آنکھیں کھلی رکھئے

24

پاکستان میں دستیاب انصاف ابھی سستا تو نہیں ہوا نہ ہی فوری ملنا شروع ہوا ہے لیکن اس حوالے سے کوششیں نظر آتی ہیں، انصاف کس طرح ملتا ہے اس کی راہ میں رکاوٹیں کیا کیا ہیں، انصاف مہیا کرنے والوں کی سوچ کیا ہوتی ہے ان کی مجبوریاں کیا ہوتی ہیں اس کی ایک تصویر مختلف مقدمات کی براہ راست ٹی وی کوریج میں نظر آتی ہے، یہ ٹی وی کوریج ابھی چند مقدمات تک محدود ہے اگر تمام عدالتوں میں چلنے والے تمام مقدمات کی ٹی وی پر براہ راست کر دی جائے تو مستقبل میں نظام انصاف کے لئے کی جانے والی کوششیں کے مزید مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ اس حوالے سے نکتہ آغاز کے طور پر جناب جسٹس اطہر من اللہ صاحب کی کوشش قابل تعریف ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں چلنے والے اہم مقدمات کی سماعت کے دوران عدالت میں موجود کارروائی دیکھنے والے جونیئر اور سینئر وکلا صاحبان کے علم میں اضافہ تو ہوتا ہے، براہ راست کارروائی ٹیلی کاسٹ کرنے سے وہ وکلا جو عدالت میں موجود نہیں ہوتے، ملک بھر میں موجود قانون کے طالب علم اور عام شہری بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس ’’آن لائن ٹیچنگ‘‘ سے حاصل ہونے والے فوائد کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ اس حوالے سے شاید حکومتی اخراجات میں اضافہ تو ہو گا لیکن اس کے بدل عوام کو جو کچھ ملے گا وہ بے بدل ہے۔

 

سائفر کیس پر نزع کا عالم ملک بھر نے دیکھا پھر اس کے انتقال کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے، اس حوالے سے ایک فریق کے پاس اپیل کی گنجائش موجود ہے جس کی بنا پر کہاجا سکتا ہے کہ ابھی اس کی تدفین نہیں ہوئی لیکن اعلیٰ عدالت کی براہ راست کارروائی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اپیل کے دوران اس مقدمے میں روح نہ پھونکی جا سکے گی۔ عجلت میں تیار کئے گئے مقدمات ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہیں، مگر حیرت اس بات پر ہے کہ مقدمہ تیار کرنے والوں نے اس کی تیاری کے لئے ماہرین قانون کی خدمات اس طرح حاصل کیں جس طرح ملزم اپنے دفاع کے لئے ماہرین کی خدمات حاصل کرتا ہے مگر سماعت کے دوران مقدمہ دائر کرنے والوں کی قابلیت کھل کرسامنے آ گئی۔

مقدمے کے بنیادی پہلو دو تھے جنہیں یقینا سوچ سمجھ کر بنیاد بنایا گیا تھا اول ایک سازش کے ذریعے ملکی مفادات کو نقصان پہنچایا گیا، قومی راز افشا کرنے کے قانون کے تحت ملزم کو سزا ملنا چاہئے، دوم اس کے اس فعل سے حکومت پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بگاڑ آیا جس کابہت نقصان اٹھانا پڑا۔

بتایا گیا کہ ملزم نے خفیہ سائفر جلسہ عام میں لہرایا، پوچھا گیا کہ ملزم نے جو بند لفافہ عوام کے سامنے لہرایا اس میں کیا تھا، کیا وہ لفافہ خالی بھی ہو سکتا ہے یا اس میں موجود سائفر کے بجائے کوئی سادہ کاغذ بھی ہو سکتا ہے، جواب ملا۔ جی اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا، سوال کیا گیا سائفر کہاں ہے، جواب ملامعلوم نہیں، کیا مقدمے کے ریکارڈ میں موجود ہے، اصل حالت میں یا اس کی کاپی منسلک ہے بتایا گیا جی نہیں۔ سوال اٹھایا گیا سائفر سزا دینے والے منصف نے دیکھا ہے جواب ملا نہیں، پوچھا گیا کیا سائفر انہوں نے دیکھا ہے جنہوں نے یہ الزام عائد کیا ہے، مدعی کے وکلا سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے سائفر خود دیکھا ہے جواب ملا جی نہیں، یوں الزام کی مکمل تصویر کچھ یوں سامنے آئی کہ جلسہ عام میں لہرائے جانے والے لفافے میں کیا تھا کچھ تھا بھی یا نہیں کسی کو معلوم نہیں، مقدمے کے ریکارڈ میں سائفر اصل یا کاپی کی صورت موجود نہیں جو اس قسم کے مقدمات میں بہت کچھ دیکھتے ہیں انہوں نے بھی سائفر کا دیدار نہ کیا گویا سب کچھ ہوا میں تھا لہٰذا یہ مقدمہ بھی ہوا میں معلق تھا، ہوائی مقدمے میں ملزم کو دس برس قید کی سزا سنا دی گئی، مقدمے میں جتنے شکوک نظر آئے کسی ایک شک کا فائدہ ملزم کونہ مل سکا۔

مقدمے کا دوسرا نکتہ تھا کہ امریکہ سے پاکستان کے تعلقات کو سخت نقصان پہنچا ہے، پوچھا گیا، کیا اس واقعے کے بعد امریکہ نے پاکستان سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کر دیئے جواب ملا جی نہیں، سوال ہوا کیا پاکستانیوں کے امریکہ جانے پر امریکہ نے پابندی عائد کر دی کیا امریکہ میں موجود درست دستاویز رکھنے والوں کو امریکہ سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا جواب ملا جی نہیں، پوچھا گیا کیا پاکستانی طلبا کے
وظائف ختم کردیئے گئے کیا ان کا امریکہ میں داخلہ ممنوع ہو گیا جواب ملا جی نہیں، پھر سوال اٹھا کہ کیا امریکی یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طلبا کو امریکہ چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا جواب آیا جی نہیں!

اہم ترین سوالوں میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا امریکہ نے پاکستان پر تجارتی پابندیاں عائد کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان سے اب کچھ بھی درآمد نہیں کرے گا اور کچھ برآمد نہیں کرے گا، جواب ملا جی نہیں۔ ہر سوال کا جواب تھا جی نہیں! جب پوچھا گیا کہ پھر بتایئے اس لفافے کے لہرانے سے پاکستان امریکہ تعلقات کو کیا ناقابل تلافی نقصان پہنچا اس کے اندر کیا تھا یہ کسی کو معلوم نہیں، لفافے میں ایک سادہ کاغذ تھا یا شاید وہ بھی نہ تھا اس سوال کا جواب بھی مل سکا، بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والے لاجواب ہوچکے تھے پس اعلیٰ عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ملزم کو دی جانے والی سزا معطل کرتے ہوئے اسے ان الزامات سے بری کر دیا۔

عدت میں نکاح کرنے کے مقدمے میں حدت اور شدت دونوں نظر آتی ہیں۔ اس مقدمے کا فیصلہ تو ہو چکا تھا بس سنانا باقی تھا اس موقع پر ایسی ہڑبونگ مچائی گئی کہ فیصلہ نہ سنانے کا جواز مل جائے، فیصلہ سنانے سے چند لمحے قبل عدالت کے معزز جج صاحب پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا جو اس مرحلے پر نہیں کیا جا سکتا اس کی سٹیج گزر چکی تھی لیکن اس نکتے پر غور نہ ہوا۔ اس مقدمے کا فیصلہ اب کسی اور روز سنایا جائے گا، فیصلہ کیا ہوگا یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ہم ایسے نظام میں رہتے ہیں جہاں ہوائی مقدمے میں لمبی سزائے قید، قتل نہ کرنے کے باوجود سزائے موت ملتی دیکھی اور دوہرے تہرے قتل کے ملزم بری ہوتے بھی دیکھے۔ انصاف اور قانون کے نام پر یہ بھی دیکھا کہ حکومتوں تختہ الٹ دینے والوں کے اقدام کو تحفظ ملا انہیں آئین کی ناپسند شقوں میں ترمیم کا اختیار بھی بخشا گیا، مخصوص نشستوں کی بندربانٹ بھی دیکھی جو شاید ایک جماعت سے تعلق رکھنے والے آزاد ارکان اسمبلی یا ان کے سیاسی مسکن کو نہ دی جا سکیں لیکن آئین اور قانون میں یہ کس نے لکھا تھا کہ اس صورت میں ان نشستوں کو فاتح سمجھی جانے والی سیاسی جماعتوں میں مال غنیمت کی طرح تقسیم کر دیا جائے۔

بھیڑ بکریاں سمجھے جانے والے عوام نے ابھی مختلف حوالوں سے کیا کیا دیکھنا ہے اس کا جواب جاری ماہ میں سامنے آ جائے گا بس دیکھتے جائیں آنکھیں کھلی رکھئے۔

تبصرے بند ہیں.