیے ہم بات کوآگے بڑھاتے ہیں۔

کچھ باتیں طے شدہ ہیں اور اس پر قادیانیوں کا ماضی اور عدالتی فیصلے گواہ ہیں۔مثلاً:

عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں تسلیم کیا ہے کہ قادیانی دھوکہ دہی کی روش سے باز نہیں آتے۔

یہ شعائر اسلام کے استعمال سے بھی باز نہیں آتے۔

یہ شعائر اسلام کی آڑ میں خود کو مسلمان ثابت کرنے اور تبلیغ سے باز نہیں آتے۔

اپنے مذہب کی تبلیغ ان کے عقائد کا حصہ ہے۔

تبلیغ کے لیے یہ تحریف عقا ئد،توہین رسالت اور تحریف قرآن کے مرتکب ہوتے ہیں۔

یہ اب تک ہزاروں مسلمانوں کو قادیانی بنا چکے ہیں۔

ان سب اعمال کی صورت میں مسلمان اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
ان طے شدہ امور کے علاوہ کچھ سوالات بھی اہم ہیں۔ مثلاً :

اگر انہیں چاردیواری کے شعائر اسلام کے استعمال اور اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہے تویہ تبلیغ کس کو کر رہے ہیں؟ یقینا عام مسلمانوں کو کی جاتی ہے تو یہ جرم کیوں نہیں ہے؟

اگر انہیں چار دیواری کے اندر تبلیغ کی اجازت ہے تو دیگر مذاہب مثلاً عیسائی اور سکھوں کو اس چیز کی اجازت کیوں نہیں ہے؟

اگر مسلمانوں کے مختلف مسالک کے نفرت انگیز لٹریچر پر پابندی لگائی جا سکتی ہے تو قادیانیوں کا سارا لٹریچر مسلمانوں کے نزدیک نفرت انگیز اور توہین آمیزہے تو اس پر کیوں پابندی نہیں لگائی جاتی؟

اگر مسلمانوں کے مختلف مسالک کے لٹریچر کے خلاف 23000 ایف آئی آر درج ہوسکتی ہیں تو قادیانیوں کے تحریف شدہ اور نفرت انگیز لٹریچر پر کیوں نہیں؟

کیا مختلف مسالک کے نفرت انگیز لٹریچر کو چار دیواری کے اندر جائز قرار دیا جا سکتا ہے ؟

کیا آئین پاکستان کی خلاف ورزی کو چاردیواری کے اندر جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟

مذکورہ طے شدہ امور اور سوالات کے علاوہ ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔ وہ یہ کہ اگر 1974 کے بعد کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے اور یہ تحقیق کی جائے کہ اب تک قادیانی دھوکہ دہی اور تبلیغ کے ذریعے کتنے سادہ لوح مسلمانوں کو قادیانی بنا چکے ہیں تو یہ حقائق چشم کشا اور ہوش ربا ہیں۔ قادیانیوں کی اپنی رپورٹس کے مطابق پچھلے چند سالہا سال میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں نے قادیانیت کو بطور مذہب قبو ل کیا ہے اور ان میں اکثرت سادہ لوح مسلمانوں کی ہے۔ یہ ہزاروں مسلمان قادیانیوں کی”چار دیواری“ کے اندرکی آزادی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ کیا بطور سربراہ ریاست، بطور سربراہ عدالت اور بطور عام مسلمان میں چاردیواری کے اندر کا جواز پیش کر سکتا ہوں۔ کیا کل قیامت کے دن بطور سربراہ ریاست اور بطور سربراہ عدالت مجھ سے سوال نہیں ہوگا ؟جو نبی ایک ایک امتی کے لیے فکر مند رہا آج اس کے ہزاروں امتی چار دیواری کی بھینٹ چڑھ کر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہم،ہماری عدالتیں اور ہماری ریاست چاردیواری کا استدلال پیش کر کے خاموش ہے۔
پھر آئین میں چار دیواری کے اندر بنیادی حقوق کی جو ضمانت فراہم کی گئی ہے و ہ مطلق نہیں بلکہ آئین ، قانون، اخلاقیات اور امن عامہ کے تابع ہے۔ اسی طرح کسی مذہب و مسلک کے تعلیمی اداروں کے اندر اسی مذہب ومسلک کی تعلیم کے حق کی جو ضمانت فراہم کی گئی ہے وہ خالص مذہبی اداروں کے اندر ہے۔جبکہ قادیانیوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ انہوں نے مختلف عصری تعلیمی ادارے قائم کیے ہوئے ہیں جہاں قادیانیوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے بچے بھی زیر تعلیم ہوتے ہیںاور قادیانی دیگر مذاہب کے بچوں کو تبلیغ سے باز نہیں آتے۔

حالیہ دنوں میں مبارک ثانی کیس اس کی بہترین مثال ہے۔ مبارک ثانی نصرت جہاں کالج فا رویمن میں قادیانیوں کی تفسیر صغیرکو، قرآن کی تفسیر کہہ کر تقسیم کر رہا تھا جو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی اور 295 سی کی تحت صریح جرم تھا لیکن عدالت نے اسے جرم اس لیے تسلیم نہیں کیا کہ آئین کے آرٹیکل 22 کی شق کے تحت ہر مذہب و مسلک کو اپنے مذہبی تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان میں تعلیم دینے کا حق ہے۔ (یہاں پھر اسی تضاد کا سہارا لیا گیا جس کا حوالہ ہم نے اوپر دیا ہے کہ شعائر اسلام کا استعمال اگر باہر جرم ہے تو اندر جرم کیوں نہیں ہے، لیکن یہاں ہمارا موضوع بحث آرٹیکل بائیس کی شق ہے)حالانکہ مبار ک ثانی نے جس جرم کا ارتکاب کیا وہ مذہبی تعلیمی ادارے میں نہیں بلکہ عصری تعلیمی ادارے میں ہوا اور اس تعلیمی ادارے پر آئین کے آرٹیکل 22 کی شق کا اطلاق نہیں ہوتا۔

ان تمام حقائق کی روشنی میں مسلمانان پاکستان کایہ مطالبہ جائز اور صائب ہے کہ اگر کوئی گروہ ان کے نام پر رجسٹرڈ حقوق کو، اپنی چاردیواری کے اندر یا باہر دھوکہ دہی کے لیے استعمال کرتا ہے اوران کے ہم مذہبوں کی دنیا و آخرت تباہ کر تاہے اور اس پرمسلمان عدالت جاتے ہیں تو انہیں انصاف ملنا چاہیے۔ یہ ا ن کا بنیادی حق ہے۔اس میں جذباتیت ہے نہ ہی کسی کے بنیادی حقوق کے متاثر ہونے کا معاملہ ہے۔نہ ہی کوئی مذہبی و سیکولر قانون مسلمانوں کے اس بنیادی حق کی مخالفت کرتا ہے۔ بلکہ اگر مسلمان اس دھوکہ دہی اور اپنی شناخت کے غلط انتساب پرسوال نہیں اٹھاتے تو یہ ان کے عقل و شعوراور ان کے ایمان پر سوالیہ نشان ہے۔

اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی چاردیواری کے اندر بھی ان کے نام رجسٹرڈ حقوق اور ان کی شناخت کو غلط طور استعمال نہ کیا جائے تو ان کے اس مطالبے سے اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار وہ نہیں ہیں۔یہ مسئلہ جس فریق کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اس کا حل ڈھونڈنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ کوئی گروہ میرے رجسٹرڈ حقوق اور میری میراث کو دھوکہ دہی سے اپنی طرف منسوب کرے اورمیں اس کے خلاف آواز بلند کروں تو الٹا مجھے ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے۔ اس سے تو میرے بنیادی حقوق متاثر ہورہے ہیں۔ مجھ سے میری شناخت چھینی جا رہی ہے۔ بلکہ مجھ سے چھین کر کسی اور کو دی جارہی ہے اور الٹا مجھے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جس شناخت کی حفاظت و اشاعت کے لیے میرے پرکھوں نے ہر عہد میں قربانیاں دی آج اس کے حقوق عدالتی چھتری تلے مجھ سے چھین کر کسی اور کے نام کیے جا رہے ہیں۔ مجھ سے میرے بنیادی حقوق اور میری بنیادی شناخت چھین کر میرے ہی خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ میں کسی اور کے بنیادی حقوق چھین رہا ہوں۔

اگر کل قادیانیوں میں سے کوئی گروہ اٹھ کر مرزا کے بعد نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور قادیانیت کی نئی تشریح کرتا ہے اورکہتاہے جو اس نئی تشریح کو قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے تو کیا قادیانی اس نئے گروہ کو یہ سب کرنے کی اجازت دیں گے؟ اگرقادیانی اس گروہ کے خلاف عدالت جائیں اور عدالت فریق مخالف کے بنیادی حقوق کا حوالہ دے کرانہیں خاموش کرواے دے تو کیا قادیانی اس فیصلے کو تسلیم کریں گے؟ کیا یہ پریکٹس دنیا کے دیگر مذاہب پر بھی اپلائی کی جا سکتی ہے۔ مثلاعیسائیوں یا یہودیوں میں کوئی گروہ اٹھ کر نبوت کا دعویٰ کرے اور عیسائیت یا یہودیت کی نئی تشریح کرے اور یہ دعویٰ کرے کہ اصل عیسائیت اور یہودیت یہ ہے اورجو اس نئی عیسائیت یا یہودیت کو تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے تو کیا یہودیت اورعیسائیت اس دجل کو تسلیم کر لیں گے۔ یقیناً دنیا کا کوئی بھی مذہب اس دجل کا روادار نہیں ہو سکتاتو پھر مجھ سے یہ مطالبہ کیوں ہے کہ میں اس دجل کو قبول کرلوں اوراپنے رجسٹرڈ حقوق اور اپنی میراث پر کسی اور کا حق تسلیم کرلوں۔

اپنے ان بنیادی اور رجسٹرڈ حقوق اوراپنی میراث کی حفاظت کے لیے میرے عدالت جانے سے اگر کسی کے بنیادی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔یہ مسئلہ جس فریق کا پیدا کردہ ہے یہ اسی کا مسئلہ ہے اور اس کا حل تلاش کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔اس ضمن میں اگرمجھے کوئی جذباتی کہتا ہے تو وہ خود غلط فہم پر کھڑا ہے۔ مجھے کوئی آئین کا حوالہ دیتا ہے تو وہ آئین کی غلط تشریح کر رہا ہے۔ مجھے کسی کے بنیادی حقوق کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے تو وہ غیر شعوری طور پر میرے بنیادی حقوق سلب کر کے کسی اور کو دینے کی با ت کر رہا ہے۔

اس مسئلے کا صرف ایک اور واحد حل یہ ہے کہ میرے نام رجسٹرڈ اور میرے بنیادی حقوق متاثر نہ کیے جائیں۔ میری میراث میرے نام منسوب کی جائے اور کسی اور کو یہ اجاز ت نہ دی جائے کہ وہ دھوکہ دی سے اسے اپنی طرف منسوب کرے۔اگرکسی نے میرے حقوق اور میری میراث پر ڈاکہ ڈالا ہے تو میں اگر اس کے خلاف عدالت جاو¿ں تو مجھے انصاف دیا جائے۔دھوکہ دہی کے مجرم کے لیے لازم قرار دیا جائے کہ وہ اپنے لیے نئے حقوق اور نئی میراث وضع کرے۔ اپنے پہچان اور شناخت کے لیے نئے نام سامنے لے کر آئے اوراپنے مذہب کا نیا نام اور نئی اصطلاحات و ضع کرے۔

قادیانیت کے حوالے سے تیسرے مرحلے میں کرنے کا یہ کام ہے اور جس دن یہ مرحلہ سر ہو گیا قادیانیت کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جا ئے گا۔اس مرحلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالت کے سامنے مذہبی و عقلی استدلال کے ذریعے یہ ثابت کیا جائے کہ کس طرح قادیانی چار دیواری کا سہار الے کر دھوکہ دہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔کس طرح یہ گروہ چاردیواری اور عبادت گاہ کی آڑ کا سہارا لے کر ہزاروں لاکھوں لوگوں کا ایمان لوٹ چکا ہے۔ عدالت کو یہ باور کرایا جائے کہ جرم اگرچار دیواری سے باہر جرم ہے تو وہ اندر بھی جرم ہے۔ اگر میرے نام رجسٹرڈ حقوق سے کسی کے بنیادی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ اس کی طرف سے پیدا کردہ ہے اور اس کا حل ڈھونڈنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ جس دن ہم عدالت کو ان سب حقائق پر قائل کرنے کے قابل ہو گئے اور عدالت نے بھی آنکھیں بند نہ کی ہوئی ہوں تو اس دن یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے بحر ہند میں دفن ہو جائے گا۔

ختم نبوت اور قادیانیت پر کام کرنے والی جماعتوں، افراد اور اداروں کو اپنی جد وجہد اور حکمت عملی کو اس رخ پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ہمارے آباءنے اپنے عہد کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق جدو جہد کے پہلے دو مراحل کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس مسئلے کو اون کریں اورصحیح رخ پر جد وجہد کو آگے بڑھائیں۔ اس کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کرنے اور مختلف مذہبی وسیاسی جماعتوں، افراد اور اداروں کو مل بیٹھ کر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام الناس کی ذہن سازی ، مقننہ اور عدلیہ کو مذہبی و عقلی استدلال کے ذریعے مسئلے کی تفہیم،مذہبی و سماجی دانش،سوشل میڈیا سمیت مین اسٹریم میڈیا ،با اثر حلقوں تک رسائی اورریاستی مشینری کو اس جدوجہد میں شامل کرنے سے اس مسئلے کے حل کے امکانات بہت زیادہ حد تک بڑھ جائیں گے ۔

تبصرے بند ہیں.