وزیراعظم صاحب !ختم کریں اس کھیل کو…

23

شرم تم کو مگر نہیں آتی… مسلسل شکستوں کی رانی نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ چاچوں، ماموں، بھتیجوں اور پھوپھیوں کی ٹیم پہلے بچہ ٹیم امریکہ سے ہاری اور پھر ورلڈ کلاس ٹیم بھارت نے ہمیں چوک میں ایسے پچھاڑ دیا جیسے کسی فلم میں ایک ہیرو ایک سین میں دس بارہ بدمعاشوں کو پھڑکا دیتا ہے۔ کیا ہوا محسن نقوی آپ کی ٹیم تو 120رنز کا ہدف بھی پورا نہیں کر سکی۔ ایک بڑا میچ ایک آسان سا ٹارگٹ… جیت کے لیے صرف 120 رنز کا سوال تھا۔ پوری قوم ہاتھ اٹھائے لبوں سے قرآنی آیات کے ورد کے ساتھ دعائیں کر رہی تھی اور آپ کی بنائی ٹیم نے چند گھنٹے کھیل کے ساری عمر کے لیے ایک بدنما داغ لگا دیا… بھارت سے ہم نے ہارنا ہی تھا کہ ہم اس جیسی ٹیم کبھی نہیں بن پائے۔

میں 1974ء سے کرکٹ پر لکھ رہا ہوں۔ آج موجودہ ٹیم کی ناقص کارکردگی دیکھ کر میں یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ 1950ء سے لے کر موجودہ ٹیم تک کا جائزہ لوں تو پھر یہ ٹیم سب سے بری، سفارشی اور گھٹیا درجے کی ٹیموں سے بھی گئی گزری ٹیم جس کو آپ بابر الیون کا نام دیتے ہیں، یہ وہ ٹیم ہے جس پر سالانہ اربوں روپے لگ گئے ہیں جو سونے کے نوالے کے ساتھ کھاتے ہیں اور بدلے میں قوم کو ذلتوں کے ہار پہنا رہے ہیں۔ کوئی مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ محسن نقوی کی لاڈلی اور سلیکشن کمیٹی کی دلاری ٹیم نے ہمیں دیا کیا ہے۔ وہ کونسا بڑا اعزاز جو اس نے جیتا ہو کوئی ورلڈ کپ، کوئی T-20 کپ، کوئی چیمپئن ٹرافی۔ یار کوئی ٹھیک تو بتا دو تاکہ ہم اس کو اچھی ٹیم کا جواز دے سکیں

 

پاکستان کو بار بار ذلت آمیز شکست دلوانے والی ٹیم کا پہلے حساب کتاب تو کریں کہ یہ قوم کو کتنے میں پڑ رہی ہے اور کیا یہ اس قابل ہیں کہ ان پر ایک روپیہ بھی لگایا جائے اور یہ ہمارے قومی خزانے پر بہت بڑا بوجھ بن رہے ہیں۔

ناقابل برداشت بوجھ ہے کیا یعنی ہمارے چیف سلیکٹر اور کوچ 32/32لاکھ روپے ماہانہ سیلری، 30 ڈائریکٹرز اور جی ایمز 10 سے 15لاکھ روپے ماہانہ اور 5کوچ 30لاکھ کے حساب سے سالانہ دے رہے ہیں۔ اب آتے ہیں اس ٹیم پر جس کو سجنے سنوارنے کے لیے بھاری بھرکم سٹاف کو قومی خزانے سے پالا جا رہا ہے۔ اے کیٹگری کپتان سمیت 60 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ، بی کیٹگری کے لیے 45لاکھ روپے ماہانہ اور سی کیٹگری کے لیے 17لاکھ روپے اور جو مراعات ہیں اس کی مد میں ہر کھلاڑی اور عہدیدار کو الگ سے لاکھوں روپے دیئے جاتے ہیں۔

یہ اس ملک کی قومی ٹیم ہے جس میں بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی اور حکومتی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبنے والی غریب عوام جس کو اب شاید ایک وقت کی روٹی بھی نصیب میں نہیں ہوتی۔ جس قوم کی حکومت قرضوں پر چل رہی ہو۔ اس کی کرکٹ ٹیم جو صرف ذلتوں کا سامان اکٹھا کئے جا رہی ہے اس کو آپ دولت اور مراعات سے نواز رہے ہوں۔ خدا کی پناہ بھی تو وہ وجوہات میں کہ ہم نے کس طرح پاکستان کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ اصولی طور پر تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ذلت کے اس مقام تک پہنچانے والے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین سے لے کر سالانہ اربوں روپے کمانے والوں کے استعفے اب تک آ جانے چاہئیں تھے کہ اب اس قوم کو کتنی اور ذلت اور تحقیر دلوائیں گے۔ ورلڈ کپ 2023ء جو بھارت اور سری لنکا میں کھیلا گیا اس میں شکست کی بنیادی وجہ ٹیم کے اندر گروپنگ، سلیکشن کمیٹی کی غلط اور کوچیز کی ناکامی تھی۔ خیال تھا کہ ورلڈ کپ کے چھ ماہ بعد ہونے والے T-20ورلڈ کپ 2024ء میں ہم اپنی خامیوں اور کوتاہیوں پر قابو پا لیں گے مگر ہم ایسا نہ کر پائے۔ سیاست سیاست کے کھیل میں ہم نے ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے دیکھا۔ ٹیم کا بیڑہ غرق کر دیا ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے؟ یہ ایک سوال ہے کہ ورلڈ کپ جیسے ایونٹ کے لیے ایک سال پہلے اس کی تیاری ہوتی ہے اور ایک ٹیم کو لے کر چلتے ہوں اس پر محنت کی جاتی ہے اور یہ طے ہوتا ہے کہ اس ایک سال میں کرکٹ کے تینوں فارمیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر زیادہ سے زیادہ کرکٹ کو آرگنائزرڈ کرنا ہوتا ہے تاکہ کھلاڑی فارم میں رہیں۔ ہمارے ساتھ ہوا یہ کہ ہم ٹیم میں بار بار تبدیلیاں کرتے ہیں۔ کپتان بدل دیتے ہیں۔ صرف بھارت کی مثال دوں گا کہ ویرات کوہلی کے بعد روہت شرما کو کپتان مقرر کیا گیا۔ اب اس کی قیادت میں بھارتی ٹیم مختلف ممالک کے ساتھ T-20، ایک روزہ اور ٹیسٹ کے علاوہ ورلڈ کپ بھی کھیلی اور ہاری مگر انہوں نے کپتان کو کہا ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اسی طرح ہمارے سامنے کئی ممالک کی مثالیں ہیں کہ ایک ٹیم کئی کئی سال کھیل جاتی ہے۔

ہم ذلت آمیز شکست سے اس لئے بھی ہارتے ہیں کہ ہماری کرکٹ کا کوئی نظام ہی نہیں ہے جس ٹیم کو ورلڈ کپ جیسے ٹورنامنٹ میں شرکت سے قبل ایک دو ماہ قبل کوچ دیا جائے گا تو وہ خاک ٹیم کی تربیت کرے گا اور ہم نے موجودہ ٹیم کے لئے جن کوچز کا انتخاب کیا ہے ان کی کرکٹ میں اپنی خدمات کیا ہیں۔ کن ممالک سے وہ لوگ کوچنگ کے کورسز کرکے آئے ہیں۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی ناقص اور بدترین کارردگی کی ذمہ داری جہاں کپتان سے لے کر پندرہویں کھلاڑی تک عائد ہوتی ہے وہاں چیئرمین محسن نقوی بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں جو ابھی تک صرف تبدیلیوں میں لگے ہوئے ہیں جو دوستی کے چکر میں وہاب ریاض اور دوسرے ناکام سلیکٹرز کو اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں۔ ورلڈ کپ 2023ء اور T-20 ورلڈ کپ 2024ء میں ہم بہترین ٹیم اور بہترین کپتان میدان میں نہیں اتار سکے۔ اس ٹیم کی ناکامی کی بنیادی وجہ ٹیم کے اندر شدید اختلافات کا ہونا ہے کہ بابراعظم کو نیچا دکھانے کے لیے سینئرز کھلاڑی اپنا تو نقصان کر ہی رہے ہیں وہ ٹیم کو بھی تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں اور نقصان کس کا ہو رہا ہے پاکستان اور اس کے عوام کا جو اب بہت بددل ہو چکے ہیں۔ اعظم خان کی ایک مثال لے لیں۔ اس نے 13اننگز میں صرف 88سکور کئے اس لئے کہ وہ معین خان کا بیٹا ہے جس کی کرکٹ بیوروکریسی میں مضبوط لابنگ ہے اگر آپ نے ٹیم کے اندر صرف ’’خانوں‘‘ کو بھرتی کرنا اور ان کی صرف ایک دو اچھی پرفارمنس کی آڑ میں ہمیشہ کے لیے ساتھ رکھنا ہے تو پھر ختم کریں اس کھیل کو کیوں اربوں روپے صرف ہارنے پر لگائے جا رہے ہیں۔

اور آخری بات…!
ہم جناب وزیراعظم میاں شہبازشریف سے گزارش ہی کر سکتے ہیں کہ خدا کے لیے کرکٹ بورڈ اور اس کی بنائی ناکارہ ٹیم سے چھٹکارا دلوائیں۔ یہ قوم آگے ہی حالات کی ماری ہے اگر کھیل سے ایک بوند پانی اس کے لبوں پر آنے کو ہوتا ہے اور وہ بھی چھین لیا جائے لہٰذا بابر الیون کو فوراً گھر بھجوایا جائے۔

تبصرے بند ہیں.