خوشحالی کا ڈھول پیٹنا چھوڑیے …؟؟؟

20

آٹھ فروری کے الیکشن میں جس طرح ن لیگ کی قیادت ووٹ ملنے کی توقع کر رہے تھی وہ پذیرائی نہ مل سکی نواز لیگ ہی نہیں پی پی کو بھی برے طریقے سے شکست ہوئی الیکشن مہم میں ایک دوسرے کیخلاف کیتی کرائی کھوہ وچ پے گئی اور حکومت بنانے کے تمام دعوے مٹی میں مل گئے جس کے بعد نواز شریف کو تو چپ لگ گئی اورشہباز شریف نے پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی دعوت دیدی دوسری طرف خورشید شاہ نے باضابطہ طور پر تحریک انصاف کو حکومت بنانے کی پیشکش کی کیونکہ دو تہائی اکثریت نہ ملنے پر کوئی بھی حکومت بنانے کے موڈ میں نہ تھا جبکہ مسائل میں گھرے ملک کی باگ ڈور سنبھالنا بھی آسان نہ تھا تاہم پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر شاطرانہ چال چلتے ہوئے ن لیگ کو میدان خار دار میں پھنسا دیا۔ رانا ثنااللہ اور جاوید لطیف اب تک رولہ ڈال رہے ہیں کہ ہم حکومت بنانا نہیں چاہتے تھے ہمیں زبردستی لایا گیا زبردستی کی حکومت کے شہبازشر یف وزیر اعظم بن گئے اور پنجاب بھتیجی کے حوالے کردیا کہا جاتا ہے کہ اگرن لیگ وفاق لینے کو آمادہ نہ ہوتی تو پنجاب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی اورفیصلہ سازوں نے ہاتھ پائوں باندھ کر ملک ن لیگ کے حوالے کردیا مزید گندہ ہونے کیلئے؟حکومت کو اب پہاڑجیسے مسائل کا سامنا ہے جسے حل کرنے کے بلند وبانگ دعوے کیے جا رہے ہیں 2023 میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا پاکستان آئی ایم ایف کے آگے نہیں جھکے گا اسحاق ڈار نے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان سری لنکا بن جائے اور پھر مذاکرات کریں، پی ڈی ایم سرکار کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے تحفظات ہمیشہ ہوتے ہیں انہیں ڈیل کیا جاتا ہے آئی ایم ایف کے بغیر ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے 30 جون 2023
کو اسحاق ڈار کے تمام دعوے خاک میں مل گئے اور آئی ایم سے 3 ارب ڈالر کا مہنگا ترین معاہدہ کرنا ہی پڑا، تقریباً 8 ماہ کی تاخیر کے بعد معاہدہ ہوا، مذکورہ پیش رفت پر ردِ عمل دیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ الحمدللہ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ پاکستان نے 9 ماہ کے لیے 3 ارب امریکی ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف سطح کا معاہدہ کر لیا ہے، دو گھنٹے کی پریس کانفرنس میںکہا کہ خدا کرے یہ آئی ایم ایف سے آخری معاہدہ ہو اس طرح کی جذباتی باتیں وہ اکثر کر جایا کرتے ہیں ساتھ ہی انہوں نے وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزارت خزانہ کی ٹیم کی کوششوں اور محنت کو سراہا، دوسری جانب آئی ایم ایف کے سامنے نہ جھکنے کے دعوے کرنے والے وزیر خزانہ نے ٹوئٹر پر آئی ایم ایف اعلامیہ شیئر کر کے اللہ کا شکر ادا کیا، اس پر شادیانے بجائے گئے لیکن یہ حکومت، سیاستدانوں، جرنیلوں اور ججز سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ جن کی قسمت میں اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ وہ اپنی کوششوں سے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں، یہ ان سب کے لیے اور میرے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمسایہ ممالک ہم سے بہت آگے چلے گئے اورہم آج تک مانگے تانگے سے ملک چلا رہے ہیں آج پھر آئی ایم ایف کے پائوں پکڑے جا رہے ہیں، وزیر اعظم، وزرا اور ترجمانوں کی جانب سے ملکی معیشت کے حوالے سے جو بیانات سامنے آرہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ انہیں معیشت اور عام آدمی کے حالات کا علم ہی نہیں، عام آدمی، کسان، مزدور، طلبہ کن دکھ اور پریشانی کن حالات سے گزر رہے ہیں، وزیر اعظم ایک بار پھرکہتے ہیں کہ مشکل وقت گزر گیا جبکہ ملک میں ہر روز مہنگائی بڑھتی جارہی ہے، غربت اور بیروزگاری تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے،وزیر اعظم کہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت ترقی کر رہی ہے، وزیر اعظم خوشحالی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں، حکومت بجٹ کا انتظار کر رہی ہے جوبقول ان کے پاکستان کی خوشحالی اور معاشی ترقی کا بجٹ ہوگا تو آئی ایم ایف یا عرب ممالک سے بھیک مانگنے کی کیا ضرورت ہے، ہر ملک میں کشکول لے کر جانے کی کیا ضرورت ہے، آپ تو خود کہہ رہے ہیں خوشحالی آرہی ہے ،قوم کو قومی ترانے کے پیچھے لگا کر اشرافیہ قومی خزانے کے پیچھے لگی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے عوام لائنوں میں لگنے پر مجبور ہیں آج پاکستان میں ڈاکخانہ ہو یا بنک آٹے کا حصول ہو یا بے نظیر پروگرام میں شمولیت کا دفتر ہر جگہ لوگوں کی لمبی قطاریں آپ کو نظر آئینگی جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ قوم کو بھکاری بناکر اشرافیہ خزانے سمیٹنے میں مصروف عمل ہے اب وقت آگیا ہے کہ بلا امتیاز احتساب کرکے قومی خزانہ کو لوٹنے والوں سے لوٹی رقم واپس لاکر ملکی قرض اتارے جائیں حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ آئی ایم ایف جانے کی بجائے اشرافیہ کے گھروں میں جائے اور وہاں سے انہیں اس قدر لوٹی گئی دولت واپس ملے گی جس کا تصور قوم کرنے سے قاصر ہے آج پاکستان کی جو حالت ہے اس کے ذمہ داران قوم جانتی ہے کون ہیں، ذمہ داروں کا تعین کرکے ہم لوٹی گئی دولت کو واپس لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں تب ہی پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہو گا، حکومت پھر اسی ڈگر پر چل رہی ہے جہاں اس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے، معاشی اور سیاسی بحران اور اداروں کے درمیان رسہ کشی گہری ہو رہی ہے جس سے عوام اور پاکستان کا شدید نقصان ہو گا، تمام ادارے اقتدار، طاقت اور قوت آزمانے کی بجائے ایک متفقہ لائحہ عمل پر متفق ہو جائیں، اس کے بغیر کوئی حل نہیں، افراط زر بڑھ رہا ہے، قرضوں اور سود کی انتہا ہو چکی، کاروبار اور تجارت کے دروازے بند ہیں، حل صرف ایک ہی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں اور شارٹ ٹرم اور لونگ ٹرم معاشی اور سیاسی استحکام کا فارمولا دیں، مایوسی اور عدم استحکام سے شدید نقصان پہنچے گا کاش ملک کو آنکھوں والا ڈرائیور مل جائے؟؟؟۔

تبصرے بند ہیں.