فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں کرپشن کی بازگشت

38

یوں تو وطن عزیز میں کسی بھی بریکنگ نیوز کا مطلب حوصلہ شکنی، دگرگوں لا اینڈ آرڈر، کمر توڑ مہنگائی اور حکومتوں کی نااہلی ہی ہوتی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ زیادہ تر بریکنگ نیوز درحقیقت قوم کے حواس ہی بریک کرتی ہیں۔ لیکن چند دن پہلے مشہور صحافی برادرم زاہد گشکوری صاحب نے جو بریکنگ نیوز دی۔ وہ سن کر تو اوسان ہی خطا ہو گئے اور ایک دفعہ تو دل و دماغ نے خبر پہ یقین کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ ان کے ذرائع کے مطابق، فیڈرل پبلک سروس کمیشن جو ملک کی سنٹرل سپیریئر سروسز کے لیے ٹاپ امیدواران کو سلیکٹ کرنے کا ادارہ ہے، اس کے امتحانات بھی کرپشن کی نذر ہو چکے ہیں۔ ان میں بھی نیچے والا عملہ پیسے لیکر ہیرا پھیری کرتا ہے۔

اگر تو بات یہاں رک جاتی تو بھی کہا جا سکتا تھا کہ یہ ایک انفرادی واقعہ تھا مگر حالات تو اس سے کئی گنا بد تر نکلے۔ سندھ میں لیے گئے امتحانات میں لاکھوں روپے لے کر نچلے عملے نے با اثر خاندانوں کے چشم و چراغ جو امتحان دے رہے تھے انکی امتحانی کاپیاں تبدیل کر دیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ کچھ تو سسٹم کو کرپٹ کر کے اپنی من پسند سروسز کے لیے سلیکٹ بھی ہو چکے۔

عقدہ تو اس وقت کھلا جب کچھ امیدواران جنہوں نے تحریری امتحان میں تو بہت زیادہ نمبر لیے تھے انٹرویو بورڈ کے سامنے عام سوالات کا جواب دینے سے بھی قاصر رہے۔ یہاں انٹرویو بورڈ یا پینل کے اراکین کو شک گزرا کہ کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور ہے۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ امتیازی نمبروں سے تحریری امتحان پاس کرنے والے امیدواران اتنے کند ذہن ہوں کہ انہیں انہی مضامین کے بارے میں بنیادی باتیں بھی معلوم نہ ہوں۔ یوں پینل جس کی سربراہی عموماً چیئرمین ایف پی ایس سی خود کرتے ہیں یا ان کی غیر موجودگی میں سینئر ممبر کرتے ہیں، انہوں نے سندھ سے لیے گئے امتحانات پہ تحقیق و تفتیش کرنے کی ہدایت کی اور اس ضمن میں ٹیکنیکل چیزوں میں ایف آئی اے کی مدد لینے کا بھی کہا گیا۔

اس پہ ایف پی ایس سی کے سینئر افسران ایکٹو ہوئے اور تحقیق کے اس عمل کے دوران ان پہ عیاں ہوا کہ کس طرح بڑے گھرانوں کے بچے لاکھوں روپے دے کر اپنی امتحانی کاپیاں تبدیل کراتے رہے ہیں۔ ان میں سے کئی تو محکمہ الاٹ ہونے کے بعد سروس بھی جوائن کر چکے ہیں۔

اب یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ جیسا کہ یہ کرپشن کب سے جاری تھی اور اس میں کون کون ملوث تھا؟ ادارے کے ملوث افراد کے خلاف اب تک کیا کارروائی کی گئی؟ اور اگر اس کرپشن کا فائدہ لیکر کوئی امیدوار یا امیدواران کامیاب ہو چکے ہیں تو ان کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ ادارے نے کرپشن سے بچنے کے لیے کیا تدابیر اختیار کر رکھی تھیں اور امتحانی سسٹم کی ناکامی کے بعد کیا کیا تبدیلیاں لائی گئی ہیں؟

ایف پی ایس سی کے ذریعے کامیاب امیدواران پاکستان کی بیوروکریسی کہلاتے ہیں۔ جہاں ان کی سلیکشن گریڈ 17 میں کی جاتی یے اور چند ہی سال بعد انہیں ترقی دے کر اگلے گریڈ میں پروموٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت پورے ملک کے کل اضلاع میں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پولیس سروس میں سی ایس پی افسران کی تعداد 90 فیصد سے زائد ہے۔ اب یہاں غور کرنا ہو گا کہ کرپشن سے پاس ہوئے امیدواران کس طرح روزانہ کی بنیاد پہ ہزاروں لوگوں کو انصاف کی فراہمی یقینی بناتے ہوں گے۔ کیا ان کا مطمع نظر حرام کمانا نہیں ہو گا۔ خصوصاً لاکھوں دے کر پاس کرنے والوں کو کروڑوں کی ہوس نہیں ہو گی۔ جواب بڑا سادہ ہے، یقینا ہو گی۔

اب ان حالات میں ایف پی ایس سی کو اپنے ادارے کے ذمہ دارانہ، غیر جانبدارانہ تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اپنا امتحانی سسٹم بدلنا ہو گا۔ چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو ٹھوس اور طاقتور بنانا ہو گا۔ کرپٹ لوگوں کو اپنی صفوں سے نکالنا ہو گا۔ کرپشن جیسی غیر قانونی، غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث امیدواران پہ بھی تاحیات پابندی لگانا ہو گی۔ وگرنہ صد افسوس کہ ملکی سطح کا ایک نہایت اہم ادارہ متنازع بن گیا ہے۔ جس کی ذمہ داری میں کوتاہی سے لا شعوری طور پہ عوام الناس کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ ایف پی ایس سی کے حکام سے گزارش ہے کہ حضور جاگ جائیں اور اپنے ادارے کو متنازع بنانے والے کرداروں کے خلاف بلا رو رعایت کارروائی کریں اور عوام کو اعتماد میں لیں۔

تبصرے بند ہیں.