گندم کی بے قدری…!

67

کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ گھر آئی نعمت کو ٹھکرایا جائے لیکن یہ ہماری حکومت اور حکمران اشرافیہ کا کمال ہے کہ وہ گندم جیسی نعمت جو ہماری غذا کا اہم ترین جزو ہے اور پچھلے کئی برسوں میں ڈالروں میں قیمتی زرِ مبادلہ خرچ کر کے اُسے باہر سے منگوا کر اپنی ضرورت پوری کرتے رہے ہیں، اب کی بار اپنی پیدا کی ہوئی گندم کی وافر مقدار کو سنبھالنے اور اس کی قدر کرنے کے بجائے اس کو رُلنے، کوڑیوں کے مول بیچے جانے اور اسے موسمی تغیر و تبدل کی سختیوں کی نذر کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ یہ اللہ کریم کا خصوصی کرم اور کسانوں اور کاشتکاروں کی سال بھر کی محنت کا نتیجہ ہے کہ اس سال ہم گندم کی ریکارڈ پیداوار حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ محکمہ زراعت کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں گندم کی 30 سے 32 ملین ٹن ریکارڈ پیدا وار کو تخمینہ لگایا گیا ہے۔ گندم کی یہ پیداوار ہماری سال بھر کی تقریباً 28 ملین ٹن ضرورت کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ 2-3 ملین ٹن اُس سے زیادہ بھی ہے۔ اس صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اللہ رب العزت کا شکر ادا کریں کہ عرصے کے بعد ہم اپنی غذا کے اہم ترین جزو کی پیداوار میں خود کفالت کی راہ پر گامزن ہو رہے ہیں تو اس کے ساتھ اپنے کسان اور کاشتکار بھائیوں کا بھی شکر ادا کریں کہ اُن کی جان توڑ محنت اور دستیاب وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کی بنا پر ہم گندم کی یہ ریکارڈ پیداوارحاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا بلکہ ہر سال گندم کی نئی فصل اُترنے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے کاشتکاروں اور کسانوں سے وافر مقدار میں گندم کی خریداری کا برسوں بلکہ عشروں سے جو معمول چلا آ رہا ہے اُس پر بھی عمل نہیں ہو رہا ہے۔

اس وقت گندم کی فصل، اس کی پیداوار، اس کو سنبھالنے اور کسانوں اور کاشتکاروں سے اس کی خریداری کی جو معروضی صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ قدرت کے نظام کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں لیکن موسمی تغیر و تبدل کا نتیجہ یا ہماری بدنصیبی اور شامتِ اعمال کا شاخسانہ کہ لگا تار تیز بارشوں، طوفانِ باد و باراں اور اکثر مقامات پرژالہ باری کا سلسلہ مختصر وقفوں کے ساتھ پچھلے اڑھائی تین ہفتوں سے ایسے جاری چلا آ رہا ہے کہ گندم کی کھڑی فصل ہی بُری طرح متاثر نہیں ہو ئی ہے بلکہ کٹی فصل بھی خراب ہو رہی ہے۔ پھر پنجاب کے جنوبی اضلاع جہاں گندم کی کٹائی کا کام بڑی حد تک مکمل ہو چکا ہے اور صاف اناج کے ڈھیر کھیتوں، کھلیانوں اور کھلی جگہوں پر پڑے ہیں، حکومتی سطح پر خریداری نہ ہونے کی وجہ سے تباہی اور بربادی کا نشانہ بن رہے ہیں یا کسان اور کاشتکار اُونے پونے داموں انہیں آڑھتیوں اور گندم کے تاجروں کو بیچنے پر مجبور ہیں۔ یہ صورتحال افسوس ناک ہی نہیں بلکہ انتہائی تکلیف دہ بھی ہے۔ ایک طرف کسانوں اور کاشتکاروں کا احتجاج زور پکڑ رہا ہے تو دوسری طرف حکمرانوں اور حکومتی اکابرین کی طرف سے صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے بے رُخی، بے اعتنائی اور اغماض برتنے کا رویہ سامنے آ رہا ہے یقینا ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے وفاقی سطح پر اس صورتحال کا نوٹس لیا ہے اور انہوں نے وفاقی حکومت کے تحت پاسکو کے ذریعے گندم کی خریداری کے ہدف کو 14ملین ٹن سے بڑھا 18 ملین ٹن کر دیا ہے لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ پنجاب کی صوبائی حکومت کی طرف سے بددلی سے کچھ آدھے ادھورے اقدامات سامنے آئے ہیں لیکن انہیں کسانوں کو لولی پاپ پکڑانے کے مترادف ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 12 ایکڑ تک زمین کے مالک کسانوں کو اپنی گندم اوپن مارکیٹ میں بیچنے پر آمادہ کر کے انہیں گندم کی امدادی قیمت 3900 روپے فی چالیس کلو گرام کے مقابلے میں اوپن مارکیٹ میں آڑھتیوں اور تاجروں سے کم نرخوں پر ملنے والی قیمت میں کمی کے برابر سبسڈی دی جائے اور اس طرح ان کا خسارہ پورا کیا جائے۔ یہ طریقہ ایسا نہیں ہے جس پر منصفانہ ، عادلانہ اور مساویانہ عمل ہو سکے۔ آخر حکومت برسوں سے چلے آنے والے معمول کے مطابق گندم کے کاشتکاروں اور کسانوں سے اُن کی ضرورت سے زائد گندم خریدنے کا سیدھا سادہ راستہ اختیار کیوں نہیں کرتی؟ اس کی راہ میں کونسی رکاوٹ جو حکومت کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

حکومتی حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ محکمہ خوراک کے گوداموں میں پچھلے سال کی کم و بیش 30 لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ پہلے سے موجود ہے جبکہ اس سال جنوری سے مارچ کے عرصے میں نگران کی حکومت کی طرف سے بیرونِ ملک سے 35 لاکھ ٹن گندم درآمد بھی کی گئی ہے اس طرح 65/70 لاکھ ٹن گندم حکومتوں گوداموں میں موجود ہونے کی وجہ سے مزید گندم کے ذخیرہ کرنے کی گنجائش انتہائی کم ہو چکی ہے اس وجہ سے گندم کی خریداری کا عمل پوری طرح بروئے کار نہیں لایا جا سکا ہے۔ اس کے علاوہ گندم کی نئی فصل میں نمی کی زیادہ مقدار کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے کہ کسانوں کے پاس جو گندم موجود ہے لگاتار بارشوں، طوفانِ باد و باراں اور ژالہ باری کے نتیجے میں اس میں نمی کے تناسب 12/13 فیصد کے قریب ہے جبکہ حکومتی پالیسی کے مطابق 10 فیصد سے کم نمی والی گندم خریدی جا سکتی ہے ۔ زیادہ نمی والی گندم کو ذخیرہ نہیں کیا جاسکتا اس میں پھپھوندی وغیرہ لگ جاتی ہے ۔ چلیں اگر ایسا بھی ہے تو اب کئی دنوں کی بارشوں کے بعد موسم صاف ہو رہا ہے اور تیز دھوپ کی توقع کی جارہی ہے جس سے گندم میں نمی کی مقدار میں کمی کی توقع کی جاسکتی ہے اس صورت میں حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلے کے مطابق پنجاب میں قائم 393 خریداری مراکز پر گندم کی خریداری کا عمل فوراً شروع اس سے کسانوں کے احتجاج میں کمی ہی نہیں آئے گی بلکہ انہیں کچھ اطمینان بھی حاصل ہو گا۔

حکومت گندم کی خریداری کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے اس سے قطع نظر یہ سوال بہر کیف اپنی جگہ موجود ہے کہ اس سال جب گندم کے زیرِ کاشت رقبے میں اضافے کی وجہ سے گندم کی پہلے کے مقابلے میں زیادہ اور ریکارڈ پیداوار توقع کی جارہی تھی اور 30 لاکھ ٹن کے لگ بھگ گندم پہلے سے محکمہ خوراک کے گوداموں میں موجود تھی تو پھر نگران حکومت کی طرف سے جنوری سے مارچ کے مہینوں میں 35 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ اس بارے میں صحیح صورتحال سامنے آنی چاہیے کہ گندم کی درآمد کے ذریعے کسی فردیا گروہ یا تجارتی ادارے کو فائدہ پہنچانا مقصود تھا یا ہماری افسر شاہی اور انتظامیہ کی کم فہمی اور روائتی نااہلی کا نتیجہ تھا کہ سارے پہلوئوں کو سامنے رکھے بغیر گندم کی درآمد کا اتنا بڑا فیصلہ کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کسان بُری طرح استحصال اور نا انصافی کا شکار ہو رہے ہیں ایک تو گندم کی 3900 روپے فی چالیس کلو گرام امدادی قیمت گندم کی پیداوار پر اُٹھنے والے اخراجات کے مقابلے میں کم ہے اور دوسرے اُن سے اس قیمت پر بھی گندم خریدی نہیں جا رہی بلکہ کسان اور کاشتکار اپنی گندم آڑھتیوں اور تاجروں کو 28، 29 سوروپے فی چالیس کلو گرام کے حساب سے بیچنے پر مجبور ہیں۔

میں ایک چھوٹا سا کسان ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ اپنے چھوٹے سے رقبے پر اپنے گھرانے کی سالانہ ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے گندم کاشت کروں ۔ پچھلے سال ایک آدھ ایکٹر رقبے پر گندم کاشت کی۔ کچھ میری نالائقی اور لاپروائی اور کچھ موسمی حالات کہ گندم کو بیماری لگ گئی اور اُس کی پیداوار اچھی اور دانہ موٹا نہ ہو سکا۔ مجبوراً اپنے گھرانے کی سال بھر کی ضرورت کے لیے گندم اپنے ایک عزیز برخوردار سے خریدنا پڑی۔ سچی بات ہے کہ 5000 روپے فی چالیس کلو گرام قیمت کا تعین کر کے میرے عزیز نے مجھ پر بڑا احسان کیا اور میں نے 20 من گندم کے اُسے 1 لاکھ روپے ادا کیے ۔ اس سال میں نے ایک تو گندم کی کاشت کے لیے اپنے رقبے میں اضافہ کر دیا اور دوسرے بہتر دیکھ بھال بھی ہوئی ۔ اللہ کریم کا احسان ہے کہ فصل بہت اچھی تیار ہوئی لیکن حالیہ بارشوں کی وجہ سے کافی خرابی اور نقصان ہو چکا ہے۔ اللہ کرے موسم لگا تار صاف رہے اور دھوپ وغیرہ نکلتی رہے تو فصل سنبھالی جا سکے گی ۔ تاہم میں سوچتا ہوں کہ ضرورت سے زائد گندم کی پیداوار کو اگر بیچوں گا یا ساری پیداوار کو بیچ دوں تو مجھے اگر حکومت کی مقرر کردہ 3900 روپے فی چالیس کلو گرام کی امدادی قیمت (جس کے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا) پربھی پیسے مل جائیں تب بھی یہ رقم میرے اپنی گندم کی فصل پر سال بھر کے دوران اُٹھنے والے اخراجات کے مقابلے میں بہت کم ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.