وزیر اعظم شہباز شریف آج کل چین کے پانچ روزہ سرکاری دورہ پر ہیں۔ ان کے اس دورہ کا مقصد مختلف تجارتی اور اقتصادی معاملات کو فروغ دینا، سی پیک (CPEC) کے تحت شراکت داریوں استحکام بخشنا اور B2B رابطوں کو مزید مضبوط بنانا ہے۔بلاشبہ موجودہ اقتصادی ماحول اور دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ روابط کے پیش نظر یہ دورہ بہت اہم اور بروقت ہے۔
اگرچہ پاک چین مضبوط تعلقات خصوصاً سی پیک (CPEC) جیسے منصوبے سے اندر ملک اور بیرون ملک کئی عناصر کو بہت زیادہ تکلیف رہتی ہے اور یہ عناصر دونوں ملکوں کو قریب لانے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں کرتے۔ دہشت گردوں کی کھلی کارروائیوں کے علاوہ سال 2014 میں ایک دھرنے اور احتجاج کی آڑ میں چین کے صدر کے دورہ پاکستان میں رخنہ ڈالنا اور پھر سال 2018اورسال 2022 کے درمیان پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے دوران سی پیک (CPEC) جیسے اہم اور گیم چینجر منصوبے کو رول بیک کرنا اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔
واضح رہے کہ سال 2013 میں اپنے قیام کے بعد سے سی پیک (CPEC) منصوبہ نے پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم جزو کے طور پر کام کیا ہے۔ لیکن اس منصوبہ کے لیے بد ستور توانائی اور انتہائی لگن کی ضرورت ہے۔ توقع ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے دورے سے اربوں ڈالر کے اس پروگرام کو نئی قوت ملے گی اس کے علاوہ سرمایہ کاری اور زیرتکمیل منصوبوں میں تیزی بھی آئے گی۔
پاکستان کی کمزور معیشت کے پیش نظر شہباز شریف کا چینی فرموں کے ساتھ B2B رابطوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ ایک عملی اور دانشمندانہ قدم ہے۔ ملاقاتوں کے متوقع نتائج میں تیل اور گیس، توانائی، آئی سی ٹی، اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز جیسی صنعتوں میں نمایاں فرموں کی نمائندگی کرنے والے اعلیٰ درجے کے چینی ایگزیکٹوز کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اقتصادی روابط کو مضبوط کرنا بھی شامل ہے۔ اس تعاون کے نتیجے میں پاکستان میں چینی مینوفیکچرنگ کی سہولیات پیدا ہونے کے امکانات ہیں جس سے پاکستانی صنعت کی ترقی میں مدد کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
اگرچہ چین نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے ہر معاملہ میں وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن پھر بھی یہ کہنا زیادہ غلط نہ ہو گا کہ سیکورٹی خدشات ، خاص طور پر ایسے واقعات جن میں چینی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، نے پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات متاثر کیا ہے۔ اس تناظر میں خوش آئند بات یہ ہے کہ CPEC پر حالیہ مشترکہ رابطہ کمیٹی (JCC) کے اجلاس میں، پاکستانی حکام نے چین کو حفاظتی اور احتیاطی تدابیر میں بہتری کے حوالے سے کئی یقین دہانیاں کرائی ہیں۔
حالیہ برسوں میں، پاکستان چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) Belt and Road Initiative میں ایک اہم شراکت دار کے طور پر ابھرا ہے، جو کہ ایک عالمی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کا منصوبہ ہے اور اس کا مقصد روابط اور اقتصادی تعاون کو بڑھانا ہے۔ بدقسمتی سے، اس شراکت داری کو، خاص طور پر پاکستان میں کام کرنے والے اور مقیم چینی شہریوں کی حفاظت اور سلامتی سے متعلق، مسلسل چیلنجوں کا سامنا رہا ہے۔
عسکریت پسندوں کی جانب سے چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے حملے تو 2004 سے بھی پہلے سے ہو رہے ہیں اور شائد اسی وجہ سے تاثر یہ ہے کہ چینی شہری کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ویسے تو چینی شہریوں کے ساتھ پیش آنے والے چھوٹے بڑے واقعات کی تفصیل خاصی طویل ہے لیکن درج ذیل کچھ واقعات بہت اہم ہیں۔ 2008 اور 2009 میں پاکستان میں چینی سفارت کاروں کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن اسے ناکام بنا دیا گیا۔23 نومبر 2018 کوبی ایل اے نے کراچی کے کلفٹن میں واقع چینی قونصل خانے پر حملہ کیا۔ حملے میں تین مسلح افراد نے قونصل خانے میں داخل ہونے کی کوشش کی اور پولیس پر فائرنگ کی، حملے میں دو پولیس اہلکار مارے گئے۔21 اپریل 2021 کو پاکستانی طالبان کی جانب سے کوئٹہ میں ایک خودکش بم حملہ کیا گیا جس کا مقصد پاکستان میں چین کے سفیر نونگ رونگ کو نشانہ بنانا تھا۔ بمباری کے وقت نونگ رونگ ہوٹل میں موجود تھے تاہم پانچ دیگر افراد ہلاک ہو گئے۔ 14 جولائی 2021 کو خیبر پختونخوا میں ایک بم دھماکے میں نو چینی کارکن ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ اس وقت ہوا جب دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک گاڑی چینی انجینئرز کو تعمیراتی سائٹ پر لے جانے والی بس سے ٹکرا دی گئی۔ اس واقعہ میں دو پاکستانی فوجی بھی مارے گئے۔ 20 اگست 2021 کو بی ایل اے کی جانب سے گوادر میں چینی شہریوں کو لے جانے والی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں دو بچے ہلاک ہوئے۔ 26 اپریل 2022 کوبی ایل اے کی جانب سے جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ (Confucius Institute) میں خودکش حملہ کیا گیا جس میں تین چینی انسٹرکٹر اور ان کا پاکستانی ڈرائیور ہلاک اور ایک چینی انسٹرکٹر زخمی ہوا۔26 مارچ 2024 کو خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں ایک خودکش بم دھماکے میں پانچ چینی شہری اور ایک پاکستانی ہلاک ہو گئے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی کاوشوں سے اقتصادی اور تجارتی فوائد کاحصول تب ہی ممکن ہے کہ اگر پاک چین دوستی کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنے والی قوتوں کو سختی سے کچل دیا جائے اور پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اور تعاون کے لیے سازگار ماحول کو فروغ دینے کے لیے مزید مستحکم انداز میں کوششیں کی جائیں۔مزید برآں، خطے میں سرگرم انتہا پسند گروپوں اور جرائم پیشہ نیٹ ورکس کی طرف سے لاحق خطرے سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس کے اشتراک، انسداد دہشت گردی اور قانون کے نفاذ میں پاکستان اور چین کے درمیان قریبی تعاون اور شیئرنگ کو بڑھایا جائے۔اگرچہ پاکستانی حکومت نے، ملک کی اقتصادی ترقی اور سفارتی تعلقات میں ان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، چینی شہریوں کو زیادہ موثر انداز میں تحفظ فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، خدشات کو دور کرنے کے لیے مشترکہ سکیورٹی آپریشنز، نگرانی میں اضافہ اور اضافی سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی تجویز بھی دی گئی ہے، تاہم ملک میں اعتماد اور تحفظ کی فضا پیدا کرنے کے لیے سماجی بے چینی، اقتصادی کمزوریوں اور سیاسی عدم استحکام جیسے بنیادی مسائل کو حل کرنا بدستور ایک بڑا چیلنج ہے۔
تبصرے بند ہیں.