ہماری کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے!

37

ایک بڑے قومی روزنامے کے دورے کے دوران طلبہ نے ادارے کے چیف ایگزیکٹو یعنی سربراہ/ مالک سے پوچھا کہ آپ کے اخبار کی پالیسی کیا ہے تو انہوں نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا کہ ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہماری کوئی پالیسی نہیں ہے۔ یہ بات کہنے والا صرف اخبار کا مالک ہی نہیں بلکہ بڑے میڈیا گروپ کا مدارالمہام اور میڈیا انڈسٹری کا گرو کہلاتا ہے۔ ویسے انہوں نے یہ بات مذاقاً نہیں بلکہ انتہائی سنجیدگی سے کہی تھی کیونکہ ہمارے ہاں صحافت مکمل طور پر ایک کاروبار بن چکا ہے یہ کوئی عظیم پیشے یا مقصد نہیں بلکہ دولت، شہرت اور اختیار حاصل کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ قومی مفادات، عوامی مفادات، دادرسی ، سچ کی آبیاری وغیرہم سب متروک ہو چکے ہیں زیادہ سے زیادہ اچھی ریٹنگ اور اس کے ذریعے اشہارات کا حصول مقصد وحید بن چکا ہے۔ یہ بات سوشل میڈیا میں مصروف کار وی لاگرز، یوٹیوبر اور دیگر ابلاغی ذرائع سے وابستہ صحافیوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ویوورشپ، مانیٹائزیشن اور ڈالروں کا حصول ہی اول و آخر ٹارگٹ قرار پا چکا ہے ایک معروف وی لاگر کی بیوی کی نازیبا ویڈیو وائرل ہوئی تو وی لاگر نے اس کو بھی اپنی ویوور شپ اور ریٹنگ بڑھانے کے لئے استعمال کیا۔

یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اس سوال پر کہ ’’ہماری معاشی پالیسی کیا ہے‘‘ پر غور کیا جائے۔ معیشت و سیاست پر شدبد حاصل کرتے رہنے کی جستجو میں یہ پتا چلا ہے کہ ہماری معاشی پالیسی یہ ہے کہ ’’ہماری معاشی پالیسی ہی نہیں ہے‘‘ ہمارے حکمران لاکھ بیانات دیتے رہیں، سیاستدان نعرے لگاتے رہیں کہ ہماری معاشی پالیسی یہ ہے کہ ہماری معاشی پالیسی وہ ہے، ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے، ہم دودھ شہد کی نہریں بہا دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ حجم کے اعتبار سے ہم دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہیں آبادی ہو یا اس میں نوجوان آبادی کا تناسب ہم ساتویں بڑے ملک اور نوجوانوں کی شرح کے اعتبار سے اولین حیثیت کے حامل ہیں۔ دستیاب قدرتی و معدنی وسائل کے اعتبار سے بھی بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین ملک ہیں۔ ہمارے بیرون ممالک بسنے والے شہری محنتی، قابل اور نتیجہ خیز جانے اور مانے جاتے ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہو یا اقوام عالم کے ساتھ معاملات کرنے کے حوالے سے بھی ہماری ایک ساتھ ہے۔ ایک اور بات جو شاید کچھ قارئین کو نامناسب لگے لیکن ہے وہ حقیقت دنیا میں چھوٹے موٹے جرائم میں بھی ہمارا ایک خاص نام اور مقام ہے دنیا کے ماہرین ان جرائم میں ملوث پاکستانیوں کی ذہانت اور جرأت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔

لیکن بحیثیت قوم آج ہم اپنی تاریخ کے عظیم ترین بحران کا شکار ہو چکے ہیں ہماری سیاست ریزہ ریزہ ہے اس میں افراتفری ہے۔ سیاستدان یا تو ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہیں یا انتہائی منافقت کے ساتھ برتائو کر رہے ہیں ،توانائی کے تمام ذرائع بشمول بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل وغیرہم کا حصول شدید مشکل ہو چکا ہے۔ سرکلرڈیٹ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے قیمتوں میں اضافہ ہی اضافہ ہو رہا ہے قدر زر میں گراوٹ ہے صنعتی تعمیروترقی جمود کا شکار ہے بے روزگاری عام ہے۔ اشیا صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ’’دو وقت کی روٹی کا حصول‘‘ کا محاورہ اپنی اہمیت کھو چکا ہے اب تو ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہاہے۔ پی ڈی ایم کی پہلی حکومت میں 12جماعتوں کے ساتھ پیپلز پارٹی نے مل کر اتحادی حکومت بنائی تھی وہ اجتماعی سیاسی دانش کا عکاس تھی لیکن انہوں نے کیا کیا، قومی معیشت کو بچاتے بچاتے عامتہ الناس کی معیشت کا دھڑن تختہ کر دیا۔ اس وقت شہباز شریف کی قیادت میں معاملات انتہائی بگاڑ کا شکار ہوئے تھے معیشت کو سہارا دینے، برباد ہونے سے بچانے کے لئے روٹھے ہوئے آئی ایم ایف کو منانے کا ڈول ڈالا گیا 3 ارب ڈالر کا قرض ملنے پر اللہ کا شکر ادا کیا گیا اور قوم کو نوید مسرت سنائی گئی۔ اب بھی شہباز شریف کی قیادت میں ایک اتحادی حکومت قائم ہے جس میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، ن لیگ، استحکام پاکستان پارٹی و دیگر چھوٹے بڑے سٹیک ہولڈرز شامل ہیں اور سب ایک ہی بات کہہ رہے ہیں قوم کو نئے 6 یا 8 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پیکیج ملنے کی خوشخبریاں سنا رہے ہیں کہ بس ہمیں قرض کا اگلا پیکیج بھی ملنے جا رہا ہے اور پھر ہم معاشی خوشحالی کی شاہراہِ عظیم پر چل نکلیں گے۔

یہ سب کچھ کہہ کر قوم کو بے قوف نہیں بلکہ اُلو بنایا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کردہ فسکل آپریشن رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزرے 9 ماہ یعنی مالی سال 2023-24 کے نو ماہ (جولائی تا مارچ) کے دوران مالیاتی خسارہ 3902 ارب روپے ہو گیا ہے یعنی ہمیں کل آمدن 9780 ارب روپے ہوئی جبکہ کل اخراجات 13 ہزار 682 ارب روپے ہوئے۔ ان اخراجات کی تفصیل بتاتے ہوئے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 9 ماہ کے دوران قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں 5517 ارب روپے اور دفاع پر 1222 ارب روپے خرچ کئے گئے۔ یعنی 6739 ارب روپے صرف دو مدات پر خرچ کئے گئے یعنی دوتہائی سے زائد خرچہ صرف ان دو مدات میں ہوا۔ باقی اگر کارسرکار پر اٹھنے والے اخراجات بھی اس میں شامل کر لئے جائیں تو ساری آمدنی ختم ہو جاتی ہے پھر عامتہ الناس کی ویلفیئر اور تعمیراتی و ترقیاتی کاموں کے لئے رقم کہاں سے آئے گی۔ اس بارے میں ہمارے حکمران اور پالیسی سازوں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ حکمت عملی ہمیں ہمارا محسن سود خور مہاجن آئی ایم ایف بتاتا ہے، لکھواتا ہے، اس پر عمل کراتا ، ہمیں ٹارگٹ دیتا ہے، ان پر عمل کراتا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر عمل کراتا اور طے کردہ نتائج حاصل کرتا ہے اس سارے عمل میں ہمارے حکمران، پالیسی ساز، بیوروکریٹس اور سرکاری اہلکار مجبور محض کے طور پر کام کرتے ہیں کیونکہ ہماری معاشی پالیسی ہی یہی ہے کہ ہماری کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.