انا للہ و انا الیہ راجعون

36

کیا میں اس بات کی وکالت کر رہا ہوں کہ فوج کی طرف سے عدالتوں کو اسی طرح تحریری فیصلے موصول ہونے چاہئیں جس طرح نواز شریف کو نااہل کرنے کے لئے موصول ہوتے رہے یا عدلیہ کو اسی طرح ٹریٹ ہونا چاہئے جس طرح جنرل عاصم منیر کی سپہ سالاری اور قاضی فائز عیسی کی چیف جسٹسی سے پہلے ہوتی رہی، نہیں نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے، میں عدلیہ کو آزاد اور خود مختار دیکھنا چاہتا ہوں،کسی بھی قسم کی مداخلت سے پاک، یعنی بیویوں، ساسوں اور کرشوں کے دبائو سے بھی پاک، دنیا کی دس بہترین جوڈیشریز میں سے ایک ۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا آزاد اور خود مختار عدالتیں قومی اور ریاستی مفادات سے بھی آزادہوتی ہیں۔ میں بار بار حیران ہوتا ہوں جب بار بار یہ سنتا ہوں کہ ہماری عدالتوں نے ستائیس سو ارب روپوں کے ٹیکسوں کی وصولی پر حکم امتناعی دے رکھا ہے جب ہمیں ایک، ایک سو ارب روپے کی اشد ضرورت ہے اور ہم کبھی آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں کہ قرض دو اور کبھی دوست ممالک کے پاس کہ سرمایہ کاری کے نام پر کچھ مدد کرو۔

میرے سامنے ایک مرتبہ پھر کورکمانڈرز میٹنگ کی پریس ریلیز کھلی پڑی ہے اور اس نے میری آنکھیں بھی کھول رکھی ہیں اور دماغ کی بتی بھی جلا رکھی ہے۔ میں ایک صحافی ہوں اور تجزیہ کار۔ میں دیکھ رہاہوں کہ ہماری فوج نے جب سے فارمیشن کمانڈرز کی سطح پر جا کے فیصلہ کیا ہے کہ سیاست اور عدالت میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرنی اس وقت سے اس کا وہی حال ہوچکا ہے جیسا کسی شیر کا اپنے ناخن اور پنجے کٹوا دینے کے بعد ہوسکتا ہے۔ نو مئی کا واقعہ ایک ایسا سانحہ ہے جس نے بھارت میں جشن کاسماں پیدا کر دیا اور کیوں نہ کرتا کہ کچھ عاقبت نااندیشوں نے ایک کلٹ کا حصہ بن کے اپنی ہی فوج پر وہ حملے کئے جو بھارت بھی ستر برس میں نہیں کر سکا تھا۔ وہ لاہور کے جمخانہ میں جشن منانا چاہتا تھا مگر عزیز بھٹی شہید جیسے بہادروں نے اسے بی آر بی ہی کراس نہیں کرنے دی تھی۔ مجھے نہایت ادب اور افسوس کے ساتھ کہنے دیجئے کہ ہماری عدالتیں نو مئی کے مجرموں کی انسانی حقوق کے نام پر محافظ بنی ہوئی ہیں اور میرا سوال ہے کہ کیا اس ملک میں آئینی اور انسانی حقوق صرف قاتلوں، ڈاکوؤں اور دہشت گردوں کے ہیں۔ کیا ان کے کوئی آئینی اور انسانی حقوق نہیں جوان کا نشانہ بنتے ہیں۔ پریس ریلیز میںلکھا ہے، ’قانون کی عمل داری قائم کرنے اور نو مئی کے مجرمان کے خلاف فوری اور شفاف عدالتی اور قانونی کارروائی کے بغیر ملک ایسے سازشی عناصر کے ہاتھوں ہمیشہ یرغمال رہے گا‘، ’فورم نے اعادہ کیا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں لازم ہے کہ نو مئی کے منصوبہ سازوں، مجرموں اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والوں اور سہولت کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے‘۔ میں نے پریس ریلیز کو ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھا اور مجھے جماعت اسلامی پاکستان مجلس شوریٰ کی قراردادیں یاد آ گئیں۔ اہم ملکی ایشوز پر وہ قراردادیں محض زبانی جمع خرچ ہوتی ہیں اور کوئی ان پرعمل کرنے تو کیا پڑھنے اور سمجھنے تک کی زحمت نہیں کرتا۔ میں بطور صحافی دیکھ رہا ہوں کہ پاک فوج ہر مہینے کور کمانڈرز میٹنگ کے بعد یا کسی بھی تقریب میں آرمی چیف کے خطاب کے بعد نو مئی کے مجرموں کے حوالے سے سخت اعلانات اور مطالبے کرتی ہے توا س کے ساتھ ہی ان منصوبہ سازوں کو کوئی نہ کوئی نیا ریلیف مل جاتا ہے اور اب تو یہ سسٹم اتنا آٹو میٹک ہوچکا ہے کہ اس مرتبہ پریس ریلیز کے جاری ہونے سے پہلے ہی نو مئی کے دومزید مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کو بے گناہی کا سرٹیفکیٹ مل گیا،کہا گیا استغاثہ نہ کوئی ثبوت پیش کر سکا اورنہ ہی کوئی گواہ۔

ایک وقت تھاکہ فوج آئین سبوتاژ کرتی تھی، مارشل لا لگاتی تھی، وزیراعظموں کوجیلوں میں پھینکتی تھی اوراس کے بعد انہی عدالتوں سے ان کی پھانسیوں اور عمر قیدوں کے احکامات ، آئین میں ترمیم تک کرنے کے اختیارات آمریت کی جائزیت کے ساتھ مفت حاصل کر لیتی تھی مگر اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ایک برس سے زائد ہو گیا کہ فوج بار بار کہہ رہی ہے کہ جن لوگوں نے اس کے ہیڈکوارٹرز پرحملہ کیا ، شہدا کی یادگاروں کو مسمار کیا انہیں ہی سزا دے دو مگر ان کو بھی سزا نہیں دلوا پا رہی۔ میں پہلے بھی لکھ چکا کہ اگر جی ایچ کیو طرز پر یہی حملہ سپریم کورٹ پر ہوجاتا اور جس طرح لاہور کا کورکمانڈرہاؤس جلایا گیا اسی طرح لاہور کی ہائیکورٹ جلا دی جاتی تو کیا ہماری معزز و مکرم عدالتیں ایک برس تک مجرموں کو اس طرح اپنے تحفظ میں لئے بیٹھی ہوتیں جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں میں سنبھال کے بیٹھتی ہے۔ نوازشریف کے کارکنوں نے جسٹس سعید الزماں صدیقی کی آئین سے تجاوز اور پارلیمنٹ میں مداخلت کے خلاف چند نعرے لگائے تھے تو انہیں عبرت کا نشان بنا دیا گیا تھا مگر یہاں حملوں کے بعد سپریم کورٹ کہتی ہے، گڈ ٹو سی یو۔ میں آج بھی دیکھ رہا ہوں کہ سپریم کورٹ میں غیر معمولی اقدامات ہورہے ہیں۔ ایک سزا یافتہ سیاسی رہنما جیل سے مقدمات کی سماعت کا مہمان خصوصی ہے۔ کیا دنیا بھر کی عدالتوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یاد کیجئے کہ جب ٹوئن ٹاورز پر حملہ ہوا ،امریکا نے افغانستان کو تورا بورا بنا کے رکھ دیا تو کیا امریکی عدالتوں نے افغانستان کا ساتھ دیا یا پینٹاگون کا۔ مجھے کہنے دیجئے کہ پاکستان میںتیزی کے ساتھ طاقت کا محور تبدیل ہو گیا ہے اور کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی وجہ ایک سپہ سالار کی آئین اور قانون پسندی ہے، نو مئی کے بعد وہ میچور رسپانس ہے جس نے فوج کی طرف سے مارشل لا لگانا تو کیا اپنے لئے انصاف تک حاصل کرنا مشکل بنا دیا ہے۔

میں پھر کہوں گا کہ مجھے وہی فوج پسند ہے جو آئین کے تحت اپنا کردارادا کرتی ہے، جو کسی ایک سیاسی جماعت کی نہیں پوری قوم کی فوج ہے، جو سیاستدانوں کو فون نہیں کرتی اور جو عدالتوں کو فیصلے لکھ کر نہیں بھیجتی مگر دوسری طرف کہنے دیجئے کہ مجھے عدالتیں بھی وہی پسند ہیں جو حملہ آوروں کی نہیں بلکہ ان کی محافظ ہوں جن پر حملے کئے گئے۔ وہ گم شدہ افراد کے لئے ضرور حکم جاری کریں مگر امن کے لئے کام کرنے والوں کی تضحیک نہ کریں، انہیں ذلیل نہ کریں، انہیں تماشا نہ بنائیں۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیںکہ خود فوج کے اند ر حملہ آوروں کے لئے نرم گوشے رکھنے والے ہیں اور اگر ایسا ہے تو پھر تیار رہناچاہئے کہ کل کوئی مذہبی گروہ بھی اٹھے گا اور اپنے رہنماکے اشارے پر نو مئی کا ایکشن ری پلے کر کے دکھا دے گا کیونکہ انہیں علم ہوگا کہ اس پر کون سی سز ا ملنی ہے، کون سا کسی نے عبرت کا نشان بننا ہے، کچھ عرصہ سرکاری مہمان رہنا ہے، دیسی مرغ اور بکرے اُڑانے ہیں اور وکٹری کے نشان بناتے ہوئے باہر نکل آنا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!

تبصرے بند ہیں.