تذکرہ اولیاء اور سیٹھ شہباز نور

81

شخصیت کاروباری ہو یا سیاسی، سرکاری ملازمت ہو یا کوئی سیاسی عدالتی ذمہ داری۔ یہ بات سب پر صادق آتی ہے کہ اگر پیسے کا نقصان ہوا تو سمجھیں کچھ نہیں بگڑا، اگر صحت خراب ہو گئی تو کچھ بگڑ گیا اور اگر عزت، اعتماد اور لوگوں کے بھروسے کو جھٹکا لگ گیا، کسی کی زبان پر اعتماد نہ رہا تو سمجھیں کہ اس کا کچھ باقی نہ رہا۔

شیخ شہباز نور جن کے کیریئر کا آغاز ایک کسٹم کلیئرنگ ایجنٹ سے ہوا۔ پروقار طریقہ سے کاروبار کیا اور اپنی ایک مثبت شناخت بنائی۔ شیخ شہباز نور سے سیٹھ شہباز نور لوگ ان کو اس لئے نہیں کہتے کہ وہ بہت زیادہ دولت مند یا بہت اثاثہ جات کے مالک ہیں بلکہ سیٹھ اس لئے کہ دل کے سیٹھ ہیں۔ انہوں نے اپنے دوستوں، عزیزوں اور تعلق والوں پر بہت خرچ کیا۔ میں نے سیٹھ شہباز نور کو کئی بار مالی اعتبار سے کاروباری لحاظ سے خسارے کے پاتالوں میں اترتے دیکھا لیکن ان کی ساکھ، اعتبار اور بات پر قائم رہنا ایک ایسی خوبی ہے کہ ان پر پھر سے رب العزت نے تنگی کی جگہ آسودگی دے دی۔ خوش لباس، خوش گفتار اور ایک عاجز انسان۔ ایک رازدان دوست، ایک فراخ دل شخص۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک دستخط کے ساتھ ان کو اپنی کتاب تحفہ دی۔ اعجاز شاہ، بریگیڈیئر ریٹائرڈ تو 20سال پہلے ان کے دوست تھے۔ سیٹھ شہباز نور کو جس بات نے گرنے نہیں دیا وہ محض یہ نہیں کہ وہ ہمیشہ اوپر والا رکھتا رہا۔ انہوں نے خرچ کیا انہوں نے کاروبار کیا، انہوں نے بہت کمایا بلکہ اس لئے زوال ان کا چہرہ نہیں دیکھ سکا کہ وہ دل و جان سے یقین رکھتے ہیں کہ زندگی کا ایک لمحہ ایک لمحے کا ایک ایک سیکنڈ اور نینو سیکنڈ اللہ رب العزت کے حکم سے ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ انسان کی اوقات اللہ کے حکم کی محتاج ہے۔ سرکاری غلامی کے زمانے میں وہ جانتے ہیں کہ میں نے الحمد للہ جہاد ہی کیا تھا۔ بڑے وقت کے فرعون، نمرود، یزید الفطرت مجھے ہی ٹارگٹ کرتے رہے مگر میں ان کو مخولئے سمجھتا تھا۔ اگلے روز کسی حوالے سے ان سے بات ہو گئی۔ پھر ان سے ملاقات بھی رہی۔ ان کی گفتگو میں شاندار تبدیلی دیکھی یعنی تقویٰ، جو انہوں نے جو مجھے اللہ پر بھروسہ، صرف اللہ کی بادشاہی، اللہ پر ایمان، اللہ کی قوت، اللہ کی رضا، اللہ کا حکم، اللہ کا رزق، اللہ کی شان، بس اللہ ہی اللہ۔ اس وقت میں اجازت چاہ رہا تھا۔ میں رک گیا اور ان سے درخواست کی کہ اللہ کی شان بیان کرتے جایئے۔ میں ایسا محو ہوا، ایسا محو ہوا یقین کریں ان کے مسلسل اللہ کی شان، حاکمیت، مرضی، بادشاہی اور آقا کریمﷺ کی شان پر نہ رکنے والی ایسی گفتگو تھی کہ اس کا اثر اور سحر میں نے کئی پہر محسوس کیا۔ انہوں نے داکٹر اسرار احمد صاحب کا فقرا بار بار دہرایا، جو رب کرے سو ہو، تاثیر کی حد یہ ہے کہ میں نے یہ اپنا فرض سمجھا کہ میں ان سے سنی گفتگو کا اپنی طبیعت اور مزاج پر ہونے والے اثر کا ذکر کروں۔ ایک دفعہ میرے ایک روحانی بزرگ تھے، اب دنیا میں نہیں رہے۔ جتنی دیر وہ دنیا میں موجود رہے میرے لیے باقاعدہ ایک ٹھکانا تھے۔ حضرت قبلہ قاری محمد عبدالوہاب صدیقی صاحب انہوں نے ساری زندگی تبلیغ میں گزاری۔ مشکل سے ایک مرلے کا گھر تھا۔ لکڑمنڈی لاہور رہائش تھی۔ محلے کی مسجد میں امامت اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی تھا۔ شاہدرہ میں بھی مدرسہ بنا لیا۔ ان کے چھوٹے سے گھر میں بیٹھ کر مجھے وہ سکون ملتا جو شائد کسی وزیراعظم کو وزیراعظم ہاؤس یا صدر کو ایوان صدر میں میسر نہ ہو۔ کسی بیوروکریٹ کو جی او آڑ میں نہ ہو اور یقینا نہیں ہوگا۔ ایک دن میں ان کے ہاں مسجد سب مسجد چھوٹی ہی تھی ملنے کی غرض سے گیا۔ نماز کے بعد وہیں پر اللہ اور اللہ کے نبی کریمﷺ کی باتیں سننا شروع ہو گیا۔ مجھے پیٹ میں درد سا محسوس ہوا جس کا میں نے اظہار کیا تو قاری صاحب کہنے لگے۔ میں دم کرتا ہوں۔ اب وہ دم کر رہے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ یار قاری صاحب کے پڑھے اور دم کا بھلا مجھ پر کیا اثر؟ جب انہوں نے دم مکمل کیا تو بات سنانے لگے کہ ایک نوجوان تھا۔ اس کے ایک بزرگ تھے یعنی وہ ان کا مرید تھا۔ وہ امریکہ چلا گیا واپس آیا تو اس کے بزرگ معمول کے مطابق صبح فجر کی نماز کے بعد اور اشراق سے پہلے لوگوں کو دم کر رہے تھے۔ مختلف وظیفے پڑھنے کو بتا رہے تھے۔ اس امریکہ پلٹ مرید نے کہا کہ حضرت صاحب سر درد اس کو ہے آپ کی پھونکوں کا اس پر کیا اثر ہو گا؟ کہتے ہیں۔ ان بزرگ نے اس نوجوان کی بڑی تعریف کی۔ تمہارے ہاں، رنگ، صحت، گفتار، سوچ، افکار، زاویہ نظر لاجواب ہے اور پھر لوگوں کو دم کرنے میں مصروف ہو گئے۔ پھر تھوڑی دیر بعد اس نوجوان کو گالیاں دینا شروع کر دیں اور سختی کے ساتھ بولے کہ بیٹھے رہو ورنہ تمام مریدوں سے کہہ کر تمہاری ایسی ٹھکائی کرا دوں گا کہ نانی بھی بھول جاؤ گے۔ پھر تھوڑی دیر بعد انہوں نے نوجوان سے پوچھا کہ جب پہلے میں نے تمہاری تعریف کی تھی تمہارے لیے عمدہ کلمات کہے تھے تو کیسا لگا تھا۔ وہ کہنے لگا کہ بہت اچھا۔ میرے بدن میں سرشاری راج کرنے لگی اور ایسی کیفیت کہ بیان نہ کر سکوں۔ بزرگ بولے کہ پھر بتاؤ کہ جب میں ابھی چند منٹ پہلے تمہیں گالیاں دیں بُرا بھلا کہا تمہاری بدتعریفی کی تو کیسا لگا؟ وہ نوجوان کہنے لگا کہ حضرت میری دماغ کی نسیں پھٹنے والی ہو گئیں۔ فشار خون بلند، دل کی دھڑکن تیز۔ میں نے بہت کوشش سے غصہ پر قابو پایا۔ آپ کا لحاظ رکھا اور خاموش رہا مگر میری اندرونی کیفیت اور طبیعت اب بھی نارمل نہیں ہوئی۔ بزرگ بولے کہ یہ دنیاوی کلام اگر میں نے تعریف کی تو تمہارے من میں بہار کا موسم چلنے لگا اور میں نے دشنام اور بدکلامی کی تو تمہاری حالت غیر ہوگئی۔ اگر اس دنیا میں مثبت اور منفی کلام کا تمہارے مزاج پر اثر انداز ہو سکتا ہے کہ کبھی تم خوشی کے ساتھ پھولے نہ سماؤ اور کبھی تمہاری حالت بگڑ جائے تو تم کیا سمجھتے ہو۔ اللہ کا کلام کچھ اثر نہیں کرے گا؟

میں نے قاری صاحب سے کہا کہ آپ کو الہام ہوا ہے؟ میں بھی ایسا ہی سوچ رہا تھا۔ وہ کہنے لگے نہیں۔ میں نے نہ جانے آپ کو یہ بات کیوں سنا دی۔ اس دن سے میرا اللہ کے کلام، اللہ کی شان کے بیان ہونے اور اس کا لوگوں کے مزاج اور دلوں پر اثر ہونے کا نیا انداز دیکھا جبکہ میرے آقا کریم ﷺ کا ذکر تو احباب گواہ ہیں ایسی بے خودی پیدا کرتا ہے کہ مسافتیں، مسافتیں نہیں رہتیں۔ بات چلی تھی شیخ سیٹھ شہباز نور کے تذکرے، اللہ کی شان بیان کرنے سے اور مجھے اپنے قاری صاحب کے ساتھ گزرے وقت اور واقعات یاد آ گئے۔ بہت سی باتیں اور کرامات ہیں۔ بات صرف یہ ہے کہ اگر اپنی اصلاح اور مشیت الٰہی درکار ہے مسلمہ اور مثبت باتوں کا اثر قبول کریں اور فرضی لوگوں اور باتوں سے اجتناب کریں۔ اللہ اور آقا کریمﷺ کی نسبت سے تعلق تا دم مرگ رہتا ہے۔میرے تعلق کی نسبت الحمدللہ یہ ہوا کرتی ہے۔ کچھ روحانی شخصیات ہیں ذکر کروں تو خوشبو کی طرح غائب ہو جایا کرتی ہیں مگر طبیعت اور مزاج ان کے تخیل سے معطر اور طیب ہیں۔

تبصرے بند ہیں.