فیصلہ تو ہو کر رہے گا

24

مارگلہ کی پہاڑیوں پر لگی آگ تو فوراً نظروں میں آ گئی، ہنگامی حالات میں فائر فائٹرز نے اپنا کام شروع کیا، ٹینکرز اور فضا سے آگ بجھانے والے فوم کا استعمال کیا گیا، پہاڑیوں سے ذرا نیچے کچھ ایوانوں میں حدت بڑھ رہی ہے جس کا شاید ادراک اس وقت ہو گا جب آگ پھیلے گی، آگ پھیلنے سے پہلے اسے بجھانے کے انتظامات کرنے کا ہمارے یہاں رواج نہیں، پھیلتی آگ پر تیل چھڑکنے والے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں، آگ لینے کے بہانے آنے اور گھر کا مالک بننے کی خواہش رکھنے والے بھی موقع اور باری کے انتظار میں ہیں۔

آگ لگا دینے والی دو تقریریں دو بھائیوں نے کی ہیں دونوں کا تعلق لاہور سے اور ایک ہی سیاسی جماعت سے ہے، تقریر میں ایک بھائی نے ماضی کی کالی بھیڑوں کا ذکر کیا دوسرے بھائی نے زمانہ حال میں پائی جانے والی کالی بھیڑوں کا ذکر نہایت جذباتی انداز میں کیا ہے اور بتایا ہے کہ ان کالی بھیڑوں نے ان پر کیا کیا ظلم ڈھائے، یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زمانہ حال سے تعلق رکھنے والی کالی بھیڑیں اب ان کے سیاسی مخالفین کو سہولتیں بہم پہنچا رہی ہیں جو درحقیقت ان مظلوموں پر ایک نیا ظلم ہے، تقاریر کے ذریعے کی گئی سنگ باری سے کس کس کا کتنا نقصان ہوا ہے اس کا تخمینہ نہیں لگایا جا سکا لیکن آئندہ چند روز میں اس کی زد میں آنے والوں کی طرف سے ردعمل آ سکتا ہے۔ امکان ہے بلا کر سرزنش کر کے اور آئندہ کے لئے محتاط رہنے کی ہدایت کر کے واپس بھجوا دیا جائے کیونکہ انہیں جس اہم کام کے لئے منتخب کیا گیا ہے وہ کرنے کا کوئی اور اہل نظر نہیں آتا، قسمت کے دھنی ایسے ہی ہوتے ہیں، کل کے نااہل آج اہل قرار پائے ہیں۔ سنگ باری کرنے والوں کے خلاف یوں بھی کارروائی کا امکان کم نظر آتا ہے کہ کالی بھیڑوں نے بیک وقت دو محاذ کھول رکھے ہیں۔ انہوں نے ایک طرف کی آنکھ مکمل بند کر رکھی ہے جبکہ دوسری طرف کی آنکھ سے جتنا نظر آتا ہے اسے کافی سمجھ لیا گیا ہے، کالی بھیڑیں راولپنڈی اور اسلام آباد دونوں کو ٹکریں مارتی نظر آتی ہیں ان کا خیال ہے کہ وہ اپنی مسلسل ٹکربازی سے دونوں کو گرا لیں گی، ماضی میں کبھی ایسا ہوا ہے نہ آئندہ ہو گا، البتہ یہ قرین از قیاس ہے کہ بھیڑوں کے اپنے سر پھٹ جائیں وہ پھر بھی محاذ آرائی سے باز نہ آئیں تو سوتے میں کوئی ماہر نائی آئے اور انہیں مونڈ کر رکھ دے، بھیڑ کی اون اتار دی جائے تو اندر سے بھیڑ کا کارٹون برآمد ہوتا ہے جو کسی کو ایک آنکھ نہیں بھاتا، یہ بھیڑ کالی تھی یا سفید، اون کو بھیڑ کے لباس کا درجہ حاصل ہے اون اترنے کا مطلب ننگا ہونا ہے۔ ننگا ہونے کے بعد کیا وقعت رہ جاتی ہے اہل دانش خوب جانتے ہیں، یہی معاملہ انسان کے ساتھ ہے، وہ بھی دنیا کے سامنے ننگا ہو جائے تو پھر اس کے پلے کچھ نہیں رہتا، مستقبل قریب میں کچھ مقدمات کا فیصلہ ہونا ہے جس کے کئی لوگ ہمیں ننگے نظر آئیں گے، لیکن ایسا ہونے کے بعد اگر کسی نے دلیل دی کہ ننگا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہم دنیا میں بھیجے گئے تو ننگے ہی تھے، تو ایسے شخص کا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ دوران عدت نکاح کے ایک مقدمے میں میاں بیوی کو سزا سنائی گئی، سزا کے خلاف اپیل ان کا حق تھا انہوں نے اپنا حق استعمال کیا، ایسے میں خاتون کے سابق شوہر بھی میدان میں آ گئے انہوں نے اپنے طرز عمل سے ثابت کیا کہ قسمت اور غیرت کسی بھی وقت جاگ سکتی ہے، موصوف ایک اعلیٰ سابق سرکاری افسر ہیں، افسری بھی ایسی تھی جہاں مال و زر کی فراوانی تھی۔ وہ زمانہ نوکری میں جن عہدوں پر رہے، ان کی اہمیت اس وقت دوچند ہو جاتی ہے جب من پسند سٹیشن بھی مل جائے۔ وہ ماہر کرامات بیگم کے شوہر تھے۔ جنہوں نے کبھی کسی رکاوٹ کو اپنی منزل کے درمیان حائل نہ ہونے دیا۔ دونوں میاں بیوی میں بے مثل ہم آہنگی تھی، ہر قسم کے کٹھن کام بیگم کے سر رہے۔ میاں صرف نوکری کرتے رہے بلکہ فوجی زبان میں کہیں تو صرف نوکری بناتے رہے، انہیں نوکری بنانے میں وہ درجہ حاصل تھا جو کسی شریف آدمی کو پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی نہیں ملتا۔ وقت ہنسی خوشی گزار رہا تھا۔ اچانک ان کی بیگم نے انہیں بتایا کہ انہیں روحانی طور پر حکم ہوا ہے کہ ان سے طلاق لے کر کسی اور سے شادی کر لی جائے۔ میاں نے یہ سنا تو از حد پریشان ہوئے کہ ایسی ماہر کرامات بیوی اب ڈھلتی عمر میں پھر کہاں ملے گی لیکن جب انہیں بتایا گیا کہ نیا خاوند کون ہوگا تو طلاق دینے پر رضامند ہو گئے۔ یوں اس خاتون کی شادی ’’جتنی اریجنڈ میرج‘‘ بن گئی کسی اور کی کم ہی بنے گی، طلاق کے بعد دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے لگے پھر ایک اور روحانی حکم کے مطابق ایک خاص تاریخ سے قبل بیگم صاحبہ نے نکاح ثانی کر لیا اور مدت عدت کو نظرانداز کر دیا، عدالت میں مقدمے کا مرکزی نکتہ یہی ہے جس سے ہمیں غرض نہیں۔ بیگم صاحبہ کے خاوند اب سابق خاوند ہو چکے تھے لیکن ان کا دل ماضی کی طرح سابقہ بیگم کے ساتھ ہی دھڑکتا رہا۔ جب کبھی بیگم صاحبہ کی دوسری شادی بلکہ عمر رسیدگی کی عمر میں شادی کے چونچلوں اور کردار پر کسی نے انگلی اٹھائی وہ اس کے دفاع میں خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے۔انہوں نے بتایا کہ انہوں نے زندگی بھر اپنی سابق بیگم سے زیادہ نیک چلن عابدہ زاہدہ اور معاملہ فہم عورت نہیں دیکھی۔ وہ اپنی بیگم کو طلاق دے کر اس کی زندگی سے نکل گئے ہیں لیکن اس کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ احترام ہی احترام کے چکر میں وہ ہر قسم کے فائدے اٹھاتے رہے، انہیں اپنی بیگم کے نئے شوہر میں بھی کوئی خرابی نظر نہ آئی بلکہ وہ نئے شوہر کو پرانی بیگم کا حد درجہ تابعدار پاتے تو اس کی بھی تعریف کرتے نظر آتے۔ سابق بیگم اور اس کے نئے شوہر کے بارے میں وہ جب بھی کلمہ خیر کہتے تو عوامی صفوں میں ان کے درجات بلند ہوتے۔ موجودہ خاوند سے بوجوہ علیحدگی حاصل کرنے کی متمنی خواتین انہیں آئیڈیل مرد اور آئیڈیل خاوند سمجھتی اور اپنے شوہروں کو ان کی تقلید پر مائل کرنے کی کوشش کرتیں، عام خواتین کی اس وقت کی خاتون اول تک رسائی ہوتی تو وہ ان سے نسخہ کیمیا دریافت کرنے کی کوششیں کرتیں مگر عام لوگوں کی خاص لوگوں تک رسائی آسان نہیں ہوتی۔

پرانی بیگم کے نئے شوہر کا اقتدار تقریباً چار برس چلتا رہا۔ سب حال مست بنے رہے۔ اقتدار ختم ہوتے ہی سابق شوہر کی غیرت جاگ اٹھی ہے، اسے اب خیال آیا ہے کہ اس کی عمررسیدہ سابق بیگم کو ورغلایا گیا ہے اس سے زبردستی نکاح کیا گیا ہے اور یوں ایک شہنشاہ نے دولت اور حکومت کا سہارا لیکر اس کی محبت کا صرف مذاق ہی نہیں اڑایا بلکہ اس کا گھر تباہ کر دیا۔ اس کی زندگی اجاڑ دی، اسے سخت سزا ملنا چاہئے اور اس جرم میں شریک جرم سابق بیگم کو بھی سزا ملنی چاہئے، سزا ہو چکی ہے تو برقرار رہنی چاہئے، فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تھی کہ نیا ڈرامہ رچا کر فیصلہ ملتوی کرایا گیا لیکن فیصلہ تو ہو کر رہتا ہے۔ کالی بھیڑیں کریں یا سفید بھیڑیں کریں صرف اس مقدمے کا نہیں اور بہت سے مقدموں کا بھی۔

تبصرے بند ہیں.