کسان کی بے بسی

25

امسال گندم کی اچھی فصل نے بھی کسان کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا،ماضی کے نرخوں کے حساب سے وہ اپنے اپنے تخمینے لگانے میں مصروف اور سمجھتے تھے کہ اب انکی’’ چاندی‘‘ ہوگئی مگر سرکار نے اِن سے ہاتھ کردیا،انھیں فصل کے دام نہیں ملے حکومت نے جو خود طے کئے ،بڑی وجہ وہ درآمدی گندم بتائی جاتی ہے جونگران سرکار نے بیرون ملک سے منگوائی تھی۔ میڈیا کی وساطت سے جب ہر سو کسان کی حالت زار پر کہرام مچا تو عقدہ کھلا کہ گندم کی قلت کے خدشہ کے پیش نظریہ پھرتی دکھائی گئی ہے،جس میں بڑا ہاتھ افسر شاہی کا ہی ہے جس نے آمدہ فصل کا اندازہ کئے بغیر ہی شاہی فرمان جاری کیا،جس کی بھاری قیمت کسان کو ادا کرنا پڑ رہی ہے،نئی سرکار نے اس کا حسب روایت نوٹس لیا ، تاہم کسان جمع خاطر رکھے کہ اس سے رتی برابر فرق پڑنے والا نہیں البتہ پنجاب سرکار نے کسان کارڈ دینے کا جو’’نیا کارڈ ‘‘ کھیلا ہے،اسکی فراہمی میں ابھی وقت درکار ہے۔

آسمان سے گرنے اور کھجور میں اٹکنے کی پوزیشن میں اس وقت کسان ہے ،فصل نہ بکنے سے جیب خالی ہے،شادی بیاہ،دیگر ضرویات اور نئی فصل کی کاشت کے تمام خواب چکنا چور ہوگئے ہیں، ہمیشہ سے مقروض یہ محنت کش بڑی پریشانی میں گرفتار ہے،کھاد ،بیج،پانی اور دیگر اخراجات کے لئے پھر سے کسی نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑے گا، خواہ وہ سرکار کا ادارہ ہی کیوں نہ ہو۔ گندم درآمد کرنے والوں کو سزا اگرمل بھی جائے جس کا امکان کم ہی ہے تو بھی کسان کی کوئی اشک شوئی نہیں ہوگی، پہلی بار ایسانہیں ہوا ہے، کسان ہمیشہ سے پرشکوہ رہا کہ جب بھی نئی فصل کی آمد آمد ہوتی ہے، پالیسی ساز ذاتی مفاد کے لئے وہ جنس درآمد کروا دیتے ہیں اس کے بعدمقامی کسان اپنی فصل کی فروخت کے لئے مارا مارا پھرتا رہتاہے۔

امریکی ادارے فوڈ اینڈ کلچر آرگنائزیشن ،ورلڈ بنک،مقامی اداروں نے زراعت کے ایشوز پر رپورٹ تیار کی اور سرکار کی زرعی پالیسیوں کو حرف تنقید بنا یاہے کہ ہرحکومت کا جھکائو ہمیشہ ملوں اور صنعت کاروں کی طرف رہا ہے،کسان بیچارا تو بے بس ہوتا ہے وہ گندم پیدا کرتا ہے مگربرآمد نہیں کرسکتا لیکن مل مالکان آٹا باہر بھجوا سکتا ہے،اسی طرح وہ گنا تو کاشت کرتا ہے مگر چینی کو ایکسپورٹ کرنا اس کے بس میں نہیں یہ ’’خدمت‘‘ شوگر مل مالکان انجام دیتے ہیں، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے زمینداربھی آمدن کے نئے ذرائع دریافت کرنے کے لئے اب صنعت و حرفت میں قدم رکھ چکے ہیں۔
کسان چاول کاشت کرتا ہے مگر بڑا زمیندار اپنی صنعت کے لئے اسے خرید کرتا ہے اس لئے کہ اب وہ مل اونر بھی ہے، وہ استحصال جو متحدہ ہندوستان میں ’’ہندو بنیا‘‘ عام مسلم کسان کا کیا کرتا تھا ،اب وہ صنعت کار اور مڈل مین کر رہا ہے، کسان کی یہی مجبوری اس کی بے بسی کے مترادف ہے۔ کسان کے پاس وہ وسائل نہیں جو اس کو اپنی فصل کی اچھی قیمت دلوا سکیں اس کا فائد ہ بخوشی آڑھتی اُٹھاتا ہے، کسان جس کا مقروض رہتا ہے، زرعی معاشی پالیسی کا یہ ایسا چکر ہے جس کاپہیہ صنعت کار کی گود میں پیسہ جبکہ کسان کے دامن میں غربت ڈالتا ہے۔

کسان کو یہ زعم ہے کہ اسکی آواز پارلیمنٹ میں سنی جاتی ہے اس لئے کہ عددی اعتبار سے زیادہ ا راکین کا تعلق زراعت سے ہے، منتخب ہونے اور سیاسی افق پر چھانے والے دہی علاقہ جات سے ہوتے ہیں، ان کے مقابلہ میں کاروباری طبقہ اور پروفیشنل کی تعداد کم ہے، اب تک کے زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ان عوامی نمائندگان کو عام کسان سے کوئی غرض نہیں۔ یہ وہ اقتدار کلاس ہے، اس نے کبھی غربت کا سامنا نہیں کیا ہے، اس کے مسائل ’’وکھری ٹائپ‘‘ کے ہیں، اسے کھاد ،سپرے، بیج بوقت ضرورت باآسانی ادھار مل جاتاہے، پارلیمان کا یہ طبقہ عام کسان کی معاشی، سماجی،مالی مسائل سے لاتعلق ہے۔

عوامی دبائو پر اگر کبھی کسان کے حق میں آواز پارلیمنٹ میں اٹھی بھی تو موثر نہ ہوسکی، کیونکہ بڑی بڑی جاگیریں رکھنے والے انکے ہم منصب ہیں۔ سرکار سمیت اس قماش کے لوگ متوسط کسان کے دکھ کو بھلا کیسے محسوس کر سکتے ہیں جو مہنگی بجلی،کھاد اور پانی استعمال نہ کرنے کے سبب اچھی فصل نہیں اُٹھا سکتا حالانکہ بنیادی ضروریات اسکی بھی دیگر کسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔

مشرقی پنجاب رقبہ کے اعتبار سے مغربی پنجاب سے کم ہے مگر یہ ہندوستان کا اناج گھر کہلاتا ہے،رقبے اور آبادی میں بڑے ملک کی زرعی ضروریات پوری کرنے کے پیچھے جواہر لال نہرو کی وہ دوراندیشی ہے جس نے بیک جنبش قلم وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری کو دیس نکالا دیا تاکہ زیادہ سے زیادہ کسان اپنی کھیتی پر خوب محنت کرے، انڈیا میں کسانوں کی تحریکوں نے سرکار کو مجبور کیا ہے کہ وہ انھیں سہولیات دیں فصلوں کے نقصان کا بوجھ ا ٹھائے۔ ہمارے مقدر میں 1932 سے یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکٹیبل کے انتخاب کا آغازاب تلک انجام کو نہیں پہنچا ہے، پنجاب کے1937 کے الیکشن میں گدی نشینوں، جاگیر داروں، وڈیروں کی غیر معمولی کامیابی نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اگر بااثر افراد کو جماعت میں جگہ نہ دی تو انکی سیاست بھی دم توڑ جائے گی، ہماری پارلیمنٹ اسی مائنڈ سیٹ پر وجود میں آتی ہے سیاسی جماعتیں بھی عام شہری مگر ایماندار کے بجائے بااثر افراد کو ٹکٹ دیتی ہیں جنہیں عام کسان سے کوئی سروکار نہیں جو زراعت کی ترقی میں مثل ریڑھ کی ہڈی ہے۔

عام کسان کو زمین اور پانی کے ٹیسٹ کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے، نامیاتی کھاد دستیاب ہے نہ ہی زرعی آلات ارزاں نرخوں پر کاشتکاری کے لئے ملتے ہیں،اسی کا فیض ہے کہ سبزی، پیاز، نآلو، مرچ، ٹماٹر تک درآمد کرنا پڑتے ہیں ،شعبہ زراعت کے دفتری ”بابو“ بھی بڑے زمینداروں کے لئے نرم گوشہ رکھتے اور انھیں سہولیات فراہم کرنے کے لئے بے تاب رہتے ہیں۔کسان کی دکھ بھری آواز ایوانوں تک اُسی صورت پہنچ سکتی ہے،جب سننے والے بھی انھیں کی کلاس سے تعلق رکھتے ہوں، ورنہ عالمی مالیاتی اداروں کی کڑی شرائط ان کے غم میں اضافہ تو کر سکتی ہیں کمی نہیں لاسکتی۔
ایک طرف زمین کی وراثتی تقسیم کسان کی معاشی،سماجی حیثیت کم کر رہی ہے دوسری جانب وڈیرہ، جاگیر دار، گدی نشین اب صنعت کار بن رہا ہے، پالیسی سازی کی وجہ سے کسان کی فصلوں کی بے توقیری میں اِس کا ہاتھ بھی اتنا ہی ہے جتنا سرمایہ دار اور مڈل مین کا ہے۔ یہ فصل کی نہیں بلکہ ریاست کے کسان کی توہین اوربے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

تبصرے بند ہیں.