رواں ماہ یکم اپرایل کو شام کے دارالحکومت دمشق میں قائم ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر اسرائیل نے حملہ کیا جس میں دیگر اموات کے ساتھ پاسدارانِ انقلاب کے ایک اہم رہنما بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اِس حملے کو اِس لیے بھی بلاجواز اور غیر قانونی کہہ سکتے ہیں کہ سفارتی احاطے اور سفارتکار جنیوا کنونشن کے تناظر میں محفوظ تصور کیے جاتے ہیں مگر اسرائیلی نے ایک طرف قونصل خانے کی عمارت کو نشانہ بنا کر ایک غلط روایت قائم کی اور سفارتی تحفظ کی عالمی روایت کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ اُسے کسی عالمی ضابطے یا قانون کی کوئی پروا نہیں لبنان، شام، عراق، مصر، فلسطین سمیت کئی ہمسایہ ممالک پر حملوں سے یقین دلا چکا ہے کہ وہ کسی ملک کی آزادی و خودمختاری کے احترام کا قائل نہیں کچھ ممالک اُردن ،مصر وغیرہ تو غیر اعلانیہ طورپر اسرائیلی بالادستی تسلیم کر چکے مگرایران کی پراکسیوں سے خطے کے کئی ممالک خطرہ محسوس کرتے ہیں اسی لیے کسی حد تک ایسی اشتعال انگیزی سے گریز کیا جاتا ہے جس سے ایرانی قیادت مشتعل ہو بغداد ہوائی اڈے سے نکلتے ہوئے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو امریکہ نے نشانہ بنا کر ماردیا تو جواب میں ایران نے میزائل حملوں سے امریکی اہداف کو نشانہ بنایا دمشق قونصل خانے پر ہونے والے حملے کا جب ایران نے بدلا لینے کا اعلان کیا تو امریکہ نے کوشش کی کہ ایسی نوبت نہ آئے چین و ایران کے بڑھتے سفارتی و اقتصادی تعلقات کی وجہ سے چین سے گزشتہ ہفتے مطالبہ کیا کہ ایران پر چین زور دے کہ وہ اسرائیل پر حملے کااِرادہ ترک کر دے لیکن 13اپریل کی شب ایران نے تین صد کے قریب میزائل اور ڈرونز سے اسرائیل پر حملہ کردیا اِس میں بھی کوئی بڑاجانی و مالی نقصان نہیں ہو سکا البتہ ایک آدھ جگہ معمولی نقصان ہوا ہے جس میں ایک دفاعی اڈا بھی شامل ہے جس کی وجہ سے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ایرانی ساختہ کامیکازی ڈرون فضائی بم کی مانند ہے جو دھماکہ خیز مواد لیکر احکامات ملنے تک ہدف کے آس پاس پرواز کرتا رہتا ہے اور ہدف سے ٹکراکر پھٹ جاتا ہے اسی لیے خود کش ڈرون بھی کہا جاتا ہے ایسے ہی ڈرون روس بھی یوکرین جنگ میں خلاف استعمال کررہا ہے اِس کا ریڈار سے سراغ لگانا اِس لیے مشکل ہے کہ یہ بہت نیچی پرواز کرتا ہے اِس بناپر فضائی دفاع کے ذریعے نمٹنے میں مشکل پیش آتی ہے لیکن اسرائیل کو ایرانی ڈرونز تلف کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ میزائل اور ڈرونز کو اسرائیلی حدود میں داخل ہونے سے قبل ہی زیادہ تر کو ایرو نامی فضائی و دفاعی نظام سے تباہ کر دیا گیا اِس دوران اُردن جیسے اتحادیوں نے بھی اسرائیل کی معاونت کی البتہ حملوں سے ایران دنیا کوکسی حدتک یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ جس طرح جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ عراق میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنا کر لیاگیا اسی طرح دمشق قونصل خانے پر بمباری کا بدلا اسرائیل پر حملے سے لیا جا چکا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ کاروائی ایک نئے شور کے سوا کچھ نہیں جس میں فلسطینیوں کی چیخیں دب گئی ہیں۔
ایک غیر موثر حملے پر دنیا نے غیر معمولی ردِ عمل دیا ہے اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوتریس نے ایرانی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے دونوں ممالک سے تصادم بند کرنے کی اپیل کی ہے برطانوی وزیرِاعظم رشی سونک نے اسرائیل کی سلامتی کے لیے اُردن اور عراق جیسے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے امریکی صدرجو بائیڈن نے اسرائیل کو غیر متزلل حمایت کا یقین دلایاہے مگر ایران پر حملے کی صورت میں تعاون نہ کرنے کا اشارہ کیا ہے اسی طرح کینیڈا، جرمنی اور یورپی یونین نے بھی مذمت کی ہے جبکہ جی سیون نے ایران پر نئی پابندیوں کا عندیہ دیا ہے یہ اسرائیل کو دوبارہ عالمی حمایت ملنے کا اشارہ ہے روس اور چین نے ایران و اسرائیل کو مزید اشعال انگیزی سے بچنے اور تحمل کا مشورہ دیا ہے ایرانی حملوں کے تناظرمیں سلامتی کونسل کا ہنگامہ خیز اجلاس کسی فیصلے پر پہنچے بغیرختم ہو چکا اِس دوران ایرانی مشن نے موقف اپنایا کہ اُس نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق صرف دفاع کا حق استعمال کیا ہے مگر اسرائیل ہرصورت ایرانی حملے کا بھر پور جواب دینے کا ارادہ ظاہر کررہا ہے جس پر ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری نے انتباہ دیا ہے کہ جواب آیاتو پہلے حملے سے بڑی کاروائی کریں گے صورتحال کیا رُخ اختیار کرتی ہے اگلے چند دنوں میں واضح ہو جائے گا بظاہر امریکہ نے اسرائیل کی طرف سے ایران پر کسی حملے کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہ گریز کب حمایت میں بدل جائے اِس بارے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے اسی لیے دنیا کی نگاہیں امریکہ پرلگی ہیں سچ یہی ہے کہ امریکی حمایت کے بغیر اسرائیل اکیلے کسی ایسی کاروائی کا متحمل نہیں ہو سکتا جس کے نتیجے میں ایرانی پراکسی سے مزید نقصان کا خدشہ ہو۔
اگر ایرانی حملے کے اثرات کی بات کی جائے تو ایک بے ضررحملے کے نتیجے میں جارح اسرائیل کو فوری طورپردنیامیں ایک مظلوم ریاست کامقام حاصل ہو گیا ہے حالانکہ گزشتہ برس سات اکتوبر سے غزہ کے نہتے اور معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث ہونے کی وجہ سے نہ صرف عالمی حمایت کھونے لگا تھا بلکہ کئی ممالک تعلقات پر نظر ثانی کرنے لگے تھے لیکن ایرانی حملے سے نہ صرف ایک بار پھر بڑی طاقتیں اسرائیل کی حمایت میں متحدہونے لگی ہیں اور اسرائیلی جارحیت سے دنیا کی نظریں ہٹ گئی ہیں خود ایران نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اُس کا حملہ محض دمشق میں موجود اپنے قونصل خانے پر ہونے والے حملے کا بدلا لینے کے لیے ہے جس کا مطلب ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کوئی اہم نہیں حالانکہ غزہ پر ٹوٹنے والی قیامت حماس کے حملے کا نتیجہ ہے لیکن ایران فلسطینیوں پر ہونے والے حملوں کا نتیجہ کہنے میں محتاط ہے جس سے ایسا تاثر تقویت پانے لگا ہے کہ کوئی بھی ملک فلسطینیوں کی حمایت میں آگے آنے کو تیا ر نہیں یہاں تک کہ ایران بھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنے سے گریزاں ہے جس سے دنیا یا اسرائیل کو بے بس اور نہتے فلسطینی مسلمانوں کی پشت پناہی کا پیغام جائے ایرانی حملے سے صرف اِتنا ہواہے کہ اسرائیل کے اِس موقف کو تقویت ملی ہے کہ خطے کے کچھ گروہ اورممالک اُس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں جن کا خاتمہ نہایت ضروری ہے حماس کی آڑ میں وہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا مرتکب ہے لیکن اُس کے جرائم کو ایرانی حملے نے ڈھانپ دیا ہے ۔
عالمی طاقتوں کی بے جا طرفداری نے اسرائیل کو اِس حدتک بے لگام کر دیا ہے کہ امن ، معیشت اور تجارت کومزید خوفناک خطرات بڑھنے لگے ہیں اِس حقیقت کو آج بھی جھٹلانا مشکل ہے کہ تیل کی سپلائی کے ماخذ کی بات کی جائے تو مشرقِ وسطیٰ کی اہمیت سے انکار مشکل ہے علاوہ ازیں مشرق و مغرب کو ملانے والی اہم بحری گزرگاہیں اسی خطہ میں ہیں اور یہاں جنم لینے والی کشیدگی کے اثرات سے درجنوں ممالک متاثر ہوتے ہیں جس کا ادراک ہونے کے باوجودخطے میں تصادم کو طول دینے کی لیے کچھ طاقتیں کوشاں ہیں البتہ مسئلہ فلسطین کا ایسامنصفانہ حل جوتمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو دنیا کے امن ،معیشت اور تجارت کو لاحق خطرات سے محفوظ بنا سکتا ہے ایرانی حملے کے نتیجے میں سعودیہ، کویت، قطر، اردن، مصر سمیت خطے کے کئی ممالک کی سٹاک مارکیٹیں گراوٹ کا شکار ہیں اسی طرح بحری راستوں سے تجارتی سامان کی ترسیل بھی متاثر نظر آتی ہے جس سے مہنگائی و کسادبازاری کی نئی لہر جنم لینے کاخدشہ ہے روس و یوکرین، یمن ،غزہ ،سوڈان کے بعد اسرائیل اور ایران کشیدگی بھی اگر بڑے ٹکرائو میں تبدیل ہوتی ہے تو مشرقِ وسطیٰ کا منظر نامہ اپنی پسند کے مطابق رکھنے کے لیے کوشاں قوتوں کی معیشتوں کوبھی دھچکا لگ سکتاہے اِس لیے بہتر یہ ہے کہ تنازعات بڑھانے کی بجائے عالمی طاقتیں امن کو فروغ دینے والے اقدامات کریں وگرنہ جتنی تاخیر کی جائے گی غربت و افلاس کے ساتھ ایک اور بڑی جنگ سے جانی نقصان کا خدشہ حقیقت کاروپ دھار سکتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.