ماہ رمضان اور اندر کا شیطان

20

حضرت بابا بلھے شاہؒ فرماتے ہیں کہ

رب رب کردے بڈھے ہو گئے ملاں پنڈت سارے
رب دا کھوج کھرا نا لبھا سجدے کر کر ہارے
رب تے تیرے اندر وسدا وچ قرآن اشارے
بلھے شاہ رب اوہنوں ملدا جیہڑا اپنے نفس نوں مارے

لیکن ہم  نے تونفس کو ہی کھلا چھوڑ دیا ہے ہر کام میں آگے رکھا ہوا ہے آپ کا کہنا ہے کہ اللہ توشہ رگ سے بھی ”نیڑے“ ہے تو پھر تو کیوں ادھر ادھر کی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہو قارئین رحمتوں برکتوں والا بخشش والا رزق کی فراوانی والا برائیوں سے بچانے والا وہ ماہ رمضان جس میں فرض کا ثواب 70 گنا کر دیا جاتا ہے اورنفل کا ثواب فرضوں کے برابر ہو جاتا ہے ماہ مبارک تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہم سے جدا ہو رہا ہے اسی ماہ مبارک میں ایک شب شب قدر بھی آتی ہے جس میں اللہ بندے کے تمام گناہ معاف کردیتا ہے شب قدر کی حقیقت یہ ہے کہ ہزار راتوں سے افضل رات ہے ماہ رمضان میں جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں شیاطین کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے اسی ماہ میں قرآن کا نزول ہوا اس ماہ میں ایمان کے ساتھ جس نے روزے رکھے وہ ایسے ہو گا جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے نکلا ہولیکن ہم نے اس ماہ کو سیزن بنا لیا ہم نے اجر ثواب کی جگہ ہر اشیاء کے ریٹ بڑھا کرلوگوں کو لوٹا جھوٹ پہ جھوٹ بولا ناپ تول میں ہیرا پھیری کی کہا کچھ دیا کچھ ملاوٹ کو اوڑھنا بچھونا بنایا غریب کا حق مارا گھپلے کیے ہر وہ کام کیا جس سے منع کیا گیا ٹریفک سگنل کو توڑاعیدی مہم کے نام پر جیبیں صاف کی گئیں کی جا رہی ہیں پھر کہیں گے ہمارے روزے قبول ہو گئے، ہم  نے سارا دن بھوکا پیاسا رہ کربھی غلط کام نہ چھوڑے پھر ایسی بھوک پیاس کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کاش ہم  نے اس نیکیوں کی لوٹ سیل والے مہینے میں بہتر خریدو فروخت کی ہوتی مخلوق کا دل نہ دکھایا ہوتا عہدے کا غلط استعمال نہ کیا ہوتا کاش طاقت کے ہوتے ہوئے کسی کا دل نہ دکھایا ہوتا شیطان کے قید ہونے کے باوجود اندر کے شیطان کو قید کیا ہوتا افطاریاں کرانے کی ریس لگی ہوئی ہے اور رمضان المبارک گزرتے ہی سخاوت کے تمام راستے بند کر دئیے جائیں گے کیونکہ ہم اس ماہ مبارک میں بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات پرعمل کم اور دکھاوا زیادہ کرتے ہیں ہم عاشق رسول بھی ہیں غیبت نہیں چھوڑتے ہم عاشق صحابہ بھی ہیں لیکن اس کا عملی اظہار نہیں کرتے ہم حسنؓ اور حسینؓ کے ماننے والے بھی ہیں ان کی تعلیمات کو مشعل راہ نہیں بناتے ماہ مقدس میں ہر چیز کے ریٹ بڑھا کر اللہ کو نہیں شیطان کو خوش کرتے ہیں پھر کہتے ہیں یہ سیزن کا مہینہ ہے یہ کمائی کا مہینہ ہے ذخیرہ اندوزی ”ٹکا“ کے کرتے ہیں ناپ تول میں کمی کر کے اور اگلے بندے کو ”دا“ لگا کے کہتے ہیں بڑا معرکہ مار لیا ہم اللہ رسولؐ کی قسمیں کھا کر ناقص اشیاء فروخت تو کر لیتے ہیں لیکن اس مال میں برکت نہیں رہتی پھر کہتے ہیں یاراتنی تنخواہ میں یا اس کاروبار سے گھر نہیں چلتا چلے بھی کیسے کہ جب ہم نے جھوٹ مکر و فریب کو ہی دین دھرم بنا لیا، کیوں ہم بابرکت مہینے میں بھی اندر کے شیطان کو زنجیروں میں نہیں جکڑتے کہ اللہ ہم سے راضی ہو جائے کیوں مال و دولت کی فراوانی کے باوجود کنجوسی کرتے ہیں جبکہ ہم اس نبیؐ کے امتی ہیں جس نے کبھی کنجوسی نہ کی ایک جگہ حدیث مبارکہ ہے کہ آپؐ فرماتے ہیں کہ میرے پاس سونے کا ایک ٹکڑا پڑا ہے کیوں نہ اسے تقسیم کر دوں آپؐ سب سے زیادہ سخی تھے آپؐ رمضان المبارک میں چلنے والی تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت کرتے تھے اللہ کا حکم ہے کہ بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو اللہ فرماتا ہے جو لوگ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں وہ نیکوکار ہیں، فرمان رسولؐ ہے کچھ لوگوں کے ہاتھ میں نیکی کی چابیاں ہیں اور کچھ کے ہاتھ میں برائی کی چابیاں اور تالے ہیں لیکن خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے ہاتھ میں نیکی کی چابیاں ہیں اور ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جن کے ہاتھ میں برائی کی چابیاں ہیں، حضرت عمرؓ نے آدھا مال حضور کی خدمت میں پیش کیا تو وہ پکار اٹھے کہ میں ابوبکر صدیقؓ سے کسی طرح بھی آگے نہیں بڑھ سکتا آج ہم کچھ کرتے بھی ہیں تو اخبارات اور ٹی وی پر نمائش کر کے حالانکہ کہا گیا ہے کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتا نہیں ہونا چاہئے، حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں بری موت سے بچنے کے لئے صدقہ کیا کرو، خفیہ طور پر صدقہ کرنے سے رب کریم کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے پھر ہم کیوں نہیں اس پر عمل کرتے، ماہ مبارک کا آخری عشرہ جا رہا ہے ہم نے کیا عمل کیا جو رب کو پسند آ جائے حکومت نے ایسا کیا کیا کہ مہنگائی کم ہو ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر باتیں کرنے والی بیوروکریسی جب اللہ کے حضور پیش ہو گی تو وہاں کیا منہ دکھائے گی حکومت بھی روز محشر کٹہرے میں کھڑی ہو گی جس نے رعایا کے لئے کچھ نہ کیا منہ زوروں کو لگام نہ ڈالی جس نے مہنگائی کے نام پر مزید مہنگائی کی جس نے آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرض لیا لیکن عوام کی حالت پھر بھی نہ بدلی جنہوں نے گیس نہ آنے کے باوجود ہزاروں کے بل وصول کئے جنہوں نے سردیوں میں اے سی اور پنکھے بند ہونے کے باوجود آئی ایم ایف کا پیٹ بھرا جنہوں نے ادویہ ساز کمپنیوں کو اپنی مرضی کے ریٹ بڑھانے کی کھلی چھٹی دی جنہوں نے پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود اس کے باسیوں کو دال سبزی پیاز ٹماٹر ادرک لہسن کے لئے ترسایا حکمرانو ڈرو اس وقت سے جب تم سب اللہ کی پکڑ میں ہو گے اور چھڑانے والا کوئی نہیں ہو گا اب بھی وقت ہے جہنم کی آگ سے بچنے کا سامان پیدا کرو اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات پر عمل کر کے جنت کا راستہ چن لو کیونکہ جنت کے دروازے کھلے اور جہنم کے دروازے بند ہیں، بابا جی بلھے شاہؒ کے مطابق اندر کے شیطان کو جکڑو باہر والا شیطان خودبخود ”جکڑ“جائے گا کیونکہ رب تو ایویں ای راضی ہو جاتا ہے اس کے لئے کوئی الٹا لٹکنے کی ضرورت نہیں کاش اے بندے تم کوشش تو کرو۔

تبصرے بند ہیں.