ہم کتنے بدقسمت ہیں، ابھی ایک سانحے سے سنبھلتے نہیں کہ دوسرا رونما ہو جاتا ہے، سانحہ 9مئی کے بعد سانحہ ٹی ٹوئنٹی اور اب سانحہ اونٹنی ہو گیا ہے لیکن کسی کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ وزیراعظم پاکستان اگر بہت مصروف تھے تو کم از کم وزیر داخلہ یا وزیر اطلاعات کو اس حوالے سے پریس کانفرنس کرنا چاہئے تھی وہ اس واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے شدید مذمت کے بعد کم از کم تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کرتے قومی پرچم سرنگوں رکھنے کے اعلان سے جانوروں، بے زبانوں سے اظہار یکجہتی ہو سکتا تھا لیکن کچھ نہ ہوا، اسے سرکاری بے حسی ہی کہا جا سکتا ہے۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا رویہ بھی افسوسناک ہے۔ ہر صحافی، دانشور، اینکر، کالم نگار ہمیں خواہ مخواہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ بجٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ہماری ٹیکس آمد 13ہزار ارب روپے ہوگی جبکہ ہمیں قرضوں کے صرف سود کی ادائیگی کیلئے 9700ارب روپے ادا کرنا ہیں باقی بچنے والے 3300 ارب روپے سے کیا کیا ہو سکتا ہے یہ عام فہم ہے لیکن اسے سمجھنے سمجھانے کی کیا ضرورت ہے۔
ایک طبقہ کہتا ہے ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے ہم نے ڈیفالٹ سے ملک کو بچا لیا ہے۔ کسی کے مطابق پیش کئے جانے والا بجٹ نہایت عمدہ اور جانفشانی سے تیار کیا گیا ہے۔ کچھ ماہرین کے مطابق ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ پردہ داری کی کوششیں جاری ہیں۔ بجٹ تو آئی ایم ایف نے بنایا ہے اس کی فرمائشیں بجٹ پیش کرنے سے چھ ماہ قبل سامنے آ چکی تھیں جنہیں بجٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ حکومت کہتی ہے ملک کو مسائل سے نکال کر ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کیسی ترقی اور کونسی ترقی کی شاہراہ، ملک کو ایک ایسی گہری کھائی میں ڈال دیا ہے جہاں سے وہ آئندہ دس برس میں بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر مسائل پر قابو پالیا گیا ہے تو پھر اصل زر واپس کیوں نہیں کر رہے۔ یہاں تو سود کی قسط ادا کرنے کیلئے کچھ نہیں بچا۔ چین سے قرضہ ری شیڈول کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ چین سے 800ارب کا نیا قرض حاصل کیا جا رہا ہے جس کے بعد آئندہ برسوں میں قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے 13ہزار ارب روپے سے زیادہ درکار ہوں گے، آج ٹیکس آمدن 13ہزار ارب روپے ہے اسے کھینچ کر ہم کتنا زیادہ کر لیں گے ہم اپنی ایکسپورٹ کو کتنا بڑھا لیں گے۔ ہم اپنی امپورٹ کو کتنا کم کر لیں گے کہ عزت کی روکھی سوکھی کھانے کے لئے کچھ رقم بچ رہے۔ اپوزیشن کا ایک اور بھی الزام ہے کہ ہم مادر وطن یعنی امی جان کا سودا تو بہت پہلے کر چکے ہیں۔ اثاثے فروخت ہو رہے مگر اونے پونے جب سب بک جائے گا تو پھر کیا کریں گے کیا بیچیں گے۔ کچھ ماہرین معیشت کو وزیر خزانہ حکومت پاکستان کے بدن میں سابق نگران وزیراعظم پاکستان معین قریشی کی روح حلول نظر آتی ہے جنہوں نے تازہ ترین ارشاد فرمایا کہ پاکستان کو بچانے کیلئے سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ ان کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کن کے عزائم کی تکمیل کرنے آئے ہیں، سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنا ضروری ہے تو پھر اس پرائیویٹ سیکٹر کا تعلق غیر ممالک سے ہونا کیوں ضروری ہے۔ زیادہ زہر کھا کر مر جانے سے بہتر ہے تھوڑا زہر کھا کر ساتھ ہی زہر کا تریاق پی لیا جائے۔ جن کے دوبئی میں بائیس ارب ڈالر رکھنے کی مصدقہ اطلاعات حکومت کے پاس ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، سپین، نیوزی لینڈ، ساؤتھ افریقہ اور کینیا میں جن کے 570ارب ڈالر رکھے ہیں ان سے درخواست کی جائے کہ آپ کو سات خون تو پہلے ہی معاف ہیں۔ اپنی حرام کی کمائی ملک میں واپس لے آئیں، یہاں انڈسٹری لگائیں، ڈیموں کی تعمیر میں حصہ لیں، قوم کو لوٹنے کا سنہری موقع حاصل کریں پھر جتنی دولت ملک میں لائے ہیں اس سے دوگنا واپس باہر لے جائیں۔ یوں اندر باہر کرتے کرتے ملک کے چند برس اور گزر سکتے ہیں۔ پونے چھ سو ارب روپے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رکھ کر ہر ماہ چند ہزار روپے من پسند خاندانوں کو خیرات کرنے سے بہتر ہے ان خاندانوں کو مفت میں سولر پینل دے دیئے جائیں تاکہ بجلی کے بحران پر قابو پا کر یہ بجلی انڈسٹری کو دی جا سکے لیکن اس میں بڑا خطرہ یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں بجلی کے بلوں سے چھٹکارا پا کر سکون آ جائے گا اور پرائیویٹ پاور پروڈیوسر کی آمدن کم ہو جائیگی شاید ان پر اس سے بڑا ظلم کوئی اور نہ ہو گا لہٰذا ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ اس سے بہتر ہے عام آدمی غریب آدمی کی کھال مزید کھینچی جائے۔ اس کے استعمال میں آنے والی ہر چیز کی سبسڈی ختم کرکے اس پر ٹیکس عائد کیا جائے جن چیزوں پر پہلے جتنا ٹیکس موجود ہے اسے دوگنا کیا جائے۔
وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ ہم ان فضول باتوں سے نکل کر تازہ ترین عظیم سانحے کا ماتم جاری رکھیں جس پر ملک کے نامور اینکرز نے اپنے یو ٹیوب چینل پر بارہ سو گرام کئے ہیں جن میں ٹانگ کٹنے کے بعد اونٹی کو آسمان کی طرف منہ کرکے اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتے دکھایا گیا ہے اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسوؤں کے کلوز اپ دکھائے گئے ہیں۔ بعض یو ٹیوبرز سے اونٹی کی بددعا کو ساتویں آسمان پر پہنچنے کے بعد قبول ہونے کی سند جاری کرتے ہوئے آسمانی بجلیاں کڑکنے کا منظر دکھایا ہے، جانوروں کی زبان سمجھنے والے کچھ دوستوں نے حالت کرب میں اونٹنی سے انٹرویو کرنے کے بعد اس کی گفتگو کا اردو ترجمہ بھی پیش کیا ہے۔ کسی نیک دل حضرات نے اونٹنی کو گود لینے اس کی مصنوعی ٹانگ کے اخراجات برداشت کرنے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ پاکستان میں نیک دل لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ مجھے اس بات پر بہت حیرانی ہے کہ کسی نے اب تک اسے گود لینے کا اعلان کیوں نہیں کیا۔ زیادہ نیک دل افراد میں کسی کو چاہئے کہ وہ آگے بڑھے اور بازی لے جائے، اسے ایک معذور اونٹنی سے نکاح کرکے تمام عمر اس کی پرورش کا ذمہ اٹھانے کا اعلان کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے اونٹنی کا نکاح کسی صاحب ثروت اونٹ سے کرنے کے فیصلے سے بچنا ہوگا کیونکہ کسی بھی اونٹ کی ٹانگ کسی بھی وقت کاٹی جا سکتی ہے۔ قریباً دو برس ہونے کو ہیں ایک اونٹ کی دونوں ٹانگیں کاٹ کر اسے جیل میں ڈال دیا گیا ہے لیکن خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے وہ کٹی ہوئی ٹانگوں سے دوڑ کر دونوں ٹانگیں سلامت رکھنے والوں کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گا۔
اونٹنی کے بعد اب ایک گدھی کا سانحہ سامنے آنے والا ہے۔ دونوں کو اس قدر مقبولیت حاصل ہو چکی ہے جتنی وزیراعظم پاکستان کو حاصل نہیں۔ کچھ عجب نہیں ملک کی آئندہ وزیراعظم کوئی اونٹنی یا گدھی منتخب ہو جائے۔ ہمدردی کا ووٹ مظلوم کی امانت ہے۔
تبصرے بند ہیں.