ظالم، ظلم اور مظلوم

197

کائنات میں ظلم کہیں نہیں ۔۔۔ یعنی کائناتی کلیوں میں، تخلیقی حقیقتوں میں اَزلی سچائیوں میں کہیں ظلم کا وجود نہیں۔ زندگی ظلم ہے، نہ موت ہی ظلم کہلائے گی۔ کائنات میں ظلم صرف حضرتِ انسان کرتا ہے ۔۔۔ کبھی اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے اور کبھی اپنے ہم نفسوں پر! یوں وہ اپنی کائنات میں اندرونِ خانہ بھی ظلم کرتا ہے اور بیرونِ خانہ بھی!

انسان کو اختیار دیا گیا ۔۔۔ اور یہ اختیار ملتے ہی بے اختیار ہو گیا ۔۔۔ سچ ہے، ظلوماً جہولا ہے۔ ظلم ہی جہل ہے ۔۔۔ ظلم ہی ظلمت ہے ۔۔۔ تاریکی ہے۔ علم نور ہے ۔۔۔ اگر خود کو منور کر لے۔ علم حجاب ہے اگر دوسروں کی زندگیاں تاریک کرے، دوسروں کو خائف رکھے، دوسروں کو خوشخبری نہ سنائے، رحمت کا پیغام نہ بنے، نہ سنائے!

اِنسان اپنے اختیار کو اختیار دینے والی ذات کے تابع نہیں کرتا تو ظالم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ اپنے اختیار کو اختیار دینے والی ذات کی متابعت میں رکھے، اس کے احکام، اسے منشور، اس کی منشا و مشیت کے مطابق رکھے تو نائب کہلائے … وگرنہ قدم قدم پر ظلم ڈھائے اور ظلم کا اِحساس ہونے پر تائب کہلائے۔ توبہ کے لیے ضمیر اور مہلت دونوں درکار ہوتے ہیں۔ ضمیر مردہ ہو جائے تو انسان ظلم کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھ لیتا ہے۔ جب مہلت ختم ہو جاتی ہے تو توبہ قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ جب اختیار ختم ہو جائے تو توبہ کرنے کا اختیار بھی ختم ہو جاتا ہے۔

فرد ہو یا قوم، کائناتی کلیہ یہی ہے، تاریخ کی گواہی ہے کہ ظلم کا اندھیرا بالآخر چھٹتا ہے، انصاف اور عدل کا سورج طلوع ہو کر رہتا ہے۔ ظالم کا سامانِ ظلم، سامانِ عبرت بنتا ہے۔ مظلوم کو صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔ صبر کی تلقین کا مطلب ظلم کے خلاف جد و جہد ترک کرنے کی تعلیم ہرگز نہیں، بلکہ یہ اپنے نظریے کے ساتھ استقامت، صبر اور ہمت کے ساتھ کھڑا ہونے کی تعلیم ہے۔ صبر سے مراد اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہنا ہے ۔۔۔ خوف اور لالچ کی رَو میں خود بہہ جانے سے باز رکھنا ہے۔ ظلم کے خلاف جد و جہد ہی تو جہاد کی اصل ہے۔ جہاد عدل قائم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جہاد مظلوموں کے حق میں کھڑے ہونے کی علامت ہے۔ دامے درمے سخنے ظلم کے خلاف جد و جہد کرنے والا مجاہد کہلاتا ہے۔ جہاد فرض ہے۔ جس طرح ہر مومن پر علم فرض ہے۔ حکمِ رسولِ کریمؐ ہے کہ … جو شخص برائی کو دیکھے اسے ہاتھ سے روک دے، اگر یہ قوّت نہ ہو تو زبان سے روکے، اگر اس پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو کم از کم دل میں اسے بُرا سمجھے، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ ہر بُرائی اپنی ہیئت میں ایک درجے کا ظلم ہے۔ سب سے بڑی بُرائی ایک انسان کا دوسرے انسان پر ظلم ہے۔ ایک قوم کا دوسری قوم پر ظلم شہرِ انسانیت میں سب سے بڑا جرم، سب سے بڑی بُرائی ہے۔ اس بُرائی کے خلاف کون کتنا جہاد کرتا ہے، بطور انسان یہی ہمارا قد ہے۔ سچ فرمایا سچے رسولؐ نے، صادقؐ اور امینؐ نے ۔۔۔ ”جو قوم جہاد ترک کر دیتی ہے، اس پر ذلت مسلط کر دی جاتی ہے“۔ یہ کائناتی کلیے ہیں، ان میں ترمیم نہیں ہو سکتی۔ جہادِ اکبر اور جہاد اصغر تو دور کی بات ۔۔۔ ہم اس کی ابتدائیات یعنی جہادِ افضل پر بھی کاربند نہ رہے ۔۔۔ از روئے حدیث افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہِ حق کہنا ہے۔

ملتِ اسلامیہ جہاد پر کاربند رہتی، تو خود ان کی دنیا میں کوئی مظلوم رہتا نہ محروم ۔۔۔ اور باہر کی دنیا میں بھی کسی مسلمان کے سر سے عافیت کی چادر نہ نوچی جاتی۔ مسلمان تو ایک طرف کوئی غیر مسلم بھی دنیا میں کہیں ظلم و ستم کی چکی میں نہ پستا۔ فلسفہ جہاد اپنی اصل میں امنِ عالم کی ضمانت ہے۔ اقوامِ متحدہ ابھی تک عالمی امن کی کوششوں میں کامیاب کیوں نہ ہو سکی ۔۔۔ اس لیے کہ یہاں کچھ طاقتیں ویٹو پاور رکھتی ہیں، یعنی ان طاقتوں کی مرضی کے بغیر کسی مظلوم کو انصاف نہیں مل سکتا۔ اسلام میں کسی کو ویٹو پاور حاصل نہیں۔ یہاں عدل کی تعریف میں شامل ہے کہ کوئی طاقتور فرد یا ادارہ قانون سے بالا نہیں ہو گا۔ یہاں خبردار کیا گیا ہے کہ تم سے پہلی امتیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہاں کوئی طاقتور جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دے دی جاتی۔

اوّل خویش بعد درویش ۔۔۔ ملّتِ اسلامیہ عالمی امن اور سلامتی کے لیے مظلوموں کے حق میں جہاد کا راستہ کیونکر اپنائے جب وہ اپنے اندر ہی عدل و انصاف قائم نہیں کر سکی۔ اس وقت آمریت اور شہنشاہیت کے زیر تسلط سب سے زیادہ ریاستیں وہ ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں بستے ہیں۔ یعنی مسلمان بحیثیت مجموعی اپنی ریاستوں میں عدل و انصاف قائم نہیں کر سکے۔ ملوکیت و آمریت کسی ریاست کا انتظام تو بہتر بنا سکتی ہے لیکن معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوات کی فضا قائم نہیں کر سکتی۔ عدل کے لیے لازمی ہے کہ ہر خاص و عام کو ایک میرٹ پر رکھا اور پرکھا جائے۔ شہنشاہیت میں موروثیت اور آمریت میں مطلق العنانیت عدل کا خون کرتے ہیں۔

مقامِ تاسف ہے کہ ہمارے دینی راہنما، ہمارے دانشور اور ہمارے اساتذہ اسلام کا بنیادی سبق ۔۔۔ اخلاق اور عدل ۔۔۔ ہمارے قلوب و اذہان میں راسخ نہیں کر سکے۔ اکا دکا آوزیں تو کان میں پڑ جاتی ہیں، لیکن ہمارا تعلیمی اور تبلیغی نصاب اس جوہرِ عدل و اخلاق سے خالی ہے۔ انسان کے اندر اخلاقیات کی نمو عدل پر مبنی معاشرے میں ممکن ہوا کرتی ہے۔ ایک مجبور و مقہور صرف اپنی جان بچانے کی فکر کرے گا، وہ رخصت کا راستہ لے گا اور عظمت اور عزیمت کا راستہ ترک کرتا چلا جائیگا۔ اس کے اندر کسی اخلاقی قدر کو اپنے وجود اور پھر معاشرے میں رائج کرنے کا خیال کم ہی وارد ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات اس کلیے پر عمل کرتی ہے کہ پہلے جان بچاؤ، پھر پہچان! اپنا گھر میں سیلابی ریلا داخل ہو جائے تو شہر کے باہر بند باندھنے کی ترکیب میں کہاں ترتیب پاتی ہے۔

واحسرتا، ہم اپنے دینی تعلیمی نصاب میں ترجیحات کو خلط ملط کر بیٹھے ہیں۔ہم کسی کو اچھا انسان بنانے سے پہلے اسے اچھا مسلمان بننے کی تلقین کرتے ہیں، اور اچھے مسلمان کی تعریف میں ہم اسے فقط عبادات کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس کا باطنی حلیہ درست کرنے کے بجائے ہم ظاہری نقشے کی نک سک درست کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہم بطور مبلغ ایک مسلمان کی تعریف میں کیوں بخل سے کام لیتے ہیں کہ ۔۔۔ ”وہ شخص مسلمان نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ نہیں“۔ ہم اپنے مواعظ میں، پند و نصائح میں یہ نصیحت زبان زدِ عام نہ کر سکے کہ ۔۔۔ ”اس کا شخص کا کوئی دین نہیں جس میں پاسِ عہد نہیں، اور اس شخص کا کوئی ایمان نہیں جس میں پاسِ امانت نہیں“۔ ہم کسی دیندار شخص کی تعریف بتاتے ہوئے رسولِ کریمؐ کے یہ الفاظ شامل کیوں نہیں کر سکے۔ ظاہر پرستی نے ہمیں دین کی اصل سے دور کر دیا ہے، دنیا پرستی نے دین کی خوشبو سے محروم کر دیا ہے۔ یہ دین تو دینِ عدل ہے، دینِ اخلاق ہے ۔۔۔ دینِ فطرت ہے۔ ہم اپنے خطبوں میں ظالم بادشاہوں کے قصیدے کیوں پڑھتے ہیں؟ ان کے حق میں، ان کی طویل العمری، یعنی ان کے ظلم کی مدت کے طویل ہونے کی دعائیں کیوں فرماتے ہیں؟ ہم کسی طے شدہ بد دیانت، کسی رشوت خور، کسی ملاوٹ کرنے والے تاجر کا چندہ اپنی مساجد و مدارس میں کیوں قبول کرتے ہیں ۔۔۔ ؟ اس کا چندہ اس کے منہ پر کیوں نہیں دے مارتے؟ اگر ہم ظلم کے خلاف ہیں تو ہمیں ہر ظالم شخص کا سوشل بائیکاٹ کرنا چاہیے۔

یہی حال بین الاقوامی سطح پر دیکھے جانے والے مظالم کا ہے۔ غزہ پر ہونے والے اس بے پناہ ظلم پر ۔۔۔ اور ظلم بھی ایسا کہ یہ لفظ بھی شرما جائے ۔۔۔ ہم احتجاج کرتے ہوئے اپنے تجارتی اور سیاسی فوائد کیوں پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ جو مظلوم کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا، وہ دراصل ظالم کے ساتھ کھڑا ہے۔

مظلوم کو صبر کی تلقین کے بجائے اس کی مدد کو پہنچا جائے۔ ظلم کو ”مشیتِ خداوندی“ قرار دینے کے بجائے مشیتِ دینِ خداوندی کی طرف توجہ کی جائے۔ سادہ سی بات ہے، جو بات نہیں مانتا، وہ ذات نہیں مانتا۔

تبصرے بند ہیں.