مسلمان کشمیری بچے ترانہ پڑھنے پر مجبور

22

کل جماعتی حریت کانفرنس نے سکول بچوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کے لئے مجبور کرنے پر مودی حکومت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس حکم نامے کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعلیمی اداروں کے خلاف بی جے پی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی ریاستی دہشت گردی قرار دیا ہے۔بی جے پی کی حکومت نے مقبوضہ علاقے کے تمام سکولوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کا حکم دیا ہے تاکہ کشمیری مسلمان طلبا کو اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو ترک کرنے پر مجبورکیا جائے۔حریت ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس اقدام کا مقصد علاقے کی مسلم شناخت کو مٹانا اور مسلم اکثریت والے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ہندوتوا نظریہ مسلط کرنا ہے۔

کل جماعتی حریت کانفرنس نے بی جے پی حکومت کے اس ظالمانہ رویے کی بھی شدید مذمت کی جس کے تحت اس کے رہنماؤں اور خواتین سمیت ہزاروں کشمیریوں کو گزشتہ سات سال سے غیر قانونی طورپر نظربند رکھا گیا ہے۔بیان میں اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والی دیگر عالمی تنظیموں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فوری مداخلت کر کے فرقہ وارانہ بنیادوں پر مبنی اس فیصلے کو واپس لینے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالیں۔

1937ء میں ہونیوالے انتخابات کے بعد کانگریس نے کئی صوبوں میں اپنی حکومتیں قائم کیں تو انہیں اپنے انتہا پسندانہ نظریات مسلمانوں پر مسلط کرنے کا موقع میسر آگیا، اسی تناظر میں ایک حکمنامہ کے تحت تمام سکولوں میں بندے ماترم گانا لازمی قرار دے دیا جس کی قائداعظم محمد علی جناح ؒنے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے شدید مزاحمت کی تھی۔ مسلمان اس فیصلہ کیخلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ بندے ماترم بت پرستی کا شاہکار اور مجموعی طور پر مسلمانوں کیخلاف اعلان جنگ ہے۔ ”بندے ماترم“ ایک نفرت انگیز گیت ہے۔ اس کا پس منظر ایک ایسے ڈرامے سے جڑا ہوا ہے جس میں مرکزی نظریہ مسلمانوں کی مسجدوں کو برباد کرنا اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ یہ ان انتہا پسند ہندو تنظیموں کا نعرہ بھی رہا جو خانہ کعبہ پر قبضہ کر کے وہاں ”اوم“ لکھنا چاہتے تھے۔ اس میں درگا دیوی کو ماں کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے۔

سہ روزہ نوائے وقت نے جولائی 1943میں دو مرتبہ بندے ماترم کا اردو ترجمہ شائع کیا تھا اور ساتھ ہی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک نوٹ میں لکھا تھا کہ اصلاً یہ ترانہ بنگال کے ہندو باغیوں کا ترانہ ہے جو انہوں نے اسلام اور حکومتِ اسلامی کو مٹاکر ہندو راج قائم کرنے کے لئے جاری کیا تھا۔اس نام نہاد قومی ترانے کے متعلق یہ بات ذہن نشین کرنا نہایت ضروری ہے کہ یہ گیت قومی ترانے کے طور پر نہیں لکھا گیا اور نہ ہی اس کے متعصب مصنف کو یہ وہم و گمان بھی ہو سکتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ ہندوستان کا قومی ترانہ قرار پائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دو قومی نظریے نے اس ضمن میں کیا کردار ادا کیا جب ہندووں کی جانب سے بندے ماترم کو بطور قومی ترانہ اختیار کرنے پہ اصرار کیا گیا تومسلمانوں نے علامہ اقبالؒ کی نظم
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
کو ہندوستان کا قومی ترانہ قرار دیا۔

آج کے ہندوستان میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں اس نعرے کو اپنے اندر ”اکھنڈ بھارت یدھ“ کی آگ تیز کرنے اور مسلمانوں کو وہاں سے نکالنے یا نیست و نابود کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک ”بندے ماترم“ مسلمانوں کے نعرہ تکبیر کا جواب ہے۔ اس کا مظاہرہ انہوں نے 1946-47ء اور اس کے بعد بھارتی صوبہ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے دوران بھی کیا۔آج بھی بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بندے ماترم پڑھنے اور سننے پر مجبور کیا جا رہا ہے لیکن مسلمان اس ہندوانہ عقائد پر مشتمل گیت کو پڑھنے یا سننے کو تیار نہیں ہیں۔

بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ظلم و ستم توڑنے کا سلسلہ جاری ہے، اس حوالے سے انتہا پسندی کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے۔ بھارت کی ریاست بہار میں بندے ماترم نہ پڑھنے پر مسلمان ٹیچر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔یہ واقعہ ریاست بہار کے ضلع کاٹیہر میں ایک پرائمری سکول میں بھارتی یوم جمہوریہ پر پیش آیا جب افضل حسین نامی مسلمان ٹیچر نے وندے ماترم پڑھنے سے انکار کیا تو مقامی افراد نے اس پر تشدد کیا۔ افضل حسین کا کہنا ہے کہ یہ ترانہ ہمارے مذہبی عقائد کے خلاف ہے، اسے لئے میں نے اسے پڑھنے سے انکار کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارتی آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا ہے کہ بندے ماترم ترانہ پڑھنا بھارتی شہریوں کے لیے لازمی ہے۔

بھارتی حکمرانوں نے اعلان کیا ہے کہ 25 کروڑ مسلمان اگر بھارت میں رہناچاہتے ہیں تو انہیں ”وندے ماترم“ کا گیت گانا ہوگا ورنہ وہ اپنا بوریا بستر یہاں سے گول کریں اور بھارت چھوڑ دیں۔ حکمرانوں کی اس دھمکی سے بھارتی سیکولر ازم کا پردہ چاک ہوگیا ہے۔ ہندو پیدا ہی مکارانہ ذہنیت کے ساتھ ہوتا ہے۔بھارت میں مسلمانوں پر روز بروز ظلم و ستم بڑھتا جا رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ خود کو زیادہ غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.