صحافت اور مثبت سوچ کے حامل صحافی

52

صحافت! لفظ صحیفہ سے نکلا ہے اور صحیفہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ قرآن مجید میں لفظ ”صحیفہ“ آٹھ مقامات پر آیا ہے۔ اس سے لفظ صحافت کی تشکیل ہوئی قرآن مجید میں قرطاس و قلم کا ذکر بھی موجود ہے۔ لہٰذا اسی لیے صحافت کو پیغمبری پیشہ بھی کہا جاتا ہے۔ تخلیق آدم ؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن خوبیوں سے سرفراز فرمایا ان میں علم اور اظہار خیال کی صلاحیت سرفہرست ہے۔ چنانچہ انسان بول کر اور لکھ کر اظہار خیال کرتا چلا آ رہا ہے۔ اعجاز نطق اور قوت تحریر ہر دور میں بہترین انسانوں کی نمایاں خوبیاں شمار ہوتی رہیں، صحافت بھی انہی دو صلاحیتوں کے اظہار کا نام ہے۔ صحافی کو ہر دور میں ایک نمایاں مقام حاصل رہا ہے اس کی وجہ عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ صحافی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور عوامی مسائل اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ ایک صحافی کو سچ بولنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، کیونکہ ایک صحافی کے کالم یا فیچر پر حکمرانوں کے ایوانوں میں ہلچل پیدا ہوجاتی ہے۔ سچ زہر پینے اور جنون تیاگ دینے کا نام اور خود اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پینے کا مرحلہ قیس اور سقراط سے بھی آگے کا ہے اور جو لوگ اس سنگلاخ مرحلے کو سر کر جاتے ہیں وہ تاریخ میں ہیرو بن جاتے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے صحافتی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا تھا ”صحافت کو کاروبار نہیں بلکہ قومی خدمت کا موثر وسیلہ سمجھا جائے، یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جسے عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں عدل و انصاف کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔“ پاکستان سمیت دنیا بھر میں سچ بولنے اور لکھنے کے جرم میں صحافیوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا کیونکہ حق و باطل کی جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ صحافت سچائی، حق گوئی اور داد رسی کی خصوصیات کی حامل رہے تو پیشہ پیغمبری ہے اور اگر کسی کی بلاوجہ عزت اچھالنے یا بلیک میل کرنے کے لیے استعمال ہو تو شیطانیت اور ابلیسیت بن جاتی ہے۔ ایک اچھا صحافی مورخ بھی ہوتا ہے اور مصور بھی کیونکہ وہ معاشرے کے رجحانات اور رویوں کو ریکارڈ پر لاتا ہے اور یہی ریکارڈ اس قوم اور معاشرے کی تاریخ بنتی چلی جاتی ہے۔ آج کل اکثر اخبارات اور ٹی وی چینل چونکہ کاروباری ادارے بن چکے ہیں اس لیے احقاق حق کے بجائے سنسنی خیزی، ہراسمنٹ، استحصال اور بلیک میلنگ کا نام صحافت رکھ دیا گیا ہے۔ ان حالات میں اچھی اور بامقصد صحافت کو بدنام کاروباری صحافت کے درمیان فرق کرنا انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ آج چند لوگ جو لفظ صحافت کے ”ص“ سے بھی واقف نہیں ہیں وہ ہاتھ میں مائیک پکڑ کر اور گلے میں کسی ڈمی اخبار کا پریس کارڈ ڈالے بالخصوص یوٹیوبر صحافت کا بیڑا غرق کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ حکومت کو فیک نیوز، بے ہودہ اور بے حیائی پر مبنی انٹرویوز، ریاست اور فوج کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرنے والے ان جعلی صحافیوں اور کاپی پیسٹر کالم نگاروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنی چاہیے جو عوام میں منفی باتوں اور مایوسی کو فروغ دے کر لوگوں میں نفرت پروان چڑھا رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسے بہت سے صحافتی ادارے اور صحافی موجود ہیں جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی عوام کے اندر امید پیدا کیے ہوئے ہیں جو حقیقی معنوں میں صحافت کو قومی فریضہ سمجھ کر ادا کر رہے ہیں ان صحافتی اداروں میں ایک اہم نام روزنامہ ”نئی بات“میڈیا گروپ کا بھی ہے جس نے ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دیا ہے اور اس کا سارا کریڈٹ چیف ایڈیٹر ”نئی بات“ میڈیا گروپ پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالرحمان صاحب اور ان کی پوری ٹیم کو جاتا ہے کہ جنہوں نے ہمیشہ ہر حال میں قلم کے جہاد کو جاری رکھا ہے۔ میں صحافت میں نجم ولی خان صاحب سے ہمیشہ بہت متاثر رہا ہوں، ان کی تحریریں پاکستانیت، اسلامیت اور انسانیت کا مظہر ہوتی ہیں۔ یہ عوامی مسائل پر نہ صرف بات کرتے ہیں بلکہ ان کے کالمز اور تجزیوں میں ان کے حل بھی موجود ہوتے ہیں۔ آپ بہت منفرد شخص ہیں۔ انسان دوست اور اللہ کی مخلوق سے محبت کرنے والے، نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنا تو کوئی ان سے سیکھے۔ زاہد رفیق احمد ایڈیٹوریل ایڈیٹر بھی کمال کے انسان ہیں جن کے لہجے کی چاشنی انسانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔ بے شک نئی بات میڈیا گروپ کا ایک ایک فرد قابل تعریف ہے، یہ صحافت کے وہ روشن چہرے ہیں جنہوں نے ہمیشہ مثبت صحافت کو پروان چڑھایا اور زرد صحافت کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے۔ جنہوں جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق بلند کیا، جنہوں نے نوجوانوں کے اندر جذبہ حب الوطنی کو فروغ دیا۔ جنہوں نے مفادات کی صحافت کاخاتمہ کر کے خدمت کی صحافت کی مثال قائم کی ہے۔ نجم ولی خان صاحب ایک کالم بعنوان ”نیو نیوز کے نو سال“ میں لکھتے ہیں کہ ”کوئی میری نظر سے پوچھے تو صحافت صرف اور صرف عوام کی خدمت کا نام ہے۔ صحافی غریب، مظلوم عوام اور حکمرانوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ صحافت سوسائٹی کے آئینے کا کام کرتی ہے اور اگر یہ آئینہ ہی دھندلا ہو تو عکس درست نظر نہیں آتا۔ مجھے یہ چیلنج دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ آج کوئی بھی اٹھے اور ہمارا احتساب کرے، ہم سنسنی خیزی نہیں کرتے، ہم جھوٹ نہیں بولتے، ہم کسی پر الزام نہیں لگاتے، ہم کسی کو گالی نہیں دیتے، ہمیں جو درست لگتا ہے اسے ببانگ دہل درست کہتے ہیں اور جو غلط لگتا ہے اسے ڈنکے کی چوٹ پر غلط، اسے ہم سے بہتر پاکستانیوں کی حقیقی آواز کوئی سنائی نہیں دے گی جو ملک میں آئین، قانون اور جمہوریت کی بالادستی چاہتے ہیں۔ جو عوام کے وسائل کو عوام پر خرچ ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو ملک بھر میں ڈویلپمنٹ کے پراجیکٹس چاہتے ہیں اور ان کی تیزی سے شفافیت کے ساتھ تکمیل۔ ان سب کے اوپر چیئرمین چوہدری عبدالرحمان کی ایک ہی گائیڈ لائن ہے کہ ہم نے ہمیشہ ہیرو کو ہمیشہ ہیرو کہنا ہے اور ولن کو ہمیشہ ولن۔ یہ درست ہے کہ ہم نے غیر جانب دار رہنا ہے، ہر کسی کے موقف کو جائز اور مناسب کوریج دینی ہے مگر اس غیر جانب داری کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مہنگائی کے خلاف آواز بلند نہ کریں، کرپشن کے خلاف ثبوتوں کے ساتھ خبریں نہ دیں، بد نیتی اور بد عملی کو ایکسپوز نہ کریں“۔ یقین کیجئے ان کے کالم کا ایک ایک لفظ حقائق پر مبنی ہے، ورنہ بتائیے کہ اس دور میں کون ہو گا؟ جو خود اپنا حساب دینے کی بات کرے۔ امریکہ کا ایک مشہور صحافی جوزف پلٹرز کہتا ہے۔ ”اصلاحات اور خوشحالی کیلئے ہمیشہ جنگ کیجئے، بدعنوانی اور خاص کر ناانصافی کو کبھی برداشت نہ کیجئے، تمام فریقوں کے جذبات کا ہمیشہ خیال رکھیں کبھی کسی ایک جماعت یا پارٹی کے موقف کی حمایت قطعی نہ کیجئے، عوام کا حق غصب کرنے والے اونچے طبقات کی سختی سے مخالفت کیجئے، غریبوں کے ساتھ ہمدردی کیجئے، ہمیشہ عوامی بہبود کیلئے خود کو وقف کر دیجئے، غلط پر تنقید کرتے ہوئے کبھی مت ڈریں خواہ وہ کسی بھی طرف سے کیوں نہ ہو“۔ میری دعا ہے کہ نئی بات میڈیا گروپ جیسے تمام ادارے قائم و دائم رہیں۔ آمین

تبصرے بند ہیں.