مہمان اور مہمان داری

182

پیغمبرِ اخلاق رسولِ کریمؐ کا فرمان ِ عالی شان ہے: ’’جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے‘‘۔ روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ جو رسولِ کریمؐ کے جدِ امجد ہیں، کبھی مہمان کا انتظار کیے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ سچی بات ہے، اچھی روایات خون میں گردش کرتی ہیں۔ آج بھی سادات گھرانوں میں مہمان نوازی کی اعلیٰ مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ تمام جنّتی عورتوں کی سردار، سیّدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کا قول معروف ہے: ’’کوئی مہمان کسی کے گھر آیا اور کچھ کھائے پیے بغیر چلا گیا تو وہ گویا کسی قبرستان میں آیا اور چلا گیا‘‘۔

مہمان نوازی اعلیٰ ظرف لوگوں کو دستور ہوتا ہے۔ کم ظرف، دنیا دار، تنگ دل اور تنگ ذہن لوگ مہمان کی آمد پر تنگ پڑ جاتے ہیں۔ عالی ظرف لوگ مہمان کا چہرہ دیکھ کھل اٹھتے ہیں۔ مہمان کی آمد اللہ کا انعام ہوتا ہے۔ اللہ جس پر مہربان ہوتا ہے، اس کے ہاں مہمان بھیجتا ہے۔ مہمان کو اللہ کی رحمت کہا جاتا ہے۔ میزبان نہیں جانتا کہ اسے مہمان کے مقدر کا رزق دیا جاتا ہے۔ یہ رزق دسترخوان پر طرح طرح کے خوان بھی ہو سکتے ہیں اور شعور کے آسمان سے نازل ہونے والا مایدہِ خیال بھی!

کسی کی خاندانی شرافت و نجابت کا اندازہ اس کا اپنے مہمان کے ساتھ سلوک سے ہوتا ہے۔۔۔ بالخصوص وہ مہمان جس سے اسے کسی فائدے کی امّید نہ ہو۔ جس مہمان سے کچھ توقعات وابستہ ہوں، اس کی دیکھ بھال ہر کس و ناکس کرتا ہے، وہ ایک معاشرتی مجبوری ہے۔ اپنے بچے بچیوں کے ممکنہ سسرال کی ضیافت، اپنے بزنس پارٹنر کی دعوت یا اپنے دفتر کے اعلیٰ حکام کی دعوتیں ہر شخص کرتا ہے، اس سے اس کا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ اس میں کچھ کمال نہیں۔ کمال اس مہمان کی ضیافت میں ہے جو آپ کا غریب رشتہ دار ہے، جو آپ کا جونیئر کولیگ ہے، جو غریب محلے دار ہے۔ مہمان دسترخوان پر ہو اور میزبان اچھی چیزیں اپنے لیے ، کل کے لیے،الگ رکھ لے، تو یہ بدترین درجے کی بخیلی ہے۔۔۔ ایسے میزبان پر لعنت برستی ہے۔ امت ِ محمدیہؐ کے دستورِ عمل میں یہ نظیر ملتی ہے کہ چراغ بجھا کر مہمان کو کھا نا کھلا دیا جاتا ہے، اور خود بھوکا بھی رہ لیا جاتا ہے۔

عید کی چھٹیوں کے بعد کلینک کھلا، لوگوں کی آمدو رفت شروع ہوئی۔ اس آمد ورفت ہمارے محلے میں مقیم ایک دیرینہ شناسا ، شکیل صاحب بھی کلینک وزٹ کرنے والوں میں شامل تھے۔ عید کے دیگر حال احوال میں بتا رہے تھے، عید پر رشتہ داروں کی خوب دعوتیں ہوئیں، ایک رشتہ دار کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ دیسی گھی میں کھانا پسند کرتے ہیں اور مٹن ہی کھاتے ہیںِ، چنانچہ ان کے لیے دیسی گھی اور مٹن کا بندوبست کیا گیا۔ شکیل صاحب پانچ مرلے کے گھر میں رہنے والے ایک درمیانے درجے کے تنخواہ دار ملازم ہیں، وہ اپنے لیے شاید کم ہی مٹن کا سالن بنا پاتے ہوں، لیکن انتہائی خوش دلی سے مزے لے لے کر خود کلامی کے انداز میں بتانے لگے:’’ میں پھر صبح ہی گوالمنڈی سے کھیر کی ٹھوٹھیاں لینے چلا گیا، واپسی پر ایک جگہ سے چکن کڑاہی بھی بنوا لی، کہیں سالن کم نہ پڑ جائے ، گھر ہی میں کباب بنا لیے تھے، روغنی نان بنوانے کے لیے نانبائی کو ایک کلو دودھ اور گھی بھی دے دیا تاکہ اچھے نان لگائے۔۔۔‘‘ وہ ضیافت کی تفصیل بتا رہے تھے اور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا، یقیناً خاندانی آدمی ہیں، مہمان کی تکریم کر رہے ہیں۔ کل رات ان کے ساتھ مہماندداری کے حوالے سے گفتگو اس کالم کا محرک ٹھہری۔ کہنے لگے: ’’مجھے گھر سے پورا تعاون حاصل ہوتا ہے، میری بیگم صاحبہ مجھ سے زیادہ میرے مہمانوں کا خیال رکھتی ہیں‘‘۔ گمان غالب ہے، ان کی بیگم صاحبہ ان ہی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں گی۔

ایک سچے درویش، دانشور اور نفیس شاعر، سیّد سرفراز علی رضوی میرے والد کے ہم عمرتھے، اللہ ان کے درجات بلند کرے، ان کے ساتھ میری دوستی ایسی گہری تھی کہ بالعموم ہم عمروں کے درمیان ہوا کرتی ہے۔ پچیس تیس برس قبل ایک دَور تھا کہ تقریباً روزانہ ملاقات ہوتی اور فلسفہ ، تصوف، نفسیات اور دینیات سمیت دنیا کے ہر موضوع پر گھنٹوں ان سے گفتگو رہتی۔ ایک دن مہمان داری کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’مہمان کی ضیافت میں ذرا سا تکلف ضرور ہونا چاہیے‘‘۔ میں نے پوچھا: ’’وہ کیسے؟‘‘کہنے لگے:’’ جو کچھ آپ ہر روز کھاتے ہیں، اس سے ذرا سے مختلف ہونا چاہیے، مثلاً اگر آپ ہر روز روٹی اور سالن کھاتے ہیں تو مہمان کے آنے پر چاول کی ڈش بھی شامل کر لیں، مہمان کا دسترخوان کباب، سلاد اور رائتہ کے ساتھ سجا دیں، مہمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی آمد پر ایک گونہ اہتمام کیا گیا ہے، وگرنہ مہمان نہ ہوا ، نوکر ہو گیا ، کہ جو آپ نے روزانہ کھایا ، ایک کھانا ٹرے میں رکھ کر اسے بھی بھجوا دیا‘‘۔ انسان ساری عمر سیکھتا رہتا ہے۔ اللہ غریقِ رحمت کرے، ان سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

مہمان کی تکریم کے حوالے سے حدیثِ پاک میں واضح حکم موجود ہے کہ مہمان کا استقبال گھر کے دروازے سے کیا جائے اور اسے گھر کے دروازے تک رخصت کیا جائے۔ مہمان کو اپنے ہاتھ سے کھانا ڈال کر دینا، جسے آج کے زمانے میں سرو کرنا کہتے ہیں، جملہ از تکریماتِ مہمان میں شامل ہے۔ بوڑھے والدین بھی اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ ان کی ذاتی خدمت کرنا دو گنا فرض ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے: ’’ جب والدین تمہارے گھر آیا کریں تو ان کی خدمت میں اس طرح مصروف ہو جاؤ جیسے تمہارے گھر میں کوئی بزرگ آ گیا ہے‘‘۔ کسی نے محفل میں سوال کیا: ’’والدین کو راضی رکھنا خاصا مشکل کام ہے، انہیں کیسے راضی رکھا جائے؟‘‘ آپؒ نے ایک مختصر سے جملے میں ایک انتہائی بلیغ جواب دے دیا۔ فرمایا: ’’ہاں! مشکل کام ہے، کیونکہ اِس میں اپنی اَنا کو جھکانا پڑتا ہے‘‘۔ یہ بظاہرمختصر بات قرآن کریم میں درج اس ہدایت کی خوبصورت تشریح ہے: ’’اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اِن سے اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا، اور اِن سے خوبصورت ، نرم بات کہنا۔ اور اِن کے لیے نرم دلی سے عاجزی کا کندھا جھکا کر رکھ اور دعا کر کہ اے میرے رب! تو اِن دونوں پر رحم فرما جیسا اِن دونوں نے مجھے بچپن میں پالا‘‘۔ یہاں کندھا جھکا کر رکھنے سے مراد اپنی اناکو جھکا کر رکھنا ہے۔ بلاشبہ اخلاق اپنی عاجزی کے اظہار کو کہتے ہیں۔ اخلاق کا مظاہرہ اس وقت نہیں ہو سکتا جب تک ہم مہمان کی عزت کرنا نہ سیکھیں۔ دراصل ہماری شناسائی کے دائرے میں آنے والا ہر شخص ہمارامہمان ہے۔ اخلاق دوسروں کی عزتِ نفس کا خیال کرنے کا نام ہے اور دوسروں کی عزتِ نفس کا خیال اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اپنی عزتِ نفس کے خیال کو پسِ پشت نہ ڈالا جائے۔

دین میں اسراف ( فضول خرچی) کی ممانعت ہے ، لیکن عجب راز ہے کہ مہمان کی ضیافت پر خرچ کی گئی رقم اسراف میں شمار نہیں ہوتی۔ سبحان اللہ! یہ ہے مہمان کی تکریم، کہ دینِ فطرت گھر آئے مہمان کے لیے اپنے اصول میں ترمیم کر دیتا ہے۔ یہیں سے زائرِ حرم کی معصیت کو مغفرت میں بدلنے کے اصول کو سمجھا جا سکتا ہے… اور یہیں سے شفاعت کے تصور کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔ ایک حاجی دعا کر رہا تھا: ”یااللہ! ہمارے ہاں دستور ہے کہ دشمن اگر چل کر گھر آجائے تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے، میں بھی ساری عمر تیرے احکام کے ساتھ دشمنی کر تا رہا ہوں، تیرے دشمن کے ساتھ دوستی کرتا رہا ہوں ، لیکن اب میں چل کر تیرے گھر آ گیا ہوں، تو مجھے معاف کر دے“۔
قرآن کریم میں بھی اس اصول کی تصریح موجود ہے۔ سورۃ مائدہ میں اس مفہوم کی آیت ہے کہ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ( یعنی گناہ کیے) اور وہ اگر آپؐ کے پاس حاضر ہو جاتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور آپؐ بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا فرماتے وہ ضرور اللہ کو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔ اللہ کا کلام زمان و مکان سے ماوراء ہے، اس کی ہر آیت کا اطلاق ہمیشہ کے لیے ہے۔ شفاعت صرف ماضی میں نہیں، بلکہ حال اور مستقبل کے لیے بھی ہے۔ کلمہ بھی ہمہ حال ہے، کلمے والے کی شفاعت بھی ہمہ حال ہے۔۔۔’’نہیں‘‘ سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا…
آسماں خوان، زمیں خوان، زمانہ مہمان
صاحبِ خانہ لقب کس کا ہے، تیراؐ تیراؐ

تبصرے بند ہیں.