آپ زندگی کو دھوکہ دے رہے ہیں

19

آجکل گلوکارہ نمرہ کا یہ گیت بہت مقبول ہے۔
توں صبح وی پاک ہوا ورگا
توں آندے جاندے ساہ ورگا

یہ گیت سنتے ہی گاؤں کی صبح یاد آ جاتی ہے کہ ایک گاؤں ہی تو رہ گئے ہیں جہاں تازہ ہوائیں پاک اور صاف ہوتی ہیں۔ آپ کو میری بات سے اتفاق کرنا ہوگا کہ شہروں کے مقابلے میں ہمارے گاؤں کی زندگی بہت خوبصورت ہوتی ہے۔ حد نظر کھیتوں کی ہریالی، صبح سویرے چلتے ٹیوب ویل، تمام دن کنوؤں سے پانی کا نکالنا اور کھیتوں کو سیراب کرنا، شہر کے بڑے سٹوروں کے مقابلے میں گلیوں کی پرچون کی دکانوں پر سودا سلف خریدنے کے ساتھ دکاندار کی طرف سے مفت میں ٹافی کا ملنا…… گاؤں کی رجو اور پینو کا شام سویرے درختوں پر باندھے رسہ پر جھولے لینا، شام کو کبڈی، کشتی اور والی بال کے مقابلے…… اب یہ تو سب کچھ ماضی بن گیا ہے اور ماضی ہی تو خوبصورت ہوتا ہے جب یہ سب چیزیں اور زمانہ سستا تھا…… اس زمانے کے لوگ اچھے تھے…… دوست دوست ہوتا تھا۔ پھر نجانے کیا ہوا پھر زمانہ بدلا اور زمانے کے لوگ بدلے، زمانے کے حالات بدلے، کام بدلے، سوچیں بدلیں …… رسم و رواج بدلے اور تو اور کھانے پینے کے انداز بدلے اور کھانے بھی بدلے۔ وہ کیا دور تھا جب ماں باپ اور بھائی، تہواروں پر عید کارڈ، چوڑیاں، کپڑے، جوتے خریدتے وقت کتنے خوش ہوتے تھے۔ گلی گلی شور ہوتا کہ عید ہے، وہ بھی کیا وقت تھا چائے میں ڈبو کر روٹی اور بسکٹ کھاتے تھے۔ آج خوشی سستی تو پریشانی بہت مہنگی ملتی ہے۔ دراصل ہوا یہ کہ ہم نے اپنے پیاروں، اپنے دوستوں اور اپنے رشتہ داروں کو شام کو چائے پر بلانا چھوڑ دیا اور آپس میں بندھن جوڑنے کا بڑا تعلق توڑ بیٹھے۔ کل ہم دو دوست ایک دوسرے کو ماضی یاد دلا رہے تھے۔ میرے دوست کا مؤقف تھا کہ ایک وہ بھی وقت تھا جب آپ کو خوشی بہت آسانی سے مل جاتی تھی۔ دوستوں سے ملکر، عزیز رشتہ داروں سے ملکر، کوئی چھوٹی سی نیکی کرکے یا کسی کا راستہ صاف کرکے، کسی کی مدد کرکے۔ خربوزہ میٹھا نکل آیا، تربوز لال نکل آیا، آم لیک نہیں ہوا، ٹافی کھالی، گرم گرم سموسے لے آئے، گرم جلیبیاں کھالیں، سکول میں داخلہ مل گیا، پاس ہوگئے، میٹرک کرلیا، ایف اے کرلیا، بی اے کر لیا، ایم اے کرلیا، کھانا کھالیا، دعوت کرلی، شادی کرلی، عمرہ اور حج کرلیا، چھوٹا سا گھر بنا لیا، کبھی امی ابا کیلئے نیا سوٹ لے لیا اور شام کو بہن کیلئے جیولری لے لی، بیوی کیلئے وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے، پھر اولاد ہو گئی، اولاد بڑی ہوگئی اور اس اولاد کی شادیاں کر دیں، پھر نانے نانیاں بن گئے، پھر دادے دادیاں بن گئے، اس زمانے میں سب کچھ آسان، سب لوگ خوش تھے۔پھر کیا ہوا کس کی نظر لگ گئی ہم نے خود کو بدلنا شروع کر دیا۔ خوشی کے بدلے ہم نے پریشانی ڈھونڈنا شروع کردی، بچہ کونسے سکول داخل کراناہے اور وہ پوزیشن لے گا، نمبر کتنے ہیں۔ شادی کا مسئلہ ہو تو پہلے پوچھا جاتا ہے کہ لڑکا کرتا کیا ہے، اس کے پاس گاڑی کونسی ہے، اور وہ کتنے کی ہے، اس کی تنخواہ کیا ہے، کپڑے برانڈڈ چاہئیں۔ ہم سے ہمارے اپنے دور ہو گئے، آج شاید ہی مصروف زمانے میں ہمارے بچوں کو فوج کے عہدوں کا پتہ ہو، مگر آج ان کو یہ پتہ ہے کہ ڈی ایچ اے کونسے شہر میں ہیں، گھر کتنے کنال کا ہو، پھر آرچرڈ سکیمز آگئیں، گھر ہماری اوقات سے بھی بڑے ہو گئے، اور ہم چھوٹے چھوٹے گھروں سے دور دور ہو گئے، ذرائع آمدن نہیں بڑھے پر قرضوں پر گاڑیاں، موٹر سائیکل، ٹی وی، فریج، موبائل اور کریڈٹ کارڈ بن گئے پھر ان کے بل، بجلی کا بل، پانی کا بل،گیس کا بل، موبائل کا بل، سروسز کا بل، پھر بچوں کی وین، بچوں کی ٹیکسی، بچوں کا ڈرائیور، بچوں کی گاڑی، بچوں کے موبائل، بچوں کے کمپیوٹر، بچوں کے لیپ ٹاپ، بچوں کے ٹیبلٹ، وائی فائی، گاڑیاں، جہاز، فاسٹ فوڈ، باہر کھانے، پارٹیاں،پسند کی شادیاں، دوستیاں، طلاق پھر شادیاں، بیوٹی پارلر، جم، پارک، اس سال کہاں جائیں گے، یہ سب کچھ ہم نے اختیار کئے اور خوشیوں کی بجائے دکھ سمیٹے اور اپنی طرف سے ہم زندگی کا مزہ لے رہے ہیں جبکہ یہ مزے ہمارے گلے پڑے ہوئے ہیں۔ اسکے بدلے میں کیا آپ کو پتہ ہے آپ نے تمام خاندانی خوشیوں کو کھو دیا ہے۔ جب یہ زندگی بہت سادہ تو خوشی کی مقدار کا تعین ناممکن تھا۔اب اسی طرح دھوم دھڑکا تو بہت ہے۔ اس کے ساتھ پریشانی کا بھی کوئی حساب نہیں جو خوامخواہ ہم نے دکھاوے کیلئے پال رکھی ہیں۔ اپنی زندگی کو سادہ بنائیے، پرانے اور خاندانی تعلق بحال کیجئے، سب کو دوست بنائیے، سب کی دعوت گھر پر کیجئے۔ خوشی ہرگز بھی چارٹر طیارے میں سفر کرنے میں نہیں ملتی۔ کبھی محبت بکھیرنے کے لیے ہمسائے کی بیل تو بجائیے۔ اس سے ملئے مسکرائیے، دوستوں سے ملئے دوستی کی باتیں کیجئے، کبھی فرصت کے لمحات میں پرانے وقت میں جائیے جب ایک ٹافی کے دو حصے کرکے کھاتے تھے،فانٹا کی بوتل آدھی آدھی پی لیتے تھے۔ آؤ اس ماحول میں چلیں جہاں سب کیلئے ایک ہی چائے بنتی ہے ملائی مار کے، چینی ہلکی پتی تیز۔ خوش رہنے کے لیے بچوں جیسے بن کے تو دیکھئے، ماں باپ سے محبت کرکے تو دیکھیں، بہنوں کیلئے تحفے تو خریدیں۔ عیدوں اور شب برأتوں پر عیدی تو لے کر جائیں پھر آپ جو خوشیاں سمیٹیں گے ان کی قیمت کا آپ اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔

زندگی آپ کا بار بار امتحان لیتی ہے۔ آزماتی ہے کہیں آسانیاں دیتی ہے اور کہیں مشکلات میں بھی گھیرے رکھتی ہے۔ اب یہ کام آپ کا ہے کہ اس کو کس قدر آسان بنانا ہے۔ آپ اس کو جتنا آسان بناتے جائیں گے یہ اتنا ہی آپ کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی طرف لے جائے گی، کبھی آپ نے یہ گیت سنا ہے۔
وے میں چوری چوری تیرے نال لا لیاں اکھیاں
آپ بھی محبت بھری نظروں سے سبکو دیکھنا شروع کر دیں۔ یقین جانیں آپکی زندگی بدل جائیگی۔

یہ محبت کیا ہے جو کوششوں یا محنت سے نہیں ملتی۔ یہ عطا ہے یہ نصیب ہے بلکہ یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے کہ محبت میں انسان اپنی تمام خوشیاں نچھاور کر دیتا ہے اور آج کسی نے یہ سوچا ہے کہ دنیا کہاں سے کہاں جا رہی ہے۔ یہ سب لوگ کہاں سے آ جا رہے ہیں۔ ہر طرف آوازیں ہی آوازیں کیا کچھ سنائی دے رہا ہے۔ ایک شور و غل ہے نہ کوئی کسی سے بات کر رہا ہے نہ کوئی کسی کی بات سنتا ہے۔ ہر طرف بھیڑ ہی بھیڑ ہے۔ ایک آنا جانا لگا ہوا ہے کہ ہم نے محبتوں کی جگہ نفرتوں دوستوں کی جگہ دشمنیوں اور پیار کی جگہ غصہ نے لے لی ہے۔

اور آخری بات……

دراصل زندگی اپنے اندر ہی اپنے محاسب کرتی ہے، انسان کو جھنجھوڑتی ہے اور آج انسان کے پاس وقت نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو وقت نہیں دے رہا تو دوسروں کو کیا وقت دے گا۔ وہ خوشیوں کی بجائے دکھ خرید رہا ہے۔
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
جس شان توں شاناں سب بنیاں

تبصرے بند ہیں.