ایران نے اسرائیل پر میزائل بھی داغے اور ڈرونز کے ذریعے حملہ بھی کیا، بہت جرأت کا کام کیا۔ بپھرے ہوئے بدمعاش، اسرائیل کو للکارا اور اس پر حملہ بھی کر دیا۔ ایران نے اپنی فائر پاور کا خوب مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے سے پہلے ایک خاص قسم کا ماحول تشکیل دیا گیا۔ ایرانی قیادت کی دھمکیوں کا خوب چرچا کیا گیا۔ امریکہ، برطانیہ و دیگر اسرائیلی دوست اور مدگار ممالک نے معاملے کو خوب اچھالا۔ جنگی ماحول پیدا کیا گیا، ہمارے تجزیہ نگاروں نے بھی اس بھیڑچال میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ خوب جنگی ماحول بن گیا، وقتی طور پر اسرائیلی مظالم بارے خبریں دب گئیں، اسرائیلی جارحیت اور درندگی کا ذکر موقوف نظر آنے لگا، اسرائیل جارج کی بجائے ایک مظلوم ملک کے طور پر سامنے آنے لگا، جسے ایران ٹھوکنے جا رہا ہے۔ امریکی جنگی بیڑے بھی متحرک ہو گئے۔ امریکی صدر اپنا الیکشن بھول کر اسرائیل کو بچانے کے لئے سرگرم ہو گئے۔ ہمارے جیسے مسلمان عالم اسلام کے اربوں ضعیف چہکنے لگے کہ بس اب اسرائیل پر حملے کے بعد جنگ کا پانسا پلٹ جائے گا۔ ایران اسرائیل کے چھکے چھڑا دے گا وغیرہ وغیرہ لیکن ہم نے دیکھا کہ ایرانی میزائل اور ڈرونز کہیں چلے گئے۔ ایران نے میزائل داغ اور ڈرونز لانچ ضرور کئے لیکن وہ کہاں جا کر گرے، کن تنصیبات کو نشانہ بنایا، کتنے یہودی واصل جہنم ہوئے۔ اسرائیل میں کتنی تباہی مچی، کسی کو پتہ نہیں چلا لیکن ایران نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل پر حملہ کامیاب رہا، ہم نے بدلہ لے لیا۔ اسرائیل کو جارحیت کا مزہ چکھا دیا وغیرہ وغیرہ۔ دوسری طرف اسرائیل نے اعلان کیا کہ ہم نے اتحادیوں کی مدد سے 99 فیصد ایرانی ڈرونز اور میزائل مار گرائے، کہیں اکا دکا فوجی تنصیبات کو نقصان ضرور پہنچا لیکن ہم اتحادیوں کی مدد سے محفوظ رہے۔ اردن اور امریکہ نے ڈرون تباہ کرنے میں مدد کی۔ برطانیہ بھی اسرائیل کی مدد کو پہنچ گیا۔ ایرانی قیادت نے اعلان کیا کہ اگر اسرائیل اب بھی باز نہ آیا تو اس سے بھی بڑا حملہ کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ گویا یہ حملہ بڑا حملہ تھا جس میں ڈرونز اور میزائل استعمال کئے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل کا نقصان نہیں ہوا اور اگر کہیں ہوا بھی تو وہ دنیا کے سامنے نہیں آ سکا۔ امریکہ نے بہت خوبصورت اور پُرمغز بیان دیا کہ ’’اگر اسرائیل نے جوابی حملہ کیا تو امریکہ ساتھ نہیں دے گا۔ جی سیون میں متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں گے‘‘ گویا امریکہ نہ صرف خود صلح جو کے طور پر سامنے آیا بلکہ اسرائیل کو پرامن رکھنے کے عامل کے طور پر ظاہر ہوا۔ پاکستان، چین اور سعودی عرب کا اظہار تشویش بھی سامنے آیا۔ نجانے کس بات پر۔ ایرانی حملے پر یا اسرائیل کے ممکنہ جوابی حملے پر۔ امریکی بیان پر یا ایرانی قیادت کے بڑا حملہ کرنے کی دھمکی پر۔ بہرحال بیانات پر بیانات بہت ہی اعلیٰ ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے امریکہ خطے میں امن کے قیام کے لئے یکسو ہو چکا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جنگ کا دائرہ کار نہ پھیلے۔ حالانکہ اسرائیل کی جنگی مشینری، امریکی اسلحے و گولہ بارود کے سہارے ہی چل رہی ہے۔ امریکہ یہ ہلاکت کا سامان، اسرائیل کو چھپ چھپا کر نہیں دے رہا ہے بلکہ اپنے ملکی و داخلی قواعد کے مطابق علی الاعلان سپلائی کر رہا ہے۔ نقد فوجی امداد اس کے علاوہ ہے۔ ہزاروں شہید ہونے والے بچے و عورتیں جو زخمی ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں، وہ سب امریکی گولہ بارود کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ یہ امریکی شرو حمایت ہے جس کے باعث اسرائیل درندہ بنا ہوا ہے۔ بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں پر قہر بنا ہوا ہے۔ اس نے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ ہی نہیں کیا ہے بلکہ مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ لاکھوں فلسطینی اپنے ہی وطن میں اپنے ہی گھروں سے بے دخل کر دیئے گئے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا ہے، غزہ مکمل طور پر ناقابل رہائش ہو چکا ہے، مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے۔ اسرائیل غزہ سے مہاجر ہونے والوں کو بھی تباہ و برباد کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے نہ تو اس کی بمباری رک رہی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں رکنے کے امکانات کہیں نظر آ رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ اسرائیل حتمی و آخری کامیابی تک جنگ جاری رکھے گا۔ فلسطینیوں کی مکمل تباہی اور نسل کشی تک یہ جنگ جاری رہے گی۔
تاریخ کے طالبعلم کے طور پر مجھے یقین ہے کہ اسرائیل کی صہیونی قیادت عالمی بادشاہت یعنی ورلڈ گورنمنٹ کے قیام کے لئے یکسوئی سے اقدامات کر رہی ہے۔ 1916ء کے باالفور ڈیکلریشن سے لے کر 1948ء میں ریاست اسرائیل کے قیام تک، انہوں نے ہر قدم اسی سمت میں اٹھایا ہے۔ اس کے بعد بھی انہوں نے ایک طرف ریاست اسرائیل کے جغرافیائی پھیلائو کی کاوشیں کیں اور ہنوز ایسی کاوشیں جاری ہیں تو دوسری طرف عالمی بادشاہت کے قیام کے لئے طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق عمل جاری رکھا ہے۔ فلسطینیوں کا قتل عام اسی منصوبہ سازی کا حصہ ہے، اسی منصوبہ سازی کے مطابق یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا جا چکا ہے۔ سرخ بچھڑا بھی درآمد کر لیا گیا ہے جس کی قربانی کے بعد ہیکل سلیمانی کی تیسری تعمیر کا عمل شروع ہو جائے گا۔ یاد رہے صیہونی عقائد کے مطابق ہیکل، مسجد اقصیٰ کو گرا کر تعمیر کیا جانا ہے۔ ان کے مطابق مسجد اقصیٰ کے نیچے ہیکل سلیمانی کی بنیادیں موجود ہیں اور ہیکل کو انہی بنیادوں پر تیسری مرتبہ تعمیر کئے جانے کے لئے ضروری ہے کہ مسجد اقصیٰ کو منہدم کر دیا جائے۔ صیہونی اسی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ عرب و دیگر مسلمانوں کی اوقات تو حماس، اسرائیل جنگ میں دیکھی جا سکتی ہے کہ مسلمان کس طرح بے ہمتی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جبکہ اسرائیلی فورسز دیدہ دلیری اور یکسوئی کے ساتھ فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام ہی نہیں کر رہی ہے بلکہ ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آگے کیا ہو گا؟ ایسے لگتا ہے کہ قدرت ری سیٹنگ کر رہی ہے۔ معاملات کو نئی شکل دے رہی ہے۔ کمزوروں کے خاتمے سے ایک طاقتور قوم، ایک اعلیٰ نسل معرض وجود میں لائی جا رہی ہے جو معرکہ حق و باطل میں حتمی کردار ادا کرے گی، صہیونی یہوا یعنی خدائے بزرگ کی اعانت اور اس کی خوشنودی کے لئے سربکف ہیں۔ اپنے مسیحا کی آمد کے لئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ ایک ایسی عالمی حکومت کا قیام ان کا مطمع نظر ہے جس کا مرکز شہر دائود (یروشلم) میں قائم عظیم الشان عبادت گاہ (ہیکل سلیمانی) ہوگا۔ پھر ان پر اللہ ایسے ہی اپنی نعمتیں نچھاور کرے گا جیسے دائود و سلمان علیھما السلام کے زریں دور میں کی جاتی تھیں۔ صہیونی اسی جذبہ ایثار و قربانی کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ ٹکرا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ باقی غیب کے پردے سے کیا نکلنا ہے، یہ صرف اللہ کو معلوم ہے۔
تبصرے بند ہیں.