حقیقت کو پھانسی نہیں دی جاسکتی

32

وہ ایک دن تھا لیکن شاید دن نہیں تھا کیونکہ دن کو روشنی ہوتی ہے، اُجالا ہوتا ہے، سب کچھ صاف صاف نظر آتا ہے۔ تو پھر وہ رات تھی لیکن شاید رات بھی نہ تھی کیونکہ رات کو اندھیرا ہوتاہے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا لیکن یہاں کچھ سائے موجود تھے جو ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ وہ کچھ کر رہے تھے مگر یہ نہیں جانتے تھے کس کے لیے کر رہے ہیں اور اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ یہ سچ تھا یا دھوکا؟ اگر سچ تھا تو ڈر کیسا اور اگر دھوکا تھا تو کس کو دیا جا رہا تھا؟ اس کا فیصلہ وقت نے کرنا تھا۔ وہ تو بس اتنا جانتے تھے کہ کچھ کرنا ہے۔ ایک مجرم کو پھانسی دینی ہے۔ وہ مجرم تھا یا کوئی اور، اس کافیصلہ بھی مستقبل نے کرنا تھا۔ بس وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے اپنا کام شروع کیا۔ کالے کالے سائے آگے بڑھے اور لوگوں کو زبان اور شعور دینے والے شخص کے چہرے پر کالا کپڑا ڈال دیا اور اسے اپنے سروں سے بھی اوپر لے جاکر تختوں پر کھڑا کردیا۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی مرتبہ اونچا کھڑا ہوکر لوگوں کو مخاطب کرچکا تھا لیکن اس مرتبہ یہ اونچائی عوامی سٹیج نہ تھا۔ تب جس طرح بدنیت ساتھی اپنے ہی دوست کے نیچے سے سیڑھی کھینچ لیتے ہیں ویسے ہی اس کے نیچے سے بھی تختہ کھینچ لیا گیا۔ وہ جھولنے لگا۔ بڑے سے گھڑیال کے پنڈولم کی طرح۔ وقت کا گھڑیال چلنا شروع ہوا، سوئی ٹک ٹک کرکے آگے بڑھنے لگی۔ کالے سایوں نے اپنا کام مکمل کیا لیکن عجیب فتح تھی کہ وہ خوفزدہ تھے، سہمے ہوئے تھے، ایک دوسرے سے آنکھیں چرا رہے تھے، اپنی کامیابی پر ایک دوسرے کو مبارکباد تک بھی نہ دے سکے۔ اب صبح ہو رہی تھی، کچھ کچھ نظر آنے لگا تھا۔ تمام تر بندوبست کے باوجود یہ خبر نکل گئی اور ایک غیرملکی نشریاتی ادارے نے بتایا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دے دی گئی۔ اس خبر کی طاقت بندوق کی طاقت سے زیادہ تھی اور گولی سے زیادہ تیز۔ لہٰذا روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہوئی پوری دنیا میں پھیل گئی۔ پھر ایک اور فکر لاحق ہوئی۔ بھٹو کو ملک کے گلی کوچوں سے بھی ختم کرنے کی کوشش شروع کی گئی۔ اسے مذہب سے بھی دور بتایا گیا لیکن اب سوچیں تو پتا چلتا ہے کہ اس دور کے پاکستان نے سب سے پہلے آج کے اسلامی بم کی بنیاد رکھی، اسلامی بینکاری کا تصور اور تو اور اسلامی بلاک کا خواب دوسرے بلاکوں کو دہشت زدہ کرگیا۔ شاید اسی لیے امریکی وزیر خارجہ کسنجر نے باقاعدہ دھمکی کے ذریعے بھٹو کو مستقبل سے آگاہ کردیا تھا۔ اُس وقت کا پاکستان دنیا میں اسلامی ممالک کے لیے باعث عزت اور دوسرے ملکوں کے لیے ایک ترنوالہ نہ تھا اور آج کا پاکستان عالمی برادری میں کیا مقام رکھتا ہے اس کے لیے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک اور حربے کے طور پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے دنیا میں رائج تمام تر تدابیر استعمال کی گئیں لیکن کارکنان تشدد کی آگ سے لے کر اپنے اوپر پیٹرول چھڑک کر آگ لگانے کی حد سے بھی گزرتے رہے۔ انہوں نے سیانے بننے کے بجائے جیالے بننا پسند کیا اور جو لوگ سیانے بنے ان کا اب کوئی وجود نہیں۔ بھٹو سے دشمنی اچھے طریقے سے نبھائی گئی یہاں تک کہ ان کے خاندان کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ سازشیں، قتل اور پھوٹ ڈلوا کر بھی کام نکالنے کی کوشش کی گئی۔ مشرقی اقدار میں بیٹیاں سب کی برابر ہوتی ہیں لیکن اس دشمنی میں بھٹو کی بیٹی اور سیاسی وارث کو بھی نہ بخشا گیا اور اس کو مارکر ہی دم لیا۔ بھٹو کی لاش کو مٹی میں دباکر بظاہر مطمئن ہو جانے والے اُس کے نام کو کبھی نہ دفنا سکے۔ اس کام کے لیے انہوں نے جتنا روپیہ، پیسہ، دشمنیاں اور دماغ اکٹھے کیے اور استعمال کیے اگر وہ اتنا روپیہ، پیسہ، اچھی نیتیں اور دماغ پاکستان میں غربت ختم کرنے کے لیے استعمال کرتے تو شاید یہاں اب کوئی غریب ہی نہ ہوتا اور بھٹو کا نام بھی خودبخود ختم ہوگیا ہوتا۔ بھٹو دراصل ایک ذات نہیں بلکہ ایک نظریئے کا نام بن گیا تھا جس نے بھوکے، گونگے اور سرجھکائے لوگوں کو زبان اور شعور دیا کہ وہ اپنی پہچان اور عزت کرا سکیں۔ اسی نظریئے کا ایک اور شخص اُدھر بہت دور ایک دوسرے براعظم امریکہ میں ناتواں اور بے زبان انسانوں کو زندگی کی امید دینے والا مارٹن لوتھر کنگ (Martin Luther King) تھا۔ اُس رنگ کے کالے اور دل کے سفید جن نما انسان نے سیاہ فام امریکیوں کو یاد دلایا کہ وہ بھی گورے امریکیوں کی طرح باصلاحیت اور باعزت ہیں۔ مارٹن لوتھر نے اپنی برادری کے لیے سول رائٹس کی بھرپور تحریک چلائی اور اس سلسلے میں تقریباً 60ہزار میل کا سفر طے کیا۔ ایک دفعہ اس نے بہار کے موسم میں تاریک قید خانے کی سلاخوں کے پیچھے سے اپنے جانثاروں کو تاریخی مراسلہ لکھا جو ”برمنگھم جیل سے خط“ کے نام سے مشہور ہوا جس میں اس نے کہا کہ ہمیں ایک اذیت ناک تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ جابر آزادی کبھی رضاکارانہ طور پر نہیں دیتا بلکہ مظلوم کو اس کا لازماً مطالبہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ اکثر کہتا تھا کہ غربت کا تعلق نسل سے نہیں ہے بلکہ ہرنسل کا غریب آدمی دراصل مظلوم انسان ہے۔ پھر ایک دن ہوٹل کی بالکونی سے خاکروبوں کے جلسہ عام سے خطاب کے دوران زور کا دھماکہ ہوا اور مارٹن لوتھر کنگ تاریخ بن گیا۔ اس کی قبر کے کتبہ پر درج ہے ”آخرکار آزادی مل گئی…… جی ہاں آزادی مل گئی…… خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں بالآخر آزاد ہو گیا……“ واقعات کی بدقسمتی دیکھئے کہ امریکہ کے دبے ہوئے انسانوں کو اٹھانے والا مارٹن لوتھر اور پاکستان میں نیم مردہ جسموں کو توانائی بخشنے والا ذوالفقار علی بھٹو ایک ہی مہینے یعنی جنوری میں پیدا ہوئے، علم نجوم میں دونوں کا برج ایک ہی یعنی جدّی (Capricorn) تھا، دونوں ایک ہی دن 4اپریل کو اپنوں سے جدا ہوگئے اور دونوں ہی غیر فطری موت مارے گئے۔ اب 45 برس بعد پاکستان کا سیاسی منظرنامہ یہ بات واضح کرتا ہے کہ 4اپریل 1979ء کو ایک شخص ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہیں دی گئی تھی بلکہ چند لوگوں نے اپنے آپ کو دھوکا دیا تھا کیونکہ بھٹو ایک حقیقت تھا جو اَب بھی موجود ہے۔ لہٰذا حقیقت کو پھانسی نہیں دی جاسکتی۔

تبصرے بند ہیں.