زمین کا جھگڑا

17

ویسے تو زن، زر اور زمین کا جھگڑا بہت پرانا ہے، لیکن کبھی کبھی اس میں جوار بھاٹے کا وہ عمیق چکر بھی چلتا ہے جو اپنی لپیٹ میں آنے والوں کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا، متاثرہ زندگیوں کے نشانات ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔لیکن یہ سب تب تک ممکن نہیں جب تک معاشروں میں انصاف ناپید نہ ہوجائے۔ ایسے میں ظالم کا زور کمزور پر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ستم زدہ کا کچھ بھی تو محفوظ نہیں رہتا اور ظالم ہر شے پر قبضہ کرتے چلا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر ارباب اختیار اور انکے ماتحت پورا نظام بھی ظالم کی مدد پر کمر بستہ ہوجائے تو ایسا دیس غریب کے لیے کسی جہنم کی مانند ہوتا ہے جہاں وہ روز جیتا اور روز مرتا ہے۔ چند روز قبل ڈی آئی جی انوسٹیگیشن لاہور عمران کشور سے ملاقات ہوئی انہوں نے کچھ ایسے انکشافات کیے جو حکومتِ وقت اور ارباب اختیار کے لیے سوچ کے نئے زاویوں کو وا کرسکتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب میں اس وقت 40فیصد انسانی قتل کی وجہ زمین اور اراضی کے تنازعات ہیں۔جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اسکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کئی کئی دھائیوں تک رہائش گاہیں اور اراضیاں خالی پڑی رہتی ہیں لیکن اصل مالک وہی رہتے ہیں۔

ہر کسی کے پلاٹ یا اراضی کے ایک ایک انچ کی واضح نشاندہی ہوتی موجود ہوتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے زمین کی پیمائش کے لیے جدید ترین نظام سے مدد لی جاتی ہے۔ اپنی پوسٹنگ کا ایک واقعہ سناتے ہوئے عمران کشور نے کہا کہ ماضی میں انہیں چند مختلف اضلاع میں تعیناتی کاموقع ملا۔ عجیب اتفاق تھا کہ قتل کے کچھ مقدمات کی تفتیش کے دوران ان کے سامنے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوئی کہ ایک ایسا بھی پٹواری ہے جو جہاں جاتا ہے وہاں پر قتل ہوجاتے ہیں۔ اور ان تمام قتل کے واقعات کا براہ راست تعلق ان زمینوں اور زرعی اراضی سے ہے جن کی غلط نشاندہی اس پٹواری نے کسی نہ کسی دور اور انداز میں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے کہ پاکستان میں اتنی اراضی موجود نہیں جتنی کہ محکمہ مال کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ یعنی ایک ہی قطعہ اراضی کا کئی ناموں پر اندراج اور دوسروں کی رہائش گاہوں اور زمینوں پر با آسانی قبضہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر یہ ریکارڈ ہی درست کرلیا جائے تو یقیناً یہ چالیس فیصد قتل کے واقعات مکمل طور پر نہ سہی، بڑی حد تک کم ضرور ہوسکتے ہیں۔

اگر پنجاب میں یہ صورت حال ہے تو باقی ملک کے حالات یقینا کسی سے ڈھکے چھپے نہ ہونگے۔لیکن یہ کہنا انسانی قتل کی بڑی وجہ محکمہ مال اور پٹواریوں کی ناانصافیاں اور لوٹ مار ہے درست نہیں ہوگا۔ یقینا اس میں محکمہ پولیس اور چند دیگر اداروں کی ملی بھگت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حقائق تو یہ ہیں کہ زمینوں کے قبضوں کا کاروبار اسقدر منافع بخش ہوچکا ہے کہ اعلیٰ پولیس افسران ہوں یا ماتحت پولیس اہلکار اوپر سے لیکر نیچے تک بیشتراپنی وردی اور عہدہ کا استعمال کرکے جیبیں گرم اور اپنے اثاثہ جات میں تیزی سے اضافہ کررہے ہیں۔ ان کا بڑا مقصد ریٹائرمنٹ سے قبل زیادہ سے زیادہ زمینیں اور اراضی اپنے اور اپنے بچوں کے نام منتقل کرنا ہے۔ایک سابق آئی جی پنجاب نے جن کا بیشتر وقت خود کو ایک بااصول اور دیانتدار افسر ثابت کرنے میں گزرتا تھا لاہور کینٹ کے علاقہ میں کروڑوں روپے مالیت کی کوٹھی پر قبضہ کرنے کے لیے تمام حدود قیود سے گزر گئے۔ کوٹھی مالکان کیخلاف درخت چوری کا پرچہ تک درج کرادیا۔ ان کی جان تب تک نہ چھوڑی جب تک وہ کوٹھی ان کے حوالے کرکے راہ فرار اختیار نہ کرگئے۔ ماضی کے ایک سی سی پی لاہور کا حال کچھ یوں تھا کہ نوکری کے آغاز پر ان کے پاس محض چند ایکڑ زمین موجود تھی تاہم جب ریٹائر ہوئے تو اربوں روپے کے مربعوں کے مالک بن چکے تھے۔

اس وقت کئی پولیس افسران لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور کراچی سمیت ملک کے طول و عرض میں عوام کو لوٹنے والی جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے یا تو براہ راست حصہ دار ہیں یا سرپرست بنے ہوئے ہیں۔ اعلیٰ پولیس افسران کے اشاروں پر قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرنے والے پولیس اہلکارو ں کو من پسند تعیناتیاں ملتی ہیں۔ چاہے انکے خلاف لاکھ انکوائریاں ثابت ہوجائیں، کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس کی واضح مثال لاہور سے تعلق رکھنے والے حسنین حیدر اور راشد امین بٹ سمیت وہ چند انسپکٹرز بھی ہیں جن کے خلاف خفیہ اداروں نے اعلیٰ پولیس افسران کو اپنی حالیہ رپورٹس میں واضح طو ر پر بتایا کہ سی آئی اے لاہور میں اپنی مسلسل تعیناتیوں کے باعث ان انسپکٹرز  نے شہر کے جرائم پیشہ گروپس، شوٹرز، بڑے منشیات فروشوں اور قبضہ گروپوں کے ساتھ تعلقات استوار کر رکھے ہیں اور وہ نہ صرف جرائم کی باقاعدہ سرپرستی کرتے ہیں بلکہ وہ پنجاب میں ہونے والے بڑے جرائم میں بھی کہیں نہ کہیں بذات خود شریک جرم ہیں۔ تاہم حیرت انگیز طور پر پنجاب پولیس کے وہ اعلیٰ افسران جو ان دنوں عوامی خزانے کو محکمہ پولیس پر ذاتی جاگیر سمجھ کر دونوں ہاتھوں سے لٹار ہے ہیں،  نے خفیہ اداروں اور اپنے ہی پولیس افسران کی محکمہ پولیس میں موجود ان کالی بھیڑوں کے متعلق واضح طور لکھی گئی رپورٹس کو ہرگز بھی در خور اعتناء نہیں سمجھا۔ بلکہ ان انسپکٹرز کوسی آئی میں ڈی ایس پیز کی اہم سیٹوں پر تعینات کر دیا۔ گویا عوامی امانتوں کی حفاظت پر ’راہزنوں‘ کو بٹھا دیا گیا۔

پاکستان کا شمار اس وقت دنیاکے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں دوسروں کی اراضی ہتھیانا کچھ مشکل امر نہیں اس کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ آپ کے طاقتور اداروں میں سرپرست ہوں اور ہتھیاروں سے لیس کچھ غنڈے اور باقی کی مدد محکمہ مال والے کر دیتے ہیں۔ پھر اراضی کے اصل مالک کے پاس بس یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ یا تو وہ اپنی جائیداد اونے پونے میں قبضہ گروپوں کے حوالے کردے یا پھر عدالتوں کے چکر لگا لگا کر ساری عمر خوار ہوتا رہے۔

تبصرے بند ہیں.