غزہ کے لوگو، سوال کرنا

42

کسی زخمی، بھوکے کتے کی دردناک موت پر ہاتھوں میں بینر اٹھا کر سڑکوں پہ احتجاج کرنے والا مغرب 35 ہزار اشرف المخلوقات کی بے گناہ موت پر چپ سادھے بیٹھا ہے۔ گنیز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ کے اعداد و شمارکے مطابق 9 ستمبر 2017 کو قریب،30,000 افراد تل ابیب میں ایک ’’انیمل پریڈ‘‘ کے لیے جمع ہوں، ان کا مؤقف یہ تھا کہ جانوروں کی کھالیں ادھیڑنے سے گریز کریں۔اب تل ابیب نے غزہ کو شہر سے قبرستان بنا چھوڑا ہے۔ عورتیں ، بچے، بوڑھے، بے سرو سامانی کی کیفیت میں تڑپ تڑپ کر کائنات کے خالق سے مدد مانگ رہے ہیں، کیوں کہ دنیا ان کی امداد کو پہنچنے سے قاصر ہے، ہاں لوگ میکڈونلڈ کی کافی کا مگ ایک ہاتھ میں تھامے دوسرے ہاتھ سے ٹویٹر پہ تھریڈز تو ڈال سکتے ہیں ، مگر اپنے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑ نہیں سکتے۔ حیرت ہے ان تیس ہزار چلتی پھرتی لاشوں کے مردہ دلوں پہ جن کے لیے جانوروں کی کھال ادھیڑنا تو قابل مزمت ہے مگر مٹی سے اٹے بیجان انسانی وجود کا ملبے کے ڈھیر تلے دبا ہونا بس ایک عام سی بات ہے۔ ممالک کی چپ ایک طرف، دوسری جانب انٹر نیشنل لاز کا سٹیکر ماتھے پہ چپکاے اقوام متحدہ، اس رکھیل کے موافق ہونٹ سیے کھڑی ہے جس کی اوقات نہیں ہے اپنے مائی باپ کے آگے سر اٹھانے کی۔ قیام امن کی خاطر معرض وجود میں آنے والے ادارے کی نظروں کی سامنے ایک ملک لاشوں کے انبار لگائے کھڑا ہے اور ادارہ امن کا ڈھول گلے میں ڈالے پیٹ رہا ہے۔قریب بیس لاکھ فلسطینی بے گھر ہیں۔ صیہونی جارحیت کا عالم تو یہ ہے کہ جبالیہ اور رفح پناہ گاہ پر بمباری کی جا رہی ہے۔ خالق عرض و سماں کی دنیا میں ایسا ستم برپا ہے کہ 15 ہزار بچے بھی شہید کر دیے ,کھلے آسمان تلے، بے یار ومددگار فلسطینی آخر جیتے جاگتے، سانس لیتے، انسان ہیں۔

آیئے اس ساری صورتحال کو زرہ اقوام متحدہ کے ہی قوانین کے تناظر میں دیکھتے ہیں، دنیا میں امن و آتشی پھیلانے کے ٹھیکیدار ادارے کے چارٹر کا پہلا پہلا آرٹیکل کہتا ہے کہ یو این کا مقصد بین الاقوامی امن کو برقرار رکھنا ہے، یو این کے 140 اراکین فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔فقط ایک امریکہ کسی پنڈ کے رئیس چودھری کے بگڑے لڑکے کی طرح ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور لاچار چودھری خاموش تماش بین بنا بیٹھا ہے۔ اب گاوں کے مکین چودھری کے بیٹے کی بدمعاشی سے تنگ ہیں مگر چودھری خود بے بس ہے۔ چودھری نے گاؤں میں اپنے ہی قانون بنا رکھے ہیں ، جو اس کے بچوں کو چھوڑ کر ہر ہر شخص پر لاگو ہوتے ہیں، مثلاً 2(4) کہتا ہے کہ کوئی کسی دوسرے کے گھر میں نہیں گھسے گا، املاک کو نقصان نہیں پہنچے گا اور خون خرابہ نہیں کرے گا، اب چودھری کا چھوٹا بیٹا مسلسل پتھراؤ کیے جا رہا ہے اور بڑا بیٹا پتھر اٹھا اٹھا کر دے رہا ہے۔

2 (7) یہ کہتا ہے کہ خود چودھری ایسی کسی حرکت میں ملوث نہ ہوگا، جبکہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ قانون 51 کہتا ہے کہ کوئی کسی کے گھر میں گھسے،اور انسانی جانوں کا ضیاع کرے، تو چودھری خود میدان میں اترے گا، ادھر چودھری کے بیٹے بیچ چوراہے کسی غریب کی بیٹی کی چادر سر سے نوچی کھڑے ہیں اور چودھری فقط حقا گڑگڑا رہا ہے۔ چودھری کے بنائے قانون 39، 40، 41، 42، 43 کہتے ہیں جو باز نہ آئے اسے قطع کلام کرو، اس کی روٹی بند کر دو، اس سے کاروبار نہ کرو، باقی سب اس کے خلاف متحد ہوکر اس کا ہاتھ روکو،لیکن چودھری کا بڑا بیٹا سرِ عام ہتھیار فراہم کرتا آرہا ہے اور سب خاموشی سے دیکھتے رہے۔

انسانی حقوق کا علم بلند کرنے والے ادارے اور ممالک انٹرنیشنل قوانین کی ایک لمبی فہرست کی خلاف ورزی ہوتے دیکھ رہے ہیں، پہلے پہل قدیم یونانی جنگی قوانین دیکھیں تو ”دی جسٹ وار ڈاکٹرائین“ کہتی ہے اگرجنگ کی صورت میں متوقع فوائد ممکنہ نقصانات سے زیادہ ہوں، اور حملہ فقط جنگجو افواج پہ کیا جائے تو اس صورت میں جنگ کو ”جسٹ وار“ کہا جاتا ہے، اس کے برعکس فلسطین میں حملہ بھی عوام پر ہو رہا ہے اور نہ اس خون ریزی کا کوئی فائدہ ہے۔ اس کے بعد یو ڈی ایچ آر 1948ء کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں، جس میں 30 حقوق فراہم کیے گئے ہیں جو بحیثیت انسان ہر ذی روح کا پیدائشی حق ہیں ،اب اگر ہم فلسطین میں نظر گھما کر دیکھیں تو ایک ایک حق کو پامال کیا گیا اور مسلسل کیا گیا اور ستم تو یہ ہے کہ تاحال کیا جا رہا ہے۔ 1949ء کی چوتھی جنیوا کنونشن کا آرٹیکل 49 کہتا ہے کہ ”قابض طاقت اپنی آبادی کومقبوضہ علاقے میں آباد نہیں کر سکتی“ جبکہ فلسطین کی صورتحال اس کے الٹ ہے۔ آئی سی سی پی آر 1966ء اقوام کو مجبور کرتی ہے کہ لوگوں کے سیاسی وسول حقوق کا تحفظ کریں، فلسطین کے لوگ شاید UN کی ڈکشنری میں انسان نہیں ہیں، وگرنہ جس دیدہ دلیری سے ان کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں، تاریخ میں اس سے پہلے انسانیت کی ایسی تذلیل ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔مزید سکیورٹی کونسل کی 1981ء کی ریزولوشن کہتی ہے کہ اسرائیل کا غزہ اور گولان ہائٹس پر قبضہ غیر قانونی ہے۔

آئیے تازہ ترین صورتحال کی جانب، امریکی تعلیمی اداروں میں لوگوں کے دلوں میں کچھ انسانیت جاگی اور وہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جس کے نتیجے میں امریکہ نے ہتھیاروں کی ترسیل روکی، جواب میں نیتن یاہو نے کمال ڈھٹائی سے کہا اگر تنہا کھڑا ہونا پڑا تو ہم تب بھی ڈٹے رہیں گے، دوسری طرف دنیا کے سب سے بڑے کارٹون نے بیان داغ چھوڑا ہے کہ جو بائیڈن جو کر رہے ہیں وہ انتہائی ذلت آمیز قدم ہے، گویا ٹرمپ کے نزدیک بے گناہ انسانوں کے قتل میں معاونت نہ کرنا ذلت ہے۔ غزہ سے جان بچانے کو رفح جانے والے پندرہ لاکھ لوگوں میں سے قریب ایک لاکھ دس ہزار کو المواسی کی جانب نقل مکانی کر نا پڑی۔ ہسپتالوں میں ایندھن ختم ہے، گولوں اور بموں کی گھن گرج ہے، بھوک ہے، پیاس ہے، افلاس ہے، پردیس ہے اور بے بسی ہے، اور ان اللہ مع الصابرین کا درس دینے والا شاید صبر کی انتہا دیکھنا چاہتا ہے، وہ شاید ایک اور کربلا دیکھنا چاہتا ہے۔ شاعر نے فرطِ جزبات سے مغلوب ہو کر اپنے احساسات کے موتیوں کو لفظوں کی مالا میں کیا خوبصورتی سے پرویا ہے، کہتے ہیں کہ
بروز محشر غزہ کے لوگو
سوال کرنا ، جواب لینا
جواب لے کر سوال کرنا

تبصرے بند ہیں.